ہم کدھر جا رہے ہیں!

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ایلون مسک ہندوستانی انٹرنیٹ پر اثرانداز ہونے کے لیے سرگرم ہیں۔ اسپیس ایکس کے سیٹلائٹ انٹرنیٹ معاہدے سے مقامی خود مختاری اور روزگار متاثر ہو سکتا ہے

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

سید خرم رضا

امریکہ میں نئی انتظامیہ برسراقتدار آ گئی ہے اور بظاہر وہ دنیا کو اپنے مطابق چلانے کے لئے بہت جلدی میں ہے۔ اس انتظامیہ کے سربراہ ڈونالڈ ٹرمپ اپنے کاروباری ساتھی ایلون مسک کے ساتھ مل کر پوری دنیا میں صرف اور صرف امریکہ کو طاقتور دیکھنے کا خواب دن کی روشنی میں بھی کھلی آنکھ سے دیکھنے کے لئے بے چین نظر آ رہے ہیں اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے زیادہ بے چین ان کے کاروباری ساتھی ایلون مسک نظر آ رہے ہیں۔ کئی مرتبہ تو یہ فرق کر پانا مشکل ہو جاتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ ہیں یا ایلون مسک! کیونکہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی بھی امریکہ گئے تو ان کی خاص ملاقات ایلون مسک سے ہوئی جس نے وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران اپنے بچوں، بچوں کی والدہ اور آیا کے علاوہ کسی کو نہیں بلایا جبکہ وزیر اعظم کے ساتھ اہم افسران موجود تھے۔

ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس کے ساتھ 11 مارچ کو بھارتی ایئرٹیل اور اس کے ایک دن بعد یعنی 12 مارچ کو مکیش امبانی کی کمپنی جیو نے بھی معاہدہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس معاہدہ کا اعلان ہوتے ہی ذہن میں معروف رومی ڈرامہ جولیئس سیزر کی وہ لائن یاد آ گئی جس میں ایک صوفی یہ کہتا ہے کہ ’دی آئیڈس آف مارچ ہیو کم‘ (The Ides of March have come) یہ محاورہ عام طور پر کسی بڑی بدقسمتی یا حادثے کے پیش آنے کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب یورپی ممالک کی طوطی بولتی تھی اور برطانیہ آج کا امریکہ جیسا ملک بن کر ابھر رہا تھا اور اس وقت برطانیہ کی کمپنی ایسٹ انڈیا نامی کمپنی اپنے عروج پر تھی۔ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی 1600 میں ہندوستان آئی۔ یہ کمپنی برطانوی حکومت کی اجازت سے قائم ہوئی تھی اور اس کا مقصد ہندوستان میں تجارت کرنا تھا۔ ابتدائی طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا مقصد صرف ہندوستان اور دیگر ایشیائی ممالک سے تجارت کرنا تھا، خصوصاً ہندوستان کی مشہور مصنوعات جیسے کہ مسالے، چائے، کپاس، اور ریشم خریدنا۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ کمپنی نے اپنے تجارتی مقاصد کے ساتھ سیاسی اور فوجی مقاصد کو بھی اپنا لیا۔


آج کے دور میں اس وقت کے مسالے اور کپاس کی جگہ انٹرنیٹ نے لے لی ہے اور انٹرنیٹ ایک ایسا ذریعہ بن کر ابھرا ہے جو ہر چیز کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔ ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس اور ہندوستانی کمپنیوں کے درمیان معاہدے کا مقصد ہندوستان میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنا ہے یعنی ہندوستانی انٹرنیٹ سروسز ایلون مسک کے اشارے پر ناچیں گی۔ ایلون مسک کی اسپیس ایکس کے ذریعے انٹرنیٹ کی فراہمی سے ہندوستان کی خود مختاری پر اثر پڑ سکتا ہے، کیونکہ عالمی کمپنیوں کی اس طرح کی مداخلت سے ملک کے انٹرنیٹ کے قوانین اور ریگولیشنز پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔

ویسے تو اس کا اثر زندگی کے تمام شعبوں پر پڑے گا جس میں تعلیمی ادارے، طبی ادارے، سیاحت اور ثقافت، دیہی ترقی وغیرہ شامل ہیں لیکن اس کا سب سے زیادہ دخل قومی سیاست پر پڑے گا۔ کمپنی کا حکومت کی تبدیلی میں بڑا دخل رہے گا اور جو سیاسی پارٹی بھی کمپنی کو آنکھ دکھائے گی اس کی آنکھ اس انٹرنیٹ کے ذریعہ نکال لی جائے گی اور اس کی جگہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو اقتدار کی باگ ڈور سونپ دی جائے گی۔ ملک کا ماحول وہ کمپنی اپنے حساب سے بنائے گی اور جب چاہے گی وہ انٹرنیٹ خدمات کو اپنے حساب سے استعمال کرے گی۔

اسپیس ایکس کی انٹرنیٹ سروسز مکمل طور پر سیٹلائٹ پر منحصر ہوں گی، جس سے انٹرنیٹ کی سروس میں کبھی بھی خلل آ سکتا ہے۔ اس کا ایک نقصان ملک میں بڑھتی بے روزگاری کو بھی ہوگا کیونکہ اگر اسپیس ایکس اپنی خدمات ہندوستان میں فراہم کرتا ہے، تو اس کے لیے زیادہ تر کام امریکی ٹیمیں انجام دیں گی، جس سے مقامی روزگار کے مواقع محدود ہو سکتے ہیں۔ ہندوستان میں موجود کمپنیوں کو عالمی کمپنی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے بہت زیادہ محنت کرنی پڑے گی، جس سے مقامی افراد کے لیے کام کے مواقع کم ہو سکتے ہیں۔

کل ملا کر ہم نے خود کو ایلون مسک یعنی امریکہ کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے اور اگر اس میں ضروری رکاوٹیں نہیں لگائی گئیں تو وہ دن دور نہیں کہ پہلے تو ہم نے آزادی کے لئے برطانوی حکومت سے لڑائی لڑی تھی اور اب ہمیں یہ لڑائی کہیں امریکہ سے نہ لڑنی پڑے۔ حکومت کو چاہئے کے وہ اس سلسلے میں کچھ ایسے ضابطے ضرور بنائیں جس سے ہماری کمپنیوں اور سیاستدانوں کی خود مختاری بچی رہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔