یہ دیکھنے والی بات ہوگی کہ عدالت اخلاق کے قتل معاملہ کی جانچ کس طرح کرتی ہے... اپوروانند
منوسمرتی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ سبھی لوگ یکساں نہیں ہیں۔ برہمن کے قتل پر موت کی سزا ہے، لیکن برہمن کے ذریعہ شودر کے قتل پر موت کی سزا نہیں، اس کے لیے کفارہ ہے۔

محمد اخلاق کے خاندان نے ایک عرضی کے ذریعہ اتر پردیش حکومت کی اس درخواست کو چیلنج کیا ہے جس کے ذریعے اس نے اخلاق قتل معاملہ کے ملزمان کے خلاف مقدمہ منسوخ کرنے کی گزارش کی ہے۔ نوئیڈا کی عدالت نے اخلاق کے اہل خانہ کی اس عرضی کو منظور بھی کر لیا ہے۔ اخلاق کے خاندان نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا لاٹھیوں سے پیٹ پیٹ کر قتل کرنا کوئی کم سنگین جرم ہے۔ انہیں یہ سوال اس لیے کرنا پڑا کیونکہ حکومت نے ملزمین کے جرم کو یہ کہہ کر کم تر قرار دیا ہے کہ ان کے پاس سے کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا تھا۔ حکومت نے قتل کے ملزمین کے حق میں یہ دلیل بھی دی کہ اس قتل کو اتنا سنگین نہیں ماننا چاہیے، کیونکہ ملزمین کی اخلاق سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔
مقدمہ منسوخ کرنے کے حق میں حکومت کا سب سے بڑا استدلال یہ ہے کہ اس سے سماجی ہم آہنگی قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن ان سب کے علاوہ اس نے ایک بات اور کہی جس پر بحث ہونی چاہیے۔ اس نے کہا کہ اخلاق کے گھر سے جو گوشت برآمد ہوا تھا، وہ گائے کا تھا۔ یہ ’حقیقت‘ اس لیے فراہم کی گئی کہ حکومت یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ اخلاق کا قتل ملزمین نے بلاوجہ نہیں کیا تھا، اس کا ایک معقول سبب موجود تھا۔ اخلاق کے گھر میں گائے کا گوشت ہونے کے شبہ پر ملزمین نے اسے مارا تھا، یعنی قتل مذہبی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ اخلاق نے سب سے بڑا گناہ کیا تھا اور ان کے پڑوسی ہندوؤں نے اس کے لیے انہیں سزائے موت دی جو حکومت کی نظر میں قابل معافی ہے۔ اسے جرم ہی نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ حکومت قتل کی وجہ بتا رہی تھی یا اس کا جواز پیش کر رہی تھی۔
عدالت نے پچھلی سماعت میں حکومت سے پوچھا تھا کہ کیا قتل کا مقدمہ واپس لینے کی کوئی مثال موجود ہے۔ آگے وہ اور کیا پوچھے گی، اس کا ہم انتظار کریں گے۔ اس معاملے میں عدالت کے فیصلے سے ہمیں یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ کیا ہندوستان میں اب باقاعدہ طور پر منوسمرتی نافذ کر دی گئی ہے یا نہیں۔
محمد اخلاق کی قتل کے معاملہ میں حکومت کے موقف پر بات کرتے ہوئے اتر پردیش کے ہی ایک دوسرے علاقے میں ہونے والے ایک قتل اور اس پر عدالت کے موقف سے متعلق بات کرنا بے جا نہیں ہوگا۔ بہرائچ کی ایک عدالت نے ابھی چند روز قبل ایک مسلمان سرفراز کو موت کی سزا سنائی۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے رام گوپال شرما نامی ہندو کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ یہ واقعہ ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اکتوبر 2024 میں درگا پوجا کے ایک جلوس میں ہندوؤں کی ایک جارح بھیڑ سرفراز کے گھر کے سامنے نعرے لگاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس بھیڑ سے رام گوپال مشرا اچانک سرفراز کے گھر میں گھس جاتا ہے۔ جنون میں نعرے لگاتے ہوئے وہ سرفراز کی چھت پر چڑھ جاتا ہے۔ وہاں ریلنگ پر لگا ’علم‘ نوچنے لگتا ہے اور اس ریلنگ کو توڑ ڈالتا ہے۔ اس کے بعد گولی چلتی ہے اور وہ مارا جاتا ہے۔
اگر آپ میرے گھر میں زبردستی گھس آئیں، توڑ پھوڑ کرنے لگیں اور میری سلامتی کو خطرہ دکھائی دے، تو شاید مجھے اپنی حفاظت کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ خاص طور پر تب جب پولیس پرتشدد بھیڑ کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہو اور نہ میرے گھر میں گھسنے والے کو روکنے کے لیے کچھ کر رہی ہو۔ موت افسوسناک ہے، لیکن اپنے اوپر حملہ کرنے والے پر گولی چلانے کو دہشت پھیلانے کا واقعہ کہنا کتنا مناسب ہے؟
بہرحال! اس ایک واقعہ میں ایک سال گزرتے گزرتے انصاف ہو گیا۔ ملزم کو سب سے بڑی سزا، سزائے موت کی سفارش حکومت نے کی اور عدالت نے منوسمرتی کا حوالہ دیتے ہوئے عوام میں خوف بٹھانے کے لیے یہ سزا سرفراز کو دے بھی دی۔
اخلاق اور سرفراز کے معاملوں میں ایک مماثلت ہے۔ دونوں کے گھروں پر حملہ ہوا۔ اخلاق کے گھر پر حملے کے لیے گاؤں کے مندر سے، جو اخلاق کے پڑوس میں ہے، اعلان کر کے بھیڑ جمع کی گئی۔ اخلاق کے گاؤں والے اخلاق کے گھر پر اور ان پر حملہ کرنے کی نیت سے جمع ہوئے۔ انہوں نے منصوبہ بندی کر کے ان کے گھر پر حملہ کیا اور اخلاق کو گھر سے گھسیٹ کر باہر نکالا اور دن دہاڑے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ یہ کوئی وقتی اشتعال یا غصے میں کیا گیا قتل نہیں تھا۔ یہ ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا حملہ اور قتل تھا۔ یہ تشدد واقعی دہشت گردانہ تشدد کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ اس سے تمام مسلمانوں میں دہشت پھیل گئی۔ اب انہیں یقین نہیں رہا کہ کب ان کے پڑوسی ان کے گھر میں گھس کر ان کے فریج، باورچی خانے وغیرہ کی جانچ کرنے لگیں اور ان پر کوئی بھی الزام لگا کر انہیں مار ڈالیں۔ اخلاق کے قتل کے بعد اس الزام کی آڑ میں متعدد مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔
اخلاق کا قتل کیے جانے کے بعد تمام ملزمین کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ 2 کی موت قدرتی وجوہات سے ہو گئی۔ ان کے جسد خاکی پر قومی پرچم ڈال کر اَرتھی نکالی گئی، گویا وہ کسی قومی فریضہ میں شہید ہوئے ہوں۔ ہندو گاؤں والوں کو اخلاق کے قتل کا ذرا بھی افسوس نہیں ہے، بلکہ وہ اخلاق کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں۔ بی جے پی لیڈران اور وزراء نے ملزمین کے حق میں بیانات دیے۔ قتل کے بعد اخلاق کے خاندان والوں کے لیے گاؤں میں رہنا مشکل ہو گیا اور ان کا گھر ویران ہی پڑا رہا۔
اتر پردیش حکومت کے مطابق اخلاق کا قتل اتنا سنگین جرم نہیں، بلکہ جرم ہی نہیں ہے۔ وہ دلیل دے رہی ہے کہ استغاثہ کا موقف کمزور ہے، گواہی مکمل ہونے میں تاخیر ہو رہی ہے اور مناسب ثبوت نہیں مل رہے، اس لیے بھی مقدمہ چلانے میں وقت کیوں ضائع کریں۔
قتل کے معاملہ میں ملزم کے خلاف ثبوت جمع کرنے اور گواہی مضبوط کرنے کا کام پولیس کا ہے۔ یہاں ریاست یہ کہہ رہی ہے کہ وہ یہ نہیں کر پائی ہے اور نہ اس کی خواہش ہے کہ وہ ملزمین کے خلاف مقدمہ مضبوط کرے۔ وہ مقدمہ چلتے رہنے اور سزا کے خدشہ سے خوفزدہ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس سے سماج میں بدامنی پیدا ہو رہی ہے۔ انصاف کے مقابلے وہ سماج میں امن کے لیے فکر مند ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ رہی کہ اس سماج سے مراد صرف ہندو سماج ہے۔ مقدمہ واپس لینے اور اخلاق کے قتل کے ملزمین کو یوں ہی چھوڑ دینے کا اثر مسلم سماج پر کیا پڑے گا، اس کی اسے پروا نہیں۔ بلکہ شاید وہ چاہتا ہے کہ ہندوؤں کے سکون کے لیے مسلمان انہیں یہ حق دے دیں کہ وہ ان کا قتل کریں اور اس کے بعد اس قتل یا تشدد کے بارے میں بات بھی نہ کریں، کیونکہ اس سے ہندوؤں کے چین میں خلل پڑتا ہے۔
اخلاق کے قتل کی کوئی مزاحمت اس وقت نہیں کی جا سکی۔ بھیڑ اطمینان سے ان کا قتل کرتی رہی۔ ریاستی حکومت کے مطابق یہی مناسب ہے۔ رام گوپال مشرا کے تشدد کی مزاحمت کی گئی اور وہ مارا گیا۔ حکومت اور عدالت رام گوپال کے تشدد کی بات نہیں کرنا چاہتیں۔ اس کے باوجود کہ اشتعال رام گوپال مشرا اور ہندو بھیڑ کی طرف سے تھا، حکومت اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ رہی ہے۔ سرکاری موقف کو اب اخبارات بھی جائز ٹھہرا رہے ہیں۔ انڈین ایکسپریس نے اس کی رپورٹنگ کرتے ہوئے کہا کہ رام گوپال مشرا سرفراز کی چھت پر حالات کا جائزہ لینے چڑھا تھا۔ اس نے رام گوپال کے پرتشدد فعل کا ذکر ہی غائب کر دیا۔ اب مسلمانوں کے گھروں میں گھسنا حالات کا جائزہ لینے کے نام پر جائز مان لیا جائے گا اور مسلمانوں سے کہا جائے گا کہ انہیں اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔
منوسمرتی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ سبھی لوگ یکساں نہیں ہیں۔ برہمن کے قتل پر موت کی سزا ہے، لیکن برہمن کے ذریعہ شودر کے قتل پر موت کی سزا نہیں، اس کے لیے کفارہ ہے۔ آج ہم اس سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ اگر کوئی ہندو شخص مسلمان کا قتل کرے تو اب کفارہ بھی نہیں کرنا ہے، بلکہ اس کا جشن منانا ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی ریاست میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی، تشدد یا ان کے قتل پر ان کا عوامی استقبال کیا جاتا ہے۔ کٹھوعہ، جھارکھنڈ، دادری، کولکاتا میں یہی کیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ محمد اخلاق کے قتل کو نوئیڈا کی عدالت آئین کی نظر سے جانچتی ہے یا آر ایس ایس کی منوسمرتی کی نظر سے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔