ایران عالم اسلام کا قائد بن کر ابھرا ہے...عبید اللہ ناصر
ایران نے اسرائیل کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے کر نہ صرف صیہونی بھرم توڑا بلکہ عالم اسلام کی قیادت کا نیا تصور بھی ابھارا، عرب خاموش رہے مگر ایران استقامت سے کھڑا رہا

Getty Images
ایران نے وہ کر دکھایا جو ناممکن سا دکھائی دیتا تھا۔ ایران نے جارحیت کا پھن کچل دیا۔ اسرائیلی جارحیت اور غزہ پر انسانیت سوز مظالم کی وجہ سے نہ صرف دنیا بھر کے مسلمان بلکہ ہر انصاف پسند انسان دوست شخص اس دن کا انتظار کر رہا تھا جب کسی کو دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے۔ خاص کر مسلمانوں میں ایک قسم کی مایوسی اور بددلی گھر کر چکی تھی۔ انہیں نہ صرف ستاون مسلم ملکوں اور ان کے مصلحت کوش، بزدل، بے حس حکمرانوں سے شکایت تھی بلکہ اللہ سے بھی شکایت پیدا ہو رہی تھی کہ وہ اس ظلم اور بربریت پر بھی ظالم کی رسی کیوں ڈھیلی کیے ہوئے ہے۔ نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا بھر کے انصاف پسند اس صیہونی بربریت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ یورپ اور امریکہ تک میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے لیکن اللہ کی مصلحت کچھ اور ہی ہوتی ہے، اسے تو کوئی بھی کام کسی سے بھی، کسی بھی وقت لینے کا اختیار ہے اور اس بار اس نے یہ کام ایران سے لیا۔
جیسے جیسے ایرانی میزائلیں اسرائیل کے شہروں پر گرتی تھیں ویسے ویسے دنیا بھر کے مسلمان اور دیگر انصاف پسند انسانوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ یہ بالکل ویسا ہی تھا جیسے فلموں میں جب کوئی غنڈہ ہیرو کے ہاتھوں پیٹا جاتا ہے تو ناظرین تالیاں بجاتے ہیں۔ 1973 کے بعد پہلی بار اسرائیل پر کسی ملک نے حملہ کیا اور کسی منظم فوج سے اس کا سامنا ہوا اور اس بار پھر اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا بھرم چکنا چور ہو گیا۔
یاد دلا دیں کہ 1973 میں علی الصبح اچانک مصری فوج نے اسرائیل پر دھاوا بول دیا تھا اور جب تک اسرائیلی فوج سنبھل پاتی تب تک وہ صحرائے سینا میں کافی اندر تک پہنچ چکی تھی اور اس زمانہ میں ناقابلِ تسخیر سمجھی جانے والی اسرائیل کی دفاعی لائن، بارلیو لائن کو چشم زدن میں توڑ دیا تھا۔ اس جنگ میں شام نے بھی اپنی سرحد سے اسرائیل پر گولہ باری کی تھی اور سعودی عرب کی ایئر فورس بھی شامل ہوئی تھی۔ حالت یہ ہو گئی تھی کہ اسرائیلی وزیر اعظم مسز گولڈا مائیر کو امریکہ سے جنگ بندی کرانے کی التجا کرنی پڑی تھی۔ امریکہ نے مکاری سے مصر کے صدر انور سادات کو ایٹمی حملے کی دھمکی دے کر انہیں جنگ بندی کے لیے راضی کر لیا لیکن مصری فوج اس جیتی ہوئی جنگ کو ہارنے کی وجہ سے صدر انور سادات سے اس قدر متنفر ہوئی کہ بھری پریڈ میں انہیں گولیوں سے بھون دیا تھا لیکن صیہونی اور سامراجی سازش کامیاب رہی۔ مصر، جو ناصر کے زمانے میں عرب دنیا کا لیڈر تھا، وہ الگ تھلگ پڑ گیا۔
اس کے بعد حماس کے موٹر سائیکل سوار چھاپہ ماروں نے تل ابیب سمیت کئی اسرائیلی شہروں پر حملہ کر کے اسرائیل کے آئرن ڈوم کی دھجیاں اڑا دی تھیں لیکن وہ بقول اسرائیلی وزیر اعظم حماس اور غزہ کے لیے جہنم کا دروازہ کھل جانے جیسا تھا۔ اسرائیل نے حماس کی اس دیدہ دلیری کا وہ بدلہ لیا کہ انسانیت کانپ اٹھی۔
اسرائیل کے غزہ میں انسانیت سوز مظالم پر عرب حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی سے عالم اسلام میں ان کے خلاف نفرت کا لاوا ابل رہا ہے، جبکہ ایران نے اپنے پراکسی حزب اللہ اور حوثیوں کے ذریعہ اسرائیل پر حملے جاری رکھے۔ اس کا خمیازہ بھی ایران کو اپنے کئی اعلیٰ فوجی افسروں، سائنس دانوں اور لیڈروں کی شہادت کی شکل میں ادا کرنا پڑا لیکن اس کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں ہوئی، اور وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف نہ صرف چٹان کی طرح کھڑا رہا بلکہ نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے آقا امریکہ کو بھی منہ توڑ جواب دیتا رہا۔
اسرائیل ایک ایک کر کے اپنے دشمنوں کو نشانہ بناتا رہا۔ اس نے حماس اور حزب اللہ کی پوری قیادت ختم کر دی، لبنان کو نشانہ بنایا، لیکن جیسے ہٹلر نے سنٹ پیٹرس برگ پر حملہ کر کے جرمنی کی شکست کا دروازہ کھول دیا تھا، اسی طرح اسرائیل نے ایران پر حملہ کر کے اپنی بربادی کا دروازہ کھول دیا۔ ایران کے میزائلوں نے اسرائیل کے بڑے شہروں تل ابیب، حیفہ وغیرہ کو اس طرح ملبے میں بدل دیا جیسے اس نے غزہ کو گورِ غریباں بنا دیا تھا۔
ایرانی حملوں سے ڈرے ہوئے اسرائیلی شہری بنکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے اور جن کے پاس دوہری شہریت تھی وہ اپنے اپنے ملکوں کو واپس جانے لگے لیکن ایران نے تل ابیب کے بین گوریون ہوائی اڈے کو تباہ کر کے ان کے لیے راہِ فرار بھی بند کر دی۔ اسرائیل کو اپنے قیام کے بعد سے وہ تباہی اور شکست نہیں دیکھنے کو ملی تھی جو اسے ایران کے ہاتھوں ملی ہے۔ شکست خوردہ اسرائیل کو بچانے کے آخری حربے کے طور پر امریکہ نے بھی ایران کی نیوکلیائی تنصیبات کو نشانہ بنایا لیکن ایران نے پہلے سے ہی اس کی ایسی تعمیر کی تھی کہ کوئی بھی بم اس کے ری ایکٹرز کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتا۔ امریکہ کا بھی یہ داؤ خالی گیا۔ الٹے ایران نے قطر میں اس کے فوجی اڈے پر حملہ کر کے انکل سام کو بھی اپنی حد میں ہی رہنے کی آگاہی دے دی۔
ایران پر اسرائیل کے حملہ کا یہ اثر ضرور ہوا کہ سبھی عرب اور مسلم ملک ایران کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ سعودی عرب کے ولی عہد پرنس سلمان کی ایران کے صدر سے ہوئی ٹیلی فونی گفتگو منظرِ عام پر آ چکی ہے۔ خلیجی ملکوں نے ایران کو مالی تعاون کی پیش کش کی، جس کا اس نے شکریہ کے ساتھ انکار کرتے ہوئے یہ رقم غزہ میں امداد رسانی کے لیے دینے کا مشورہ دیا۔
ایران نے جس طرح اسرائیل کو اس کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے اس سے وہ عالم اسلام کا قائد بن کر ابھرا ہے۔ کبھی جو حیثیت سعودی عرب کے مرحوم شاہ فیصل نے حاصل کر لی تھی وہی حیثیت اب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو حاصل ہو گئی ہے۔ عرب، خاص کر مصر اور سعودی عرب کے حکمرانوں نے تو شاہ فیصل اور صدر ناصر کی روح کو اپنی بزدلی، بے حسی اور بے حمیتی سے بے چین رکھا لیکن ایران نے ان کی روحوں کو سکون پہنچا دیا ہے۔
امریکہ نے پہلے تو ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا اور پھر خود ہی جنگ بندی کرانے کے لیے آگے آیا۔ اس کی پالیسی کا یہ دوغلا پن کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ڈر ہے کہ جس طرح مصر 1973 میں امریکہ کی سازش کا شکار ہو گیا تھا کہیں ایسا ہی ایران کے ساتھ نہ ہو۔ اسرائیلی اژدہا زخمی ہوا ہے، مرا نہیں ہے اور زخمی سانپ ہمیشہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ صیہونیوں اور سامراجیوں کی چکنی چپڑی باتوں پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ امید ہے ایرانی قیادت اس خطرہ کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کرے گی۔
(مضمون میں پیش کیے گئے خیالات اور تجزیے مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔