فلسطینیوں کی نسل کشی سے پہلے اسرائیل کو حزب اللہ اور ایران سے نمٹنا ہوگا

مشرق وسطیٰ بڑی جنگ کے دہانے پر ہے۔ صیہونی حکومت فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے۔ سرزمین فلسطین کا 75 فیصد سے زیادہ حصہ غصب کرنے کے بعد اب اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی پر آمادہ ہے

<div class="paragraphs"><p>اسرائیلی حملے کے بعد غزہ میں تباہی کا منظر، تصویر Getty Images</p></div>

اسرائیلی حملے کے بعد غزہ میں تباہی کا منظر، تصویر Getty Images

user

جمال عباس فہمی

مشرق وسطیٰ بڑی جنگ کے دہانے پر ہے۔ صیہونی حکومت فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے۔ سرزمین فلسطین کا 75 فیصد سے زیادہ حصہ غصب کرنے کے بعد اب اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی پر آمادہ ہے۔ ایک جانب اسرائل کو امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ دوسری جانب نام نہاد مسلم حکمراں بے غیرتی کی غفلت میں پڑے ہیں۔ ایسی صورتحال میں لبنان کی تنظیم حزب اللہ اور ایران نے فلسطینیوں کی ہر ممکن مدد کرنے اور اسرائیلی عزائم کو ناکام بنانے پر کمر کس لی ہے۔

مشرق وسطیٰ کے اس پورے ہولناک منظر نامہ میں سب سے زیادہ افسوسناک پہلو مسلم اورعرب حکومتوں کی بے حسی ،بے غیرتی اور نجی مفاد کی افیم کے نشے میں دھت ہونا ہے۔ایک جانب اسرائیل کو امریکہ کی کھلم کھلا عسکری اور مالی امداد حاصل ہے تو دوسری طرف مسلم حکومتوں نے اپنے دینی اور مظلوم بھائیوں کو انکے حال پر چھوڑ دیا ہے۔امریکی فوجی حکام تمام تر فوجی ساز و سامان کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اسرائل میں موجود ہیں۔اسکے ساتھ ہی امریکہ نے میرینز کو مقبوضہ ساحل پر تعینات کردیا ہے۔"سی این این" کی رپورٹ کے مطابق 2000 امریکی میرینز پر مشتمل یہ فورس ملک کے ان دو طیارہ بردار بحری جہازوں میں شامل ہو جائے گی جو اس وقت مشرقی بحیرہ روم میں تعینات ہیں۔اور دوسری طرف نام نہاد مسلم ملک مصر رفع بارڈر کو کھول کر غزہ کے تباہ حال فلسطینیوں تک کسی قسم کی مدد پہونچنے دینے پر راضی نہیں ہے۔ایک ہزار ٹن انسانی امداد لے جانے والے تقریباً 100 ٹرک مصر سے غزہ کی پٹی میں داخل ہونے کےلئے اجازت کے منتظر ہیں۔ ایک جانب کولمبیا جیسا غیر مسلم ملک ہے جس نے فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کردیا ہے اور دوسری طرف ترکی،مصر، متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین، اومان، سوڈان اور مراقش جیسے وہ نام نہاد مسلم ملک ہیں جنکے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ انکا حال یہ ہیکہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طور پر اسرائیل سے سفارتی رشتے توڑنے کی بات تو دور انکے حکمرانوں کے منھ سے غزہ پر اسرائیلی مظالم پر افسوس تک ظاہر نہیں کیا گیا۔ان مسلم ملکوں نے امریکی اور یوروپی اسلحہ ساز کمپنیوں سےلاکھوں ڈالر مالیت کے جدید ترین ہتھیار تو خرید رکھے ہیں لیکن انکی اتنی ہمت نہیں ہیکہ ان ہتھیاروں سے وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کا صیہونی ظالموں سے دفاع کر سکیں۔


ادھر فلسطینیوں کی حمایت میں لبنان کی جنگجو تنظیم حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔حزب اللہ نے لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے درمیان سرحد پر واقع "المنارہ" بستی پر دھاوا بول دیا ۔حزب اللہ کے مجاہدین نے شمالی سرحد کے ساتھ صیہونی فوج کے کئی مضبوط ٹھکانوں پر حملہ کیا، جس سے کئی صیہونی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے اور مانیٹرنگ اور ٹریکنگ سسٹم کو نقصان پہنچا اور سرحد پر لگے 30 کے قریب کیمرے اور انٹیلیجنس ٹاور بھی تباہ کردیئے گئے جبکہ کئی مرکاوا ٹینک اور فوجی سازوسامان بھی تباہ کردیا گیا۔اس درمیان حزب اللہ نے اپنے ایک اور مجاہد حسین کمال المصری کی شہادت کا اعلان کیا ہے۔ جو شتیلا کے علاقے میں صیہونی فوج کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے ہیں۔ اس طرح اسرائل کے خلاف لڑائی میں حزب اللہ کے شہدا کی تعداد 13 ہوچکی ہے۔ لبنانی ذرائع نے یہ بھی بتایا ہیکہ جنوبی لبنان میں غیر قانونی طور پر قابض کفر شوبا کی پہاڑیوں میں صیہونی فوجی ٹھکانوں پر میزائلوں کے ذریعے حملے کیے جا رہے ہیں۔

ایران فلسطینیوں کو صیہونی مظالم سے بچانے کا مصمم ارادہ کئے ہوئے ہے۔قطر کے دارالحکومت دوحہ میں الجزیرہ ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نےصاف صاف کہا ہیکہ اگر غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کی جارحیت بند نہ کی گئی تو جنگی محاذوں میں توسیع کا امکان ہے اور یہ امکان ہر لمحہ بڑھ رہا ہے۔حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے صیہونی حکومت کو اس کے حامیوں کے ذریعے بتادیا ہے کہ اگر غزہ میں اس کے جرائم بند نہ ہوئے تو کل بہت دیر ہو جائے گی۔ایرانی میڈیا کے مطابق اسرائیل سے ممکنہ جنگ لڑنے کیلئے اب تک 24 لاکھ ایرانیوں نے اپنے آپ کو رضاکار فورس کے طور پر رجسٹر کرایا ہے۔ایران نے اپنی سرحدوں پر فوج کو الرٹ کردیا ہے۔


فلسطینیوں کی حمایت میں حزب اللہ اور ایران کے میدان میں کھل کر اتر آنے سے اسرائیل کے تیور ڈھیلے پڑ گئے ہیں۔اب تک وہ غزہ میں زمینی کاروائی شروع کرنے کی ہمت نہیں کرسکا ہے۔اس بیچ امریکی سینٹرل کمان کا ایک خفیہ دستاویز سامنے آیا ہے جس میں چیف نیشنل گارڈ بیورو جنرل ڈینیل آر ہوکانسن کے حوالے سے کہا گیا ہیکہ اگر حزب اللہ میدان جنگ میں داخل ہوتا ہے تو اسرائل اپنا دفا ع نہیں کرسکے گا۔سرائیل نےغزہ کے لوگوں کوغزہ چھوڑ کر جنوبی غزہ کی جانب چلے جانے کے لئے چوبیس گھنٹوں کی مہلت دی تھی وہ مہلت ختم ہوئے بھی کئی روز گزر گئے ہیں،لیکن اسرائیلی فوج غزہ میں داخل ہونے کی ہمت نہیں کرسکی ہے۔اس بات سے ایک نتیجہ تو برامد ہوتا ہیکہ اگر دس بیس مسلم ممالک بھی یکجا ہو جائیں تو اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے اور غزہ کی ناکہ بندی`سے باز آسکتا ہے۔ لیکن ذاتی مفاد میں چور اور بے حسی کی چارد اوڑھے عرب حکمرانوں سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ امریکہ اور اسرائل کو آنکھیں دکھانے کی بھی ہمت رکھتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔