اسرائیل فلسطین جنگ، مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش

اہم سوال یہ ہے کہ حماس کو سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کو بگاڑنے سے ایسی کون سی دولت حاصل ہو رہی ہے کہ جس کے سبب اس نے فلسطینیوں کے قتل عام کا خطرہ مول لے کر بھی اسرائیل پر حملہ کر دیا؟

<div class="paragraphs"><p>غزہ پر بمباری، تصویر&nbsp;آئی اے این ایس</p></div>

غزہ پر بمباری، تصویرآئی اے این ایس

user

سراج نقوی

اسرائیل اور فلسطین کے حریت پسندوں کے درمیان جاری جنگ میں کمزور پڑ رہے اسرائیل کے مغربی خیر خواہ اب جنگ کو مسلمانوں کے مسلکی اختلافات کے بہانے نیا رخ دینا چاہتے ہیں۔ اس کا ثبوت بی بی سی کی ایک تازہ رپورٹ ہے، جو عرب ممالک اور ایران کے درمیان کے مبینہ مسلکی اختلافات کی نئی تشریح کر کے حماس کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ جمعہ یعنی اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی شروع ہونے کے دن، 24نومبر کو آئی اس رپورٹ میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس جنگ کے پس پردہ ایران اور اس کے تین دشمنوں امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان الجھی ہوئی سفارتی گتھی کا اہم رول ہے اور کیونکہ اب کئی برس بعد ایران اور سعودی عرب میں سفارتی رشتے بحال ہوئے ہیں۔ اس لیے دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب بھی آ رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ایران اور سعودی عرب کے درمیان بہتر ہوتے رشتوں کے باوجود اس طرح کی خبریں بھی آ رہی تھیں کہ جلد ہی سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بھی آپسی تعاون میں اضافہ سکتا ہے، اور دوطرفہ رشتے معمول پر آ سکتے ہیں۔ اس لیے ان رشتوں کو پٹری سے اتارنے کے لیے حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا۔ پہلے بی بی سی کی مذکورہ رپورٹ کے ایک پیراگراف پر نگاہ ڈالیں، رپورٹ کہتی ہے کہ، ”ایران ایک شیعہ اکثریت والا ملک ہے جبکہ سعودی عرب خود کو سب سے بڑی سنّی طاقت مانتا ہے۔

ان کے درمیان ٹکراؤ کی جھلک غزہ پٹّی میں جاری ٹکراؤ میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ “رپورٹ کے مطابق کئی تجزیہ کار مانتے ہیں کہ فلسطینی انتہاپسند تنظیم حماس کی طرف سے سات اکتوبر کو کیے گئے چونکانے والے حملے کا ایک مقصد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان رشتوں کو معمول پر لانے کے لیے جاری مذاکرات کو پٹری سے اتارنا تھا۔“ درپردہ اشارہ یہ ہے کہ ایسا ایران کی ایماء پر کیا گیا۔

میڈیا میں جس طرح کا پروپگنڈا نظر آ رہا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی ممالک کا میڈیا کن خطوط پر کام کر رہا ہے اور حماس جیسی حریت پسند تنظیم کی جد و جہد آزادی کو بدنام کرنے کے لیے کس طرح کی سازشوں کا حصہ بنا ہوا ہے۔ کیا یہ ایک انتہائی لچر دلیل نہیں ہے کہ جو فلسطینی قوم کئی دہائیوں سے اسرائیل کے ظلم و ستم برداشت کر رہی ہے، جس کو اس کی سرزمین سے ہی بے دخل کر دیا گیا ہے اور جو خود اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے تنہا چھوڑ دی گئی ہے وہ خطے کی سیاست کو متاثر کرنے اور اسرائیل و سعودی عرب کے درمیان رشتوں کو معمول پر لانے کی کوششوں کو پٹری سے اتارنے کے لیے اسرائیل پر ایسا شدید حملہ کر دیگی کہ جس کی توقع خود اسرائیل نے خواب میں بھی نہ کی ہوگی۔ کیا یہ ایک عجیب اور ناقابل فہم منطق نہیں کہ حریت پسند حماس اپنے حقوق کی جنگ سے بھی زیادہ شدّت سے اسرائیل اور سعودی عرب کے ممکنہ طور پر بہتر ہونے والے رشتوں کو پٹری سے اتارنے کے لیے ایک ایسی جنگ چھیڑ دے کہ جس میں اسے بڑے نقصان کا اندیشہ ہو۔ اور یہ نقصان بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ کی مختصر سی زمینی پٹی میں سے بھی کچھ حصہ اسرائیل کے پاس جانے کے شکل میں بھی ہو۔ یہ بات تو کوئی انتہائی ناقص العقل ہی سوچ سکتا ہے کہ اسرائیل پر حملہ کرنے والی حماس کو اسرائیل کی فوجی طاقت کا صحیح اندازہ نہ رہا ہو اور اس نے اپنے حملے کے ممکنہ نتائج پر غور نہ کیا ہو، ایسے میں یہ نرالی منطق پیش کرنے والوں کو کیا کہا جائے کہ حماس کا حملہ سعودی عرب اور اسرائیل کے بہتر ہوتے تعلقات کو پٹری سے اتارنے کے لیے تھا۔ اگر حماس یہ چاہتا بھی تھا تو یہ کام تو ایران اور سعودی عرب کے سفارتی رشتوں کی بحالی نے ہی کر دیا تھا، ایسے میں حماس کو ”آ بیل مجھے مار“ جیسی کوئی حرکت کرنے اور اسرائیل سے ایک خطرناک جنگ چھیڑ دینے کی کیا ضرورت تھی۔


اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ حماس یا فلسطینیوں کو سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کو بگاڑنے سے ایسی کون سی دولت حاصل ہو رہی ہے کہ جس کے سبب اس نے فلسطینیوں کے قتل عام کا خطرہ مول لے کر بھی اسرائیل پر حملہ کر دیا؟ سعودی عرب طویل عرصے سے فلسطین کی مالی اعانت کر رہا ہے اور اس مدد پر اسرائیل سے سعودی عرب کے تعلقات بہتر ہونے کے باوجود کوئی فرق پڑنے والا نہیں تھا۔ اس لیے کہ فلسطین کی مالی مدد تو امریکہ اور کئی مغربی ممالک بھی کر رہے ہیں لیکن ایک آزاد اور خود مختار فلسطین کے قیام کے لیے انھوں نے زبانی دعووں سے آگے بڑھ کر کبھی کچھ نہیں کیا۔ سعودی عرب ہی نہیں بیشتر عرب ممالک کا معاملہ یہی ہے کہ ایک آزاد فلسطین کے قیام کے لیے انھوں نے زمنین سطح پر کچھ نہیں کیا۔ کئی مسلم ممالک کے اسرائیل سے بہتر سفارتی رشتے ہیں لیکن فلسطینی کاذ کے لیے ان بہتر سفارتی رشتوں کو استعمال کرنے سے یہ تمام ممالک بچتے رہے ہیں۔ غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کو محصو ر کرنے میں مصر جیسے ملک کا کیا رول ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ مصر وہ واحد ملک ہے جس کی رفاہ سرحد فلسطین سے ملتی ہے۔ مصر چاہتا تو فلسطینیوں کی مدد کے لیے اسے کھول سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں امریکہ کے فوجی اڈوں سے اسرائیل کی مدد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن اسے روکنے کی تجویز او آئی سی اور عرب لیگ کے اجلاس میں مسترد کی جا چکی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ حماس نے اگر سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کو بہتر نہ ہونے دینے کے لیے ہی اسرائیل پر حملہ کیا تو اس کے کیا فائدے اسے مل سکتے ہیں؟ ظاہر ہے اور بالکل سامنے کی بات ہے کہ اس مقصد کے لیے حماس اپنا اور فلسطینی عوام کا وجود خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔

البتہ اگر معاملہ یہ ہوتا کہ ایران اور امریکہ یا ایران اور اسرائیل کے درمیان سفارتی رشتوں کے قیام کا کوئی امکان حماس کو نظر آتا تو اسرائیل پر اس کے حملے کا جواز قابل تسلیم تھا۔ اس لیے کہ سب جانتے ہیں کہ ایران اسرائیل کا کس قدر سخت مخالف ہے، ایران اور امریکہ کے درمیان دشمنی کس سطح کی ہے۔


یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی جنگ میں ایران ہی فوجی اور دفاعی مدد فلسطین کو دے رہا ہے اور مسلم ممالک کے اجلاس میں کئی سخت تجاویز بھی ایران کی طرف سے ہی پیش کی گئی تھیں، جو بہرحال منظور نہیں ہو سکیں۔بہرحال بی بی سی کی مذکورہ رپورٹ میں اس سلسلے میں جو دلیل دی گئی ہے اس کے مطابق اگر اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان رشتے بہتر ہو جاتے تو اس سے ایران کے تین دشمنوں اسرائیل، سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے امکانات پیدا ہو جاتے۔ رپورٹ میں اس بات کو بھی خصوصیت سے بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ”حماس ایک ایسی عجیب تنظیم ہے جو سنّی ہے لیکن جسے کئی دہائیوں سے شیعہ اکثریت والے ملک ایران سے مالی اور فوجی مدد مل رہی ہے۔“ اس بات پر زور دینے کا مقصد عالم اسلام کو مسلکی بنیادوں پر ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھنے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ حالانکہ تماتر مسلکی اختلافات کے باوجود سچ یہی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان، ایک اللہ، ایک قرآن، ایک رسول ﷺ ایک کلمہ اور ایک قبلہ پر متفق ہیں، لیکن اس کے باوجود مغرب جس طرح سے اسرائیل فلسطین جنگ میں فلسطین یا حماس کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے اسی کے تحت مسلمانوں کے مسلکی اختلاف کو بھی غلط تناظر میں اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔