کیا ٹرمپ ہندوستان سے ناراض ہیں؟...سہیل انجم
ڈونلڈ ٹرمپ نے ہندوستان کو ’مردہ معیشت‘ قرار دے کر 25 فیصد ٹیرف عائد کیا اور پاکستان کی کھلے عام حمایت کی۔ ماہرین کے مطابق وہ تجارتی رکاوٹوں، روس سے قربت اور برکس میں شمولیت پر ہندوستان سے ناراض ہیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ / Getty Images
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہندوستان اور روس کو مردہ معیشت قرار دے کر اور روسی مصنوعات کی خرید پر جرمانہ عاید کرنے کا اعلان کر کے ایک تند و تیز بحث کا دروازہ کھول دیا ہے۔ یہ بحث دو پہلوؤں سے ہو رہی ہے۔ ایک یہ کہ کیا ہندوستان واقعی ایک مردہ معیشت ہے اور دوسری یہ کہ ٹرمپ کے ہند مخالف بیانات کی وجہ کیا ہے۔ کیا وہ ہندوستان سے ناراض ہیں یا ہندوستان سے ان کو مختلف ایشوز پر جس قسم کی حمایت کی توقع تھی وہ پوری نہیں ہو رہی ہے؟ انہوں نے آپریشن سندور کے تناظر میں ہندوستان کے اس دعوے کے برعکس کہ پاکستان کے ڈی جی ایم او نے اپنے ہندوستانی ہم منصب سے آپریشن بند کرنے کی اپیل کی تھی، کم از کم تیس بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بند کرائی۔ اس کے لیے انہوں نے تجارت کو ہتھیار بنایا تھا۔
ابھی ان دعووں کی صدائے بازگشت تھمی بھی نہیں تھی کہ انہوں نے ہندوستان اور روس کو مردہ معیشت قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس کی پروا نہیں کہ ان دونوں ملکوں کی مردہ معیشت جہنم رسید ہو جائے لیکن اس سے بھی چونکانے والی بات یہ تھی کہ انہوں نے ہندوستان کے روایتی حریف پاکستان کی تعریف و ستائش کی۔ انہوں نے اپنی پہلی مدت صدارت میں پاکستان کے خلاف اسٹینڈ لیا تھا لیکن اب انہوں نے اپنے موقف میں تبدیلی کی ہے اور اب وہ پاکستان کی حمایت میں بیان دینے لگے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب پاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم منیر نے امریکہ کا دورہ کیا تو ٹرمپ نے ان کے لیے وائٹ ہاوس میں ظہرانے کا اہتمام کیا تھا۔ انہوں نے عاصم منیر کی تعریف بھی کی تھی۔ اور اب انہوں نے پاکستان کے تیل کے ذخائر کے سلسلے میں چونکانے والا بیان دیا ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایک وقت آئے گا جب ہندوستان کو پاکستان سے تیل خریدنا پڑے گا۔
خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ متعدد وجوہات کی بنا پر ٹرمپ ہندوستان سے ناراض ہیں یا خوش نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں وہ ہندوستانی محصولات اور تجارتی رکاوٹوں اور دونوں ملکوں کے مابین تجارتی معاہدے کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات میں عدم پیش رفت سے ناخوش ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں جلد از جلد معاہدہ ہو جائے تاکہ ہندوستان کے زرعی اور یومیہ مصنوعات کے بازار میں امریکہ کو رسائی حاصل ہو جائے۔ وہ ہند روس تعلقات سے بھی خوش نہیں ہیں۔ ٹرمپ یوکرین روس جنگ کے تناظر میں بھی روس سے زیادہ سے زیادہ تیل اور گیس خریدنے پر ہندوستان پر بارہا تنقید کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ ایک بار وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اس قسم کی تنقیدوں کے جواب میں کہا تھا کہ روس سے ہندوستان سے زیادہ یورپی ممالک تیل خریدتے ہیں۔
ٹرمپ دس ملکوں کے گروپ برکس کو امریکہ کے خلاف سمجھتے ہیں۔ امریکہ نے چار ملکوں آسٹریلیا، ہندوستان، جاپان اور امریکہ کے گروپ کواڈ میں ہندوستان سے زیادہ اور سرگرم شرکت کی بارہا اپیل کی لیکن ہندوستان اپنے قومی مفادات کے پیش نظر اقدامات کرتا ہے۔ اس سے بھی امریکہ خوش نہیں ہے۔ وہ برک سکے بھی خلاف ہیں۔ برکس کرنسی کی بھی بات ایک بار اٹھی تھی۔ اسی لیے ٹرمپ کے خیال میں برکس ڈالر مخالف بھی ہے۔ برکس میں ہندوستان کے علاوہ برازیل، چین، مصر، ایتھوپیا، انڈونیشیا، ایران، روس، جنوبی افریقہ اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ ان کے مطابق برکس امریکہ اور ڈالر کا مخالف ہے اور ہندوستان اس کا ممبر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں کسی کو بھی ڈالر کی مخالفت نہیں کرنے دوں گا۔
جہاں تک ہندوستان کے ایک مردہ معیشت ہونے کا سوال ہے تو حکومت نے ڈھکے چھپے اور کچھ سیاست دانوں نے کھل کر اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔ ماہرین معیشت بھی دو خیموں میں بٹ گئے ہیں۔ حکومت کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ماہرین اس دعوے کو یکسر خارج کرتے ہیں لیکن غیر جانبدار ماہرین حقائق کے چشمے سے صورتحال کا جائزہ لے کر دعوے کو درست مان رہے ہیں۔ ان کے بیان کے بعد اس پر بھی گفتگو ہو رہی ہے کہ کیا ٹرمپ، جن کو وزیر اعظم نریند رمودی ’مائی فرینڈ ٹرمپ‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے، ہندوستان سے ناراض ہیں۔ کیا ’ہاوڈی مودی‘ اور ’نمستے ٹرمپ‘ اور ’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘ نے اپنی معنویت کھو دی ہے۔
کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی امریکی صدر کے دعوے کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مودی حکومت نے معیشت کو تباہ و برباد کر دیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے علاوہ سبھی اس حقیقت سے واقف ہیں۔ اس حکومت نے صرف معیشت نہیں بلکہ دفاع اور خارجہ پالیسی کو بھی تباہ کیا ہے۔ ایک طرف امریکہ ہندوستان کی بے عزتی کر رہا ہے اور دوسری طرف چین اس کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ تیسری بات یہ کہ حکومت نے پوری دنیا میں وفود بھیجے لیکن ایک بھی ملک نے پاکستان کی مذمت نہیں کی۔ پارٹی کے دیگر سینئر رہنماؤں نے بھی ٹرمپ کے دعوے کی تائید کی ہے اور ہندوستانی معیشت کو مردہ قرار دیا ہے۔
ٹرمپ نے صرف اتنا ہی نہیں کیا بلکہ انھوں نے ہندوستانی مصنوعات پر 25 فیصد ٹیرف یعنی درآمدی ٹیکس یا محصول لگا دیا۔ اس سے امریکی بازاروں میں ہندوستانی مصنوعات مہنگی ہو جائیں گی جس کا ہندوستانی معیشت پر منفی اثر پڑے گا۔ وہ ٹیرف کے معاملے میں شروع سے ہی ہندوستان کو دھمکاتے رہے ہیں۔ انھوں نے ہندوستان کی جانب سے امریکی مصنوعات پر عاید کی جانے والی محصولات کے تناظر میں اسے ”ٹیرف کنگ“ کہا تھا۔ انھوں نے وزیر اعظم مودی کے سامنے کہا تھا کہ ہندوستان امریکی مصنوعات پر جتنا ٹیرف لگاتا ہے ہم بھی ہندوستانی مصنوعات پر اتنا ٹیرف لگائیں گے۔ وہ بار بار یہ بات کہتے رہے ہیں کہ وہ جوابی اور مساوی ٹیرف ہر حال میں لگائیں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہندوستان ایک مردہ معیشت ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ حکومت کی طرف جھکاو رکھنے والے تجزیہ کار اسے خارج کرتے ہیں لیکن غیر جانبدار تجزیہ کار حقائق کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہیں۔ آکاش سری واستو ایک فائنانشل انفلوینسر اور ’وِزڈم ہَیچ‘ کے بانی ہیں۔ ان کے مطابق ہندوستان کو ’ڈیڈ اکانومی‘ کہنا ذرا سخت جملہ ہے لیکن موجودہ سست روی باعث تشویش ضرور ہے۔ اس وقت ہندوستان کی شرح نمو ساڑھے چھ فیصد ہے جو کہ ایک سست رفتار شرح نمو ہے۔ ہندوستانی معیشت چار کھرب ڈالر کی بنیاد پر ہے جبکہ امریکی معیشت اس سے آٹھ گنا ہے۔ ہندوستان کی فی کس آمدنی امریکہ کے مقابلے میں 31 گنا کم ہے۔
ان کے خیال میں ہندوستان ایک کثیر آبادی والا ملک ہے لیکن ضروری اشیا پر ٹیکس یا جی ایس لگانے کی وجہ سے اکثریت پُرتعیش چیزیں جیسے کہ ایئر کنڈیشنر وغیرہ خریدنے کی سکت نہیں رکھتی۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور ہنرور افراد ملک چھوڑ رہے ہیں۔ کروڑپتی ہندوستانیوں کے ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں بس جانے کے معاملے میں ہندوستان نمبر ون ہے۔ البتہ غیر ملکوں میں آباد ہندوستانیوں کی جانب سے جو زر مبادلہ ہندوستان بھیجا جاتا ہے اس معاملے میں بھی وہ نمبر ون ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ ہندوستان کی کامیابی ہے یا ملازمت اور آمدنی کے بہتر مواقع کی تلاش میں لوگوں کا ملک چھوڑنا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے ہندوستان پر 25 فیصد ٹیرف لگانے سے ہندوستان کی شرح نمو اور برآمدات پر کافی منفی اثر پڑے گا۔ بہرحال اس تجزیے کی روشنی میں ٹرمپ کی جانب سے مذکورہ فیصلوں کے اسباب اور مضمرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔