کیا قبائلی صدر بنانا ہی کافی ہے؟ ہریانہ میں دلت ڈیولپمنٹ کے اعداد و شمار تو کچھ اور ہی کہتے ہیں

دروپدی مرمو کا ملک کی پہلی خاتون قبائلی صدر بننا فخر کی بات ہے، لیکن کیا صرف دلت یا قبائلی سماج سے صدر بنا دینے محض سے اس طبقہ کی ترقی ہو جائے گی؟

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

دھیریندر اوستھی

دروپدی مرمو کا ملک کی پہلی خاتون قبائلی صدر بننا فخر کی بات ہے، لیکن کیا صرف دلت یا قبائلی سماج سے صدر بنا دینے محض سے اس طبقہ کی ترقی ہو جائے گی؟ ملک کی راجدھانی کو تین طرف سے گھیرے ہریانہ جیسی ریاست میں یہ سوال مزید اہم ہو جاتا ہے۔ یہیں سے دلتوں اور قبائلیوں کے تئیں برسراقتدار پارٹی کی پالیسی اور نیت کا اصل اندازہ ہوتا ہے۔ آخری پائیدان پر کھڑے درج فہرست سماج کی ترقی کی اہم سیڑھی ملازمتوں میں ریزرویشن ہے۔ لیکن ہریانہ میں اس طبقہ کی ملازمتوں میں ’بیک لاگ‘ کا سوال قائم ہے۔ ملازمت سے پہلے ہی اہم سیڑھی درج فہرست طبقہ سے آتے ہونہار طلبا کو ملنے والی اسکالرشپ کو لے کر سوالوں کی طویل فہرست ہے۔ ریاست میں حالات ایسے ہیں کہ کئی اضلاع میں کسی کیٹگری میں ایک بھی درج فہرست طبقہ کے طالب علم کو اس کے لائق نہیں سمجھا گیا۔ پھر صدر امیدوار بنانے سے پہلے بی جے پی قیادت والی حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے دلائل پر سوال کیوں نہ کھڑے کیے جائیں۔

بات شروع کرتے ہیں ہریانہ میں درج فہرست ذات کے لیے ملازمتوں میں بیک لاگ سے۔ درج فہرست طبقہ کے ملازمین سے جڑی ایسو سی ایشن بیک لاگ بھرنے کا مطالبہ شدت سے کرتی رہتی ہے۔ اگر بات کریں صرف پولیس محکمہ میں درج فہرست ذات کے بیک لاگ کی، تو پولیس محکمہ میں اسسٹنٹ ڈپٹی انسپکٹر کے 133 عہدے درج فہرست ذات کے امیدواروں کے لیے خالی ہیں۔ سپاہی کے 224 عہدوں کا بھی بیک لاگ ہے۔ ڈپٹی انسپکٹر کے 75 اور اسسٹنٹ کے 8 عہدوں کا بیک لاگ ہے۔ حالانکہ ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ موجودہ وقت میں درج فہرست ذات کا بیک لاگ نام محض ہے، جو ذیلی عہدہ سے اعلیٰ عہدہ کے لیے پروموشن، سبکدوشی اور ملازمین کی موت وغیرہ کے سبب پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان عہدوں پر طے مدت کے اندر تقرری کر سینکڑوں درج فہرست کنبوں کی فلاح کیوں نہیں کی گئی؟ اب ہم بات کرتے ہیں درج فہرست طبقہ کی ترقی کے لیے لازمی سیڑھی یعنی تعلیم کی۔ درج فہرست ذات کے ہونہار طلبا کو اسکالرشپ سماج کے صف اول میں کھڑے ہونے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ اس کے لیے ہریانہ میں سالانہ چار لاکھ روپے خاندانی آمدنی والے درج فہرست طبقہ کے طلبا کو ڈاکٹر امبیڈکر ہونہار اسٹوڈنٹ منصوبہ کے تحت اسکالرشپ فراہم کی جاتی ہے۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ کچھ اضلاع میں ایک بھی طالب علم کو کسی کسی کیٹگری میں اس منصوبہ کے لائق ہی نہیں سمجھا گیا۔


حکومت کے کھیل کو اعداد و شمار سے سمجھیے:

  • سال 22-2021 میں پوسٹ گریجویٹ سال اوّل میں چرکھی دادری میں اسکالرشپ کے لیے ایک بھی درخواست کو منظوری نہیں ملی، جب کہ اس کے لیے 36 درخواستیں جمع کی گئی تھیں۔

  • سال 22-2021 میں ہی ہریانہ کے سب سے پسماندہ ضلع نوح میں بھی پوسٹ گریجویٹ اول سال میں طلبا کی 28 درخواستوں میں سے ایک بھی اسکالرشپ کے لیے منظور نہیں ہوئی۔

  • سال 21-2020 میں پانی پت میں بھی پوسٹ گریجویٹ سال اول میں اسکالرشپ پانے والے طلبا کی تعداد صفر ہے، جب کہ اس کے لیے 20 درخواستیں جمع ہوئی تھیں۔

  • سال 21-2020 میں چرکھی دادری میں پوسٹ گریجویٹ سال اول میں صرف ایک طالب علم ہی درج فہرست طبقہ کا حکومت کو اسکالرشپ کے لائق ملا ہے، جب کہ اس کے لیے 16 درخواست جمع ہوئی تھیں۔

  • نوح میں 21-2020 میں ایک اور 20-2019 میں محض 2 طلبا اس کے اہل پائے گئے تھے۔ یہ بھی پوسٹ گریجویٹ سال اول کی ہی کہانی ہے۔

  • اسی طرح پنچکولہ میں 22-2021 میں گیارہویں درجہ میں 2، گریجوٹ سال اول میں 7 اور پوسٹ گریجویٹ سال اول میں محض 2 طالب علم ہی درج فہرست طبقہ کے اہل ملے ہیں، جب کہ خاصی تعداد میں درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔

  • پانی پت میں پوسٹ گریجویٹ سال اول میں 20-2019 میں 5 اور 22-2021 میں صرف 9 درخواستیں ہونہار طالب علم کے اسکالرشپ کے مقصد سے منظﷺر کی گئی ہیں۔

  • ریواڑی میں پوسٹ گریجویٹ سال اول میں 21-2020 میں 650 درخواستوں میں سے 14 اور 22-2021 میں 485 درخواستوں میں سے محض 2 طالب علم ہی حکومت کو اہل ملے۔

  • سرسا اور سونی پت کی کہانی بھی یہی ہے۔ سرسا میں پوسٹ گریجویٹ سال اول میں 20-2019 میں 31 میں سے 10، 21-2020 میں 27 میں سے 12 اور 22-2021 میں 70 درخواستوں میں سے صرف 10 منظور کیے گئے۔

  • سونی پت کے اعداد و شمار بھی ایک جیسے ہیں، مانو دہرائے گئے ہیں۔ سونی پت میں پوسٹ گریجویٹ سال اول میں 20-2019 میں 31 میں 10، 12-2020 میں 27 میں 12 اور 22-2021 میں 70 میں سے صرف 10 طالب علم ہی اہل مل پائے۔

سوال یہ ہے کہ ان اضلاع میں درج فہرست ذات سے آنے والے وہ طلبا، جن کی درخواستیں نامنظور ہوئی ہیں، کے اہل خانہ کی آمدنی کیا 4 لاکھ سالانہ سے زیادہ تھیں، یا حکومت کی نیت میں خرابی تھی؟ اگر حکومت کی نیت میں خرابی تھی تو پھر دلت-قبائل ترقی کی بات کرنے والی حکومت کے دلائل بے معنی ہیں۔ بھوانی میں 22-2021 میں گیارہویں درجہ میں اسکالرشپ کے لیے 2467 درخواستیں آئیں، جن میں سے محض 514 منظور کی گئیں۔ مطلب تقریباً 80 فیصد درخواستوں کو رد کر دیا گیا۔ اسی طرح پوسٹ گریجویٹ سال اول میں اسی سال 154 درخواستیں دی گئیں، جن میں صرف 12 منظور ہوئے۔ یعنی 90 فیصد سے زیادہ درج فہرست طبقہ کے طلبا کی درخواست اسکالرشپ کے لائق ہی نہیں ملے۔ اسی طرح چرکھی دادری ضلع میں 22-2021 میں گیارہویں درجہ میں 1060 درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے 364 منظور ہوئے۔ یعنی تقریباً 70 فیصد درخواستوں کو رد کر دیا گیا۔ فتح آباد میں 20-2019 میں گریجویٹ سال اوّل میں 1478 درخواستیں دی گئیں جن میں صرف 677 منظور ہوئیں۔ اسی طرح یہاں 22-2021 میں گیارہویں درجہ میں 1588 درخواستیں آئیں اور 771 منظور کی گئیں۔ اسی سال پوسٹ گریجویٹ سال اول میں یہاں 124 درخواستیں آئیں، جن میں سے صرف 53 منظور کی گئیں۔ مطلب 50 فیصد سے زیادہ نامنظور ہو گئیں۔ یہ اعداد و شمار دینا اس لیے ضروری ہے کیونکہ ان کا فیصد بڑھا ہے اور حکومت کی دلت-قبائل فکر والی شبیہ پر سنگین سوال کھڑے کرتے ہیں۔ اسی طرح ہسار میں 21-2020 میں گریجویٹ سال اول میں 1375 درخواستیں دی گئیں جن میں 771 منظور ہوئیں۔ پوسٹ گریجویٹ سال اول میں 1683 میں سے 476 منظور ہوئیں۔ نوح میں 22-2021 میں گیارہویں درجہ میں 1038 میں سے صرف 67 قبول ہوئیں۔ ریاست میں 22 میں سے 12 اضلاع کی یہی کہانی ہے۔ 2019 سے لے کر 2022 تک تین سال کے یہ اعداد و شمار حکومت کے محروم سماج کی ترقی کو لے کر منشا پر سنگین سوال کھڑے کرتے ہیں۔


ریاست میں دلتوں کی حالت کا اندازہ ان کے پاس زراعت کے لائق زمین کی ملکیت سے لگایا جا سکتا ہے۔ ریاست میں 8913210 ایکڑ مجموعی زراعتی زمین ہے، جب کہ کسانوں کی تعداد 1628015 ہے۔ اس میں سے درج فہرست ذات کے محض 24800 کسان ہیں، جن کے پاس صرف 89661 ایکڑ زرعی زمین ہے۔ یہ کسان بھی بے حد چھوٹی جوت کے ہیں۔ ظاہر ہے تعلیم اور ملازمت دو ایسے ذرائع ہیں جو دلتوں کی ترقی کے لیے اہم ہیں۔ لیکن اعداد و شمار حکومت کی پالیسی اور نیت دونوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ رکن اسمبلی ورون چودھری، رام کمار گوتم اور ستیہ پرکاش جراوتا کے سوال کے جواب میں اسمبلی میں پیش کیے گئے حکومت کے ان اعداد و شمار کی زبانی ہی حکومت کی دلتوں سے متعلق فکر کی کہانی ظاہر ہو رہی ہے۔ صاف ہے کہ اس سماج کی ترقی کے لیے صدر یا گورنر بنا دینے سے زیادہ ضرورت بڑی سوچ کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔