اسرائیل کا رویہ عالمی امن کے لیے خطرہ

اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان باضابطہ جنگ شروع ہو گئی تو پھر یہ اندیشے مسترد نہیں کئے جا سکتے کہ تیسری عالمی جنگ شروع ہو سکتی ہے

<div class="paragraphs"><p>اسرائیلی حملے کے بعد ایرانی شہر میں جام اور دھوئیں کا غبار  / Getty Images</p></div>

اسرائیلی حملے کے بعد ایرانی شہر میں جام اور دھوئیں کا غبار / Getty Images

user

نواب علی اختر

ارض مقدس فلسطین کی زمین پر قابض اسرائیل کے اشتعال انگیز رویے نے ایک بار پھر مشرق وسطیٰ کو ایک مکمل جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ جبکہ اس تنازع میں پہلے سے ہی نازک صورت حال کا شکار خطے کی آگ کو مزید بھڑکانے اور عالمی معیشت کو جھنجھوڑنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ان حملوں میں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں اور فوجی اہداف کے ساتھ رہائشی علاقوں اور متعدد اہم تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ تہران نے اسرائیل کی جارحیت کو ’اعلان جنگ‘ قرار دیا ہے۔

عالمی میڈیا کی خبروں کے مطابق گذشتہ رات ایران پر صہیونی ریاست کی جارحیت کے جواب میں ایران کی کارروائی کے سبب تل ابیب کے بہت سے علاقے غزہ کے بعض محلوں کی طرح مٹی کا ڈھیر بن گئے، تاہم اس جوابی کارروائی میں ایک اہم خبر یہ بھی تھی کہ ایران کی فوج کے دفاعی نظام نے 3 ایف 35 جنگی جہازوں کو تباہ کر کے اس کی افسانوی صلاحیتوں کو متنازعہ بنا دیا۔ امریکی ساختہ ایف-35 لڑاکا جہازوں میں جدید ترین ٹیکنالوجی کی صلاحیتیں ہیں جنہیں صرف ایک طاقتور دفاعی نظام ہی نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ واقعہ اب تک دنیا میں پہلی بار پیش آیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل نے ساری دنیا کو جنگ میں جھونکنے کی تیاری شروع کر دی ہے اور اسی وجہ سے وہ پاگل ہاتھی کی طرح یکے بعد دیگرے لگاتار فوجی کارروائیاں کرتا چلا جا رہا ہے۔ اسرائیل نے پہلے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں اور فلسطینیوں کے قبرستان میں تبدیل کردیا تو شام میں اور لبنان وغیرہ پر بھی حملے کئے ۔اسی طرح اب اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل ساری دنیا کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہے اور وہ اپنے طور پر من مانی جارحیت کرتے ہوئے نہ صرف مشرق وسطی میں بلکہ ساری دنیا میں کشیدگی پیدا کرنے کا موجب بن رہا ہے۔

اسرائیل نے ایران پر جو فضائی حملے کئے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ ان کے نتیجہ میں ایک باضابطہ جنگ شروع ہو سکتی ہے کیونکہ ایران نے بھی جوابی کارروائی شروع کرتے ہوئے اسرائیل پر تابڑ توڑ حملے کئے ہیں۔ اس نے بلیسٹک میزائلوں کے ساتھ ڈرون حملے بھی کئے ہیں۔ اس معاملے میں اسرائیل کے عزائم بہت واضح نظر آ رہے ہیں کہ وہ توسیع پسندانہ مقاصد کے تحت کام کر رہا ہے اور اپنے لئے کوئی خطرہ برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے جبکہ خود اسرائیل ساری دنیا میں امن کے لیے خطرہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ امریکہ اور اس کے ہمنوا لگاتار اس کی حمایت کر رہے ہیں۔


جہاں تک امریکہ کا سوال ہے تو یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ نے ایران پر اسرائیل کے حملے کی مخالفت کی ہے۔ اسی طرح کچھ عرب ممالک بھی صہیونی فوجی کارروائیوں کے مخالف نظر آرہے ہیں جس کے نتیجہ میں اسرائیل یکا و تنہا ہوسکتا ہے۔ چین کا جہاں تک سوال ہے وہ روایتی طورپراسرائیل مخالف رہا ہے۔ اگر عرب ممالک اور چین اسرائیل کی مخالفت کریں ا ور امریکہ بھی قدرے خاموشی اختیار کرلے تو پھر اسرائیل کے لیے آگے کا راستہ آسان نہیں ہوگا تاہم مستقبل کے خطرات کی پرواہ کئے بغیر اسرائیل ساری دنیا کے لیے مسائل پیدا کرنے کی وجہ بنتا جا رہا ہے۔

اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان باضابطہ جنگ شروع ہو گئی اور یہ جنگ طوالت اختیار کر گئی تو پھر یہ اندیشے مسترد نہیں کئے جا سکتے کہ تیسری عالمی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ کئی ممالک اس جنگ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اسرائیل کی مخالفت اور ایران کی تائید میں بھی کئی ممالک سامنے آ سکتے ہیں جس کے نتیجہ میں ایک وسیع تر فوجی تصادم پیدا ہو سکتا ہے۔ فوجی ٹکراؤ کسی بھی حالت میں کسی بھی ملک کے لیے نفع بخش نہیں ہوتا لیکن اسرائیل اپنے عزائم اور منصوبوں کو کسی بھی طرح پورا کرنا چاہتا ہے اور وہ انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب سے بھی گریز نہیں کر رہا ہے۔

یہ بات اور سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو پایہ تکمیل کو پہونچانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے غزہ کی آبادی کا خاتمہ کرنے کا منظم انداز میں سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس نے سارے غزہ شہر کو ایک طرح سے ملبہ کے ڈھیر اور نہتے و بے گناہ فلسطینیوں کے قبرستان میں تبدیل کردیا ہے۔ اس کے باوجود دنیا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور انسانیت کو شرمسار اور رسواء کرنے والے اسرائیل کے جرائم میں اپنی حصہ داری ادا کی جا رہی ہے۔ امریکہ تو اسرائیل کے منصوبوں کا یقینی طور پر حصہ دار بنا ہوا ہے اور اسرائیل کی تائید کر رہا ہے۔

ایران پر جارحیت کو جواز بناتے ہوئے تل ابیب کا کہنا ہے کہ اس نے ’اسرائیل کی بقا‘ کو لاحق خطرے کی وجہ سے حملہ کیا، یہ حقائق کے منافی ہے۔ اس لئے کہ دنیا جانتی ہے کہ یہ اسرائیل ہی ہے جو ایران کو مسلسل اکساتا رہا ہے۔ دمشق میں ایرانی سفارتی تنصیبات پر بمباری اور گزشتہ سال تہران میں حماس کے رہنما اسمٰعیل ہنیہ کے قتل کے بعد اسرائیل کو نشانہ بنانے کی غرض سے کیے گئے دو الگ الگ ایرانی میزائل اور ڈرون حملے اس بات کا ثبوت ہیں۔ درحقیقت اسرائیل گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل دیگر ممالک پر حملے اور لوٹ مار کر کے علاقائی امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔


گزشتہ چند سالوں میں غزہ میں قتل و غارت گری مچانے کے علاوہ اسرائیل نے شام، لبنان، یمن اور اب ایران پر فوجی حملے کیے ہیں۔ کئی ریاستوں بالخصوص مسلم بلاک کی جانب سے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔ اس کے باوجود دیگر ممالک اس معاملے کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حملوں کو ’بہترین‘ قرار دیا اور کہا کہ مزید حملے ہو سکتے ہیں لیکن انہوں نے حیرت انگیز طور پر ایران سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کو کہا ہے۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اپنے سر پر رکھی بندوق کی وجہ سے ایران مذاکرات کرے گا۔

ایرانی قیادت نے اس حملے کا انتقام لینے کا وعدہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ ایران، عراق کے ساتھ ہونے والی 8 سالہ وحشیانہ جنگ سے بھی گزر چکا ہے جبکہ وہ لانگ گیم کھیلنے میں ماہر ہیں۔ اسرائیل نے خبردار کیا ہے کہ جب تک ضرورت ہو حملے جاری رہیں گے۔ اسرائیل کے اس موقف کو ایران ایک چیلنج کے طور پر لے سکتا ہے۔ اس طرح دنیا ایک انتہائی خطرناک دوراہے پر کھڑی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اجلاس کر رہی ہے۔ اگرچہ اس سے توقعات کم ہونی چاہئیں لیکن اس نئی جنگ کو روکنے کے لیے بھرپور کوششوں کی ضرورت ہے۔

گذشتہ چند دنوں سے مشرق وسطی کی صورتحال کشیدہ دکھائی دے رہی تھی اور اب ایک باضابطہ فوجی ٹکراو شروع ہونے کے تعلق سے اندیشے لاحق ہوگئے ہیں کہ یہ مکمل جنگ کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔ عالمی برادری اورخاص طور پر امریکہ اور اقوام متحدہ کو اس معاملے میں حرکت میں آنے کی ضرورت ہے، اسرائیل پر لگام کسی جانی چاہئے۔ اسرائیل کے حملوں کی مذمت کی جانی چاہئے۔ اسے مزید کسی جارحیت سے روکا جانا چاہئے۔ اسرائیل کے ظالمانہ اور وحشیانہ اقدامات کی مخالفت کرتے ہوئے اس پر قابو کیا جانا چاہئے کیونکہ آج کی دنیا کسی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

موجودہ حالات میں سارے مشرق وسطی کا علاقہ ایک طرح سے بحران کا شکار ہوتا جا رہا ہے اور اگر اسرائیل اپنے جارحانہ منصوبوں پر عمل کرتا ہے صورتحال دھماکہ خیز ہو سکتی ہے۔ اس صورتحال میں عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل پر لگام لگائیں اور مشرق وسطی کی صورتحال کو دھماکہ خیز ہونے اور کسی جنگ کے امکان کو ختم کرنے کے لیے سرگرم ہو جائیں۔ جنگ کو روکا جانا چاہئے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیل کو دنیا کے سامنے جوابدہ بنایا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو دنیا میں بڑی تباہی کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جا سکتا اور انسانیت کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔