کیا ’ناری شکتی‘ محض انتخابی نعرہ ہے؟...سراج نقوی

درباری میڈیا ان کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہے لیکن وزیر اعظم کے مذکورہ بیان پر کانگریس نے انھیں گھیر کر کئی ایسے سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ جن کا مناسب جواب نہ بی جے پی کے پاس ہے اور نہ خود مودی کے پاس

پی ایم مودی، تصویر یو این آئی
پی ایم مودی، تصویر یو این آئی
user

سراج نقوی

وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ’’کچھ لوگ شکتی سے لڑنے کی بات کرتے ہیں لیکن میرے لیے ہر ماں، بہن شکتی کے روپ میں ہے۔“ یہ تو مودی ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ انھوں نے ناری شکتی کی بات کرتے ہوئے جن رشتوں کو اس فہرست میں شامل کیا، اس میں بیوی کے رشتے کو کیوں نظر انداز کر دیا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے پس پشت ان کی کچھ ذاتی مجبوریاں رہی ہوں، اس لیے اس پر بات کرنا ضروری نہیں۔ لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ مودی کا یہ بیان کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق صدر راہل گاندھی کے اس بیان کے جواب میں آیا ہے کہ جو انھوں نے حال ہی میں ممبئی میں اختتام پذیر اپنی ”نیائے یاترا“ کے بعد منعقد ایک بڑی ریلی میں دیا تھا۔

دراصل پارلیمانی انتخابات کے لیے انتخابی مہم کے پہلے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈر مختلف مسائل پر ایک دوسرے کو گھیرنے اور ووٹروں کو پر فریب وعدوں سے لبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم کے بیانات بھی میڈیا کی سرخیاں بنے ہوئے ہیں۔ درباری میڈیا ان کے بیانات کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہے، لیکن وزیر اعظم کے مذکورہ بیان پر کانگریس نے انھیں گھیر کر کئی ایسے سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ جن کا مناسب جواب نہ بی جے پی کے پاس ہے اور نہ خود مودی کے پاس۔ ویسے بھی ایسے معاملات میں مودی ”ایک چپ سو کو ہرائے“ کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔ گزشتہ دس برس کا ان کا دور اقتدار اس کا ثبوت ہے۔ لیکن راہل کے جس بیان کے جواب میں انھوں نے مذکورہ بیان دیا اس میں راہل نے کہا تھا کہ، ”ہم شکتی“ سے لڑ رہے ہیں۔ شکتی سے راہل کا اشارہ بر سر اقتدار طاقت سے تھا۔ دراصل مودی کے دور اقتدار میں سرکاری اداروں اور ایجنسیوں کا جس بے دریغ طریقے سے مخالفین کی زباں بندی اور ان کے حوصلے پست کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور کیا جا رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے راہل نے مذکورہ بات کہی تھی۔ یقینی طور پر حکمرانوں کا یہ طریقہ کار ملک کی جمہوریت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔


راہل کے مذکورہ بیان نے بی جے پی کے خیمے اور خصوصاً مودی کو جس طرح نشانہ بنایا اسے دیکھتے ہوئے یہ کیسے ممکن تھا کہ مودی خاموش رہتے، لہٰذا انھوں نے اپنی جانب میں راہل کی بات کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ، ”میں ان (خواتین)کے لیے جان کی بازی لگا دوں گا۔“ دراصل مودی نے راہل کے ”شکتی“ والے بیان کو ”ناری شکتی“ میں بدلنے کی کوشش کی، انھوں نے یہ بھی کہا کہ، ”لوک سبھا میں اصل جنگ شکتی کو تباہ کرنے والوں اور شکتی کی پوجا کرنے والوں کے درمیان ہوگی۔“ انھوں نے کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ”کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں ’شکتی‘ کو ختم کرنے کی بات کہی ہے، لیکن ملک کی ہر خاتون شکتی ہے۔“ لیکن ایسا کہہ کر مودی خود پھنس گئے اور کانگریس کی خواتین لیڈروں نے انھیں گھیر لیا۔ یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ مودی کے مذکورہ بیان پر خود راہل گاندھی، کانگریس صدر یا کانگریس کے دیگر لیڈروں کے بیانات نہیں آئے ہیں اور پارٹی نے شائد حکمت عملی کے تحت اس کا جواب دینے کے لیے اپنی خواتین لیڈروں کو آگے کر دیا ہے۔ ان خواتین لیڈروں نے جس طرح مودی کے مذکورہ بیان کی دھجیاں اڑائی ہیں اس کا مقابلہ کرنا بی جے پی کے لیے آسان نہ ہوگا۔

کانگریس کی راجیہ سبھا رکن اور سابق مرکزی وزیر رینوکا چودھری نے وزیر اعظم پر حملہ آور ہوتے ہوئے انھیں یاد دلایا کہ مودی نے ہی انھیں یعنی رینوکا چودھری کو پارلیمنٹ میں ”سوپنکھا“ کہا تھا۔ رینوکا چودھری نے سوال کیا کہ، ”کیا یہی ماں بہن بیٹی کا احترام ہے؟ رینوکا چودھری نے اس سلسلے میں جو ویڈیو بیان جاری کیا ہے اسے کانگریس نے اپنے ’ایکس‘ ہینڈل پر پوسٹ کیا ہے، اور سوال کیا ہے، ”بی جے پی کون سی اخلاقیات کی بات کر رہی ہے؟ منی پور میں جو کچھ خواتین کے ساتھ ہوا اس پر پی ایم مودی کچھ نہیں بولے، میڈل جیتنے والی ہریانہ کی بیٹیوں کے لیے بھی انھوں نے کچھ نہیں کہا۔“ کانگریس کی ایک اور راجیہ سبھا رکن رجنی پاٹل نے بھی اس تنازعہ پر بی جے پی اور مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ایک ویڈیو پیغام میں انھوں نے کہا کہ، ”راہل گاندھی جی کی تقریر پر بی جے پی سوال اٹھا رہی ہے، اس سے صاف ہے کہ بی جے پی گھبرائی ہوئی ہے۔ جب خاتون پہلوان اپنے حق کے لیے دھرنے پر بیٹھی تھیں تو انھیں گھسیٹ کر لے جا یا گیا، جب ا ناّؤ، ہاتھرس اور کانپور میں بیٹیوں کی آبرو ریزی ہوئی تب بھی بی جے پی کے لوگ کچھ نہیں بولے، اور لوگوں کی آواز دبانے کی کوشش کی۔ یہ سچ اور جھوٹ کی لڑائی ہے جس میں جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے۔“ کانگریس کے خواتین سیل کی صدر الکا لامبا نے بھی مودی کے بیان پر حیرانی ظاہر کرتے ہوئے ان کو ہی نہیں بلکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کو بھی نشانہ بنایا ہے، اور کہا ہے کہ آج ملک میں شکتی کے خلاف کوئی ہے تو وہ سنگھ، بی جے پی اور خود مودی ہیں۔ الکا نے بی جے پی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ’بیٹی بچاؤ‘ کا نعرہ دیا تھا لیکن مودی جرائم پیشہ لوگوں کو بچانے مصروف ہیں۔ الکا لامبا نے راست طور پر وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ، ”مودی جی....جی آپ ملک کو گمراہ کرنا بند کیجیے۔ ہمیں معلوم ہے آپ راہل گاندھی جی کے بیان سے بوکھلائے ہوئے ہیں، لیکن گھبرایئے مت کیونکہ آج ملک کی ‘شکتیاں‘ آپ کو پہچان چکی ہیں۔“


تقریباً ان سب الزامات کو کانگریس کی ایک اور خاتون لیڈر سپریہ شرینیت نے بھی’ایکس‘ ہنڈل پر دوہرایا ہے۔شرینیت نے مودی کو مخاطب کرتے ہوئے انھیں یاد دلایا کہ تقریباً ہر گھنٹے ملک میں چار عصمت دری کے واقعات ہو رہے ہیں۔سرینیت نے مودی سے کہا کہ،”کچھ نہیں تو ’شکتی کی شکل‘ سے ہی ڈریے۔“

غرض کہ کانگریس نے مودی کے ”ناری شکتی“ سے متعلق بیان پر ان کے پیچھے اپنی خواتین لیڈروں کو جواب دینے کے لیے لگا دیا ہے،اور یہ تمام خواتین جن باتوں کا ذکر بی جے پی اور مودی جی کے تعلق سے کر رہی ہیں ان کا کوئی جواب نہ تو بی جے پی کے پاس ہے اور نہ ہی مودی کے پاس۔معاملہ یہ ہے کہ جس پارٹی اور خود مودی کا خواتین کے تعلق سے بیحد منفی رویہ رہا ہو وہ مذکورہ الزامات کا جواب دے ہی نہیں سکتی۔البتہ اپنے اوپر کوئی الزام لگنے کے جواب میں دوسروں پر بھی ویسا ہی الزام لگا کر جواب دینے سے بچنا بی جے پی اور مودی کی پالیسی رہی ہے۔ممکن ہے کانگریس کی خواتین لیڈروں کے بیانات پر بھی کوئی ایسا ہی جوابی حربہ انتخابی مہم میں کانگریس کے خلاف استعمال کیا جائے۔

درحقیقت راہل گاندھی کے بیان پر مودی کچھ بھی کہیں لیکن اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نہ تو خود انھوں نے اور نہ ان کی پارٹی نے ہی خواتین کے مسائل اور ان کے دکھ درد کو کو انسانی ہمدردی کے چشمے سے دیکھا ہے۔ بلکہ خواتین سے متعلق بیشتر معاملات میں اپنی سیاسی مفادات اور وابستگیوں کو سامنے رکھ کر ہی لب کشائی کی ہے۔ یہ درست ہے کہ منی پور میں خواتین کی عصمت دری اور ان کے ساتھ کیے گئے بہیمانہ سلوک پر مودی اور ان کی پارٹی نے زبان نہیں، کھولی۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہریانہ کی خواتین پہلوانوں کے معاملے میں مودی اور ان کی پارٹی نے ایک بھی ایسا بیان نہیں دیا کہ جس سے یہ اندازہ ہوتا کہ وہ ان خواتین کے ذریعہ کشتی مہا سنگھ کے صدر اور بی جے پی ایم پی پر لگائے گئے الزامات کے معاملے میں ان پہلوانوں کے ساتھ کھڑے ہیں،حالانکہ جب ونیش پھوگاٹ ملک کے لیے تمغہ جیت کر لائی تھیں اور وزیر اعظم سے ملی تھیں تو انھوں نے ونیش کو اپنے ”پریوار“ کا بتایا تھا۔ اس کے باوجود ان کے ساتھ دلّی پولیس نے جو ناروا سلوک کیا اس پر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سمیت حکومت اور بی جے پی کو سانپ سونگھ گیا۔ یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اگر بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں خواتین ظلم اور عصمت دری کی شکار ہوئیں تو پارٹی اور حکومت نے ان کی طرف سے منھ پھیر لیا، ان کی فریاد کو ان سنا کر دیا۔

اسی لیے جب وزیر اعظم راہل گاندھی کے بیان کے جواب میں ”ناری شکتی“ کے حق میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ذرا سا سیاسی شعور رکھنے والا بھی یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس طرح کا بیان ایک سیاسی نعرے کے سوا کچھ نہیں، اور ایسے نعرے خواتین کو بھی متاثر نہیں کرتے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔