اسرائیل نے امریکہ کی نس دبا رکھی ہے... اشوک سوائن
ایوینجیلیکل عیسائی، جو امریکہ کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی ہیں اور ریپبلکن پارٹی کے حامی ہیں، اسرائیل کے وجود کو بائبل کی پیش گوئی سے جوڑتے ہیں۔

غزہ میں جنگ فوراً ختم کرنے کا مطالبہ 28 ممالک نے کیا ہے۔ ان میں کئی وہ ممالک شامل ہیں جو اب تک اس مسئلے پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ فرانس، برطانیہ، کناڈا اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک نے فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی جانب قدم بڑھا دیا ہے۔ ظاہر ہے اسرائیل کی روایتی اتحادیوں کے درمیان تنہائی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود جنگ روکنے کی اصل طاقت صرف امریکہ کے پاس ہے، جو اب بھی اسرائیل کے حق میں مضبوطی سے کھڑا ہے۔ ٹرمپ حکومت کی حمایت اس حد تک ہے کہ وہ اسرائیل کے غزہ شہر پر قبضے کی تجویز کی بھی حمایت کر رہا ہے۔
ویسے اسرائیل کے معاملے میں ٹرمپ کوئی استثنا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی امریکی صدر، چاہے وہ ڈیموکریٹ ہو یا ریپبلکن، اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے امریکی اثر و رسوخ استعمال کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اس کی ایک گہری وجہ ہے۔ اسرائیل کے لیے حمایت کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ہیری ٹرومین نے 1948 میں اسرائیل کے قیام کے چند ہی منٹوں کے اندر اسے تسلیم کر لیا تھا۔ یہ فیصلہ ہولوکاسٹ کی یادداشتوں، سرد جنگ کی جغرافیائی سیاست اور داخلی سیاسی مفادات سے متاثر تھا۔ امریکہ-اسرائیل تعلقات فوجی تعاون، ثقافتی شناخت اور اقتصادی انضمام کے پیچیدہ جال سے مضبوط ہوئے ہیں۔ یہ تعلقات جنگ، قبضے اور بار بار آنے والے انسانی بحران کے باوجود قائم رہے۔ اس لیے نہیں کہ واشنگٹن اسرائیل کی زیادتیوں سے بے خبر ہے، بلکہ اس لیے کہ امریکی سیاسی قیادت ٹکراؤ کی قیمت کو بہت زیادہ سمجھتی ہے۔
امریکہ-اسرائیل شراکت داری ایک منفرد تعلق ہے۔ اسرائیل امریکی غیر ملکی امداد حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، اور اس کا زیادہ تر حصہ فوجی امداد کی شکل میں ہوتا ہے۔ برک اوباما کی جانب سے دستخط کیے گئے دس سالہ معاہدے کے تحت اسرائیل کو سالانہ 3.8 ارب ڈالر کی امریکی سلامتی امداد کی ضمانت حاصل ہے۔ یہ رقم گھوم کر واپس امریکی دفاعی صنعت میں جاتی ہے، جس سے ہزاروں نوکریاں پیدا ہوتی ہیں۔ آئرن ڈوم میزائل دفاعی نظام جیسے مشترکہ منصوبے ظاہر کرتے ہیں کہ امریکی اور اسرائیلی دفاعی صنعتیں کس قدر پیچیدگی سے جڑی ہوئی ہیں۔
اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں امریکی انسداد دہشت گردی آپریشنز میں مدد دیتی ہیں، اس کی فضائیہ ایرانی اسلحوں کے قافلوں یا پراکسیز پر حملہ کر سکتی ہے اور اس میں امریکہ کو اپنے فوجیوں کی جان کو خطرے میں نہیں ڈالنا پڑتا۔ پینٹاگون کے نزدیک اسرائیل ایک سستا مگر مؤثر تزویراتی اثاثہ ہے، جو براہ راست مداخلت کے سیاسی بوجھ کے بغیر مشرق وسطیٰ میں امریکی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
یہ تزویراتی فوائد امریکی داخلی سیاست سے بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ اے آئی پی اے سی (امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی) کی قیادت میں اسرائیل نواز لابی واشنگٹن کی سب سے بااثر طاقتوں میں سے ایک ہے۔ اس کی رسائی دونوں امریکی جماعتوں تک ہے۔ چندہ دینے والوں اور گروہ بندی کرنے والوں کے ملک گیر نیٹ ورک اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کانگریس کی اکثریت اسرائیل کے لیے امدادی پیکیجوں کی منظوری دیتی رہے اور اس کے خلاف کسی بھی قدم کو روکا جا سکے۔
ایوینجیلیکل عیسائی، جو امریکہ کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی ہیں اور ریپبلکن پارٹی کے حامی ہیں، اسرائیل کے وجود کو بائبل کی پیش گوئی سے جوڑتے ہیں۔ امیر چندہ دہندگان انتخابی مہمات میں بھاری رقم لگاتے ہیں۔ ان کے خلاف جانے والے لیڈروں کو مالی نقصان، پرائمری چیلنجز اور یہود دشمنی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈیموکریٹ صدور بھی ان رکاوٹوں کے پابند رہے ہیں۔ غزہ میں بستیوں کے معاملے پر اوباما اور نیتن یاہو کے درمیان تناؤ رہا، لیکن اوباما نے بھی فوجی امداد کے ریکارڈ کو نہیں چھیڑا۔ جو بائیڈن نے غزہ میں ہلاکتوں پر خبردار ضرور کیا، لیکن اکتوبر 2023 کے حماس حملے کے بعد اسرائیل کو 18 ارب ڈالر کے اسلحوں کی منظوری دی۔ ان کے ’تحمل‘ کی باتیں کھوکھلی ثابت ہوئیں کیونکہ ان بیانات کو کبھی بھی اسلحوں کی پابندی یا مشروط امداد سے نہیں جوڑا گیا، جس سے اسرائیل کے لیے حالات بدل سکتے تھے۔ ٹرمپ نے صرف اس دوہرے معیار کو بے نقاب کیا ہے اور غزہ پر قبضے سے لے کر فلسطینی اتھارٹی کو نظرانداز کرنے تک، اسرائیل کی ہر پالیسی کی کھل کر حمایت کی ہے۔ لیکن عوامی رائے، خاص طور پر ڈیموکریٹس کے درمیان، بدل رہی ہے۔ سروے بتاتے ہیں کہ اب زیادہ تر ڈیموکریٹس فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں، جو تاریخی تبدیلی ہے۔ نوجوان امریکی، بشمول نوجوان یہودی اپنے والدین کے مقابلے میں اسرائیل کے کم حامی ہیں۔ پھر بھی ریپبلکنز میں اسرائیل کے لیے حمایت بدستور مضبوط ہے۔
سیاسی حقائق یہ طے کرتے ہیں کہ ڈیموکریٹس بھی محتاط قدم اٹھائیں۔ پنسلوانیا اور مشی گن جیسی سوئنگ ریاستوں میں عرب-امریکی برادری موجود ہے جو امریکی پالیسی سے ناراض ہے، لیکن پارٹی کی قیادت چندہ دہندگان اور معتدل ووٹروں سے الگ تھلگ پڑنے سے ڈرتی ہے، جو اب بھی اسرائیل کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ یہ اتحاد واشنگٹن میں رائج اس بیانیے پر بھی قائم ہے کہ اسرائیل ’مشرق وسطیٰ میں واحد جمہوریت‘ ہے، جو آزادی اور ’قانون کی حکمرانی‘ کے دفاع میں امریکہ کا اتحادی ہے۔ کئی امریکی قانون سازوں کے لیے اسرائیل کا دفاع نہ صرف ایک اسٹریٹجک ضرورت ہے بلکہ ایک اخلاقی فرض بھی، جس کی وجہ سے اسرائیل کے سنگین جنگی جرائم کے باوجود اس کی امداد پر پابندیاں عائد کرنا سیاسی طور پر خطرناک بن جاتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ یہ طرزعمل کس قدر پائیدار ہے۔ 1982 میں جب اسرائیل نواز ملیشیا نے بیروت کے صبرا اور شتیلا کیمپوں میں سینکڑوں فلسطینیوں کا قتل عام کیا، تو رونالڈ ریگن نے اسلحوں کی فراہمی روک دی، لیکن چند ہی ہفتوں بعد دوبارہ شروع کر دی۔ دوسرے انتفاضہ (وسیع تحریک) کے دوران جارج بش نے ایریل شیرون کے حملوں کو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا حصہ قرار دیا۔ آج 7 اکتوبر 2023 کے حماس حملوں کو غزہ پر تباہ کن جنگ کو جواز دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس میں اب تک 60,000 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں، 90 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ ان سب کے باوجود واشنگٹن میں آپ کو کبھی کبھار ہلکی پھلکی مذمت سننے کو مل سکتی ہے، لیکن اسرائیل کی امداد یا حمایت واپس لینے کا ذکر نہیں ملے گا۔ اس خاموشی کی ایک ٹھوس معاشی وجہ ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا، اسرائیل کو امریکی امداد دراصل امریکی دفاعی ٹھیکیداروں کے لیے دوہری مدد ہے۔ اسرائیل امریکی اسلحہ خرید کر ان کی پیداواری لائنوں کو جاری رکھتا ہے، جس سے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ یہی بات جدید ٹیکنالوجی کے تعاون پر بھی نافذ ہوتی ہے۔ سائبر سیکیورٹی، مصنوعی ذہانت اور ایرو اسپیس میں مشترکہ تحقیق و ترقی سے تجارتی اور فوجی دونوں طرح کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
موجودہ امریکی انتظامیہ کے تحت یہ اتحاد نظریاتی بھی ہے۔ برطانیہ اور فرانس جیسے اتحادیوں کی مخالفت کے باوجود نیتن یاہو کی غزہ پالیسی کی حمایت کرنا آزاد خارجہ پالیسی اور قوم پرستانہ مزاحمت کی علامت بن جاتا ہے۔
کیا واشنگٹن اسرائیل کی جنگ روک سکتا ہے؟ بالکل۔ امریکی اسلحوں، پیسے اور سفارتی تحفظ کے بغیر، خاص طور پر اقوام متحدہ میں، اسرائیل کی غزہ میں فوجی کارروائی جاری رکھنے کی صلاحیت ختم ہو جائے گی۔ امداد یا اسلحوں کی فراہمی روکنے کی سنجیدہ دھمکی چند دنوں میں جنگ بندی پر مجبور کر سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ایسے قائد کی ضرورت ہے جو اے آئی پی اے سی، ایوینجیلیکل ووٹرز، دفاعی صنعت کے بڑوں اور اس تزویراتی نظریے کو چیلنج کرنے کو تیار ہو، جس نے 77 برسوں سے اسرائیل کو ایک ناگزیر پراکسی کے طور پر برقرار رکھا ہے۔ اوول آفس کا کوئی بھی رہنما یہ سیاسی قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں۔ اسی لیے، امریکہ اسرائیل کو روک سکتا ہے، لیکن روکے گا نہیں۔ غزہ میں جنگ اب بھی ختم ہو سکتی ہے، لیکن ایسا ہوگا نہیں۔ اگر ہوتا بھی ہے تو اس لیے نہیں کہ واشنگٹن نے اسرائیل پر جنگ روکنے کا فیصلہ مسلط کر دیا۔
(اشوک سوین سویڈن کی اوپسلا یونیورسٹی میں پیس اینڈ کانفلکٹ ریسرچ کے پروفیسر ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔