اتر پردیش کے لیے ’انویسٹرس سمٹ‘ ہر ماہ، وزیر اعلیٰ یوگی خود بھی لگا رہے دوڑ، لیکن سرمایہ کاری تقریباً صفر

اتر پردیش کے لیے آئندہ ماہ انویسٹرس سمٹ ہے، لیکن پہلے کے ایم او یو کی حالت مایوس کن ہے، یونٹ لگانے والے صنعت کاروں کو سبسیڈی نہ دینا سب سے بڑی وجہ ہے۔

یوگی آدتیہ ناتھ، تصویر آئی اے این ایس
یوگی آدتیہ ناتھ، تصویر آئی اے این ایس
user

کے. سنتوش

اتر پردیش میں مئو ضلع کے صنعت کار بھرت کمار تھرڑ نے یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی 2017 میں نافذ صنعتی پالیسی کے تحت دھاگے کی فیکٹری میں 4 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔ بھرت نے بینک سے قرض لے کر مشینیں خریدیں اور فیکٹری شروع کر دی۔ جب بھرت حکومت کی صنعتی پالیسی کے تحت سبسیڈی کی رقم طلب کرنے محکمہ صنعت کے افسران کے پاس پہنچے تو انھیں اصولوں کا بک لیٹ تھما کر لوٹا دیا گیا۔ سبسیڈی کی امید میں سرمایہ کاری کرنے والے بھرت ریاست میں تنہا صنعت کار نہیں ہیں۔ ان کے جیسے تمام صنعت کاروں نے یوگی حکومت کے دعووں پر یقین کر سرمایہ کاری تو کی لیکن انھیں سبسیڈی کے نام پر ٹھینگا ہی ملا۔

یوگی اور ان کی حکومت کے نمائندے دیش دنیا میں سرمایہ کاری کی تجاویز کو لے کر چکر لگا رہے ہیں۔ گلوبل انویسٹرس سمٹ لکھنؤ میں 10 سے 12 فروری 2023 تک مجوزہ ہے۔ دیش دنیا کی خاک چھاننے کے بعد لوٹنے والی وزراء اور افسران کی آٹھ ٹیموں نے گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ کے سامنے پریزنٹیشن دے کر 7 لاکھ کروڑ سے زیادہ سرمایہ کاری کی تجاویز پر متفق ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن افسر جیسی تصویر پیش کر رہے ہیں، حقیقت اس سے جدا ہی دکھائی دیتی ہے۔


جو صنعت کار انویسٹرس سمٹ-2018 کے تجربات سے ناواقف ہیں، انھیں تو ایک بار وزیر سے لے کر افسران کی تجاویز پر یقین بھی ہو رہا ہے، لیکن بیشتر ایسے ہیں جو افسران سے 2017 کی پالیسی کے تحت ہوئی سرمایہ کاری میں سبسیڈی کی رقم طلب کر رہے ہیں۔ دراصل ریاستی حکومت نے سبھی اضلاع اور صنعتی اتھارٹی کو سرمایہ کاری کا ہدف دیا ہے۔ ہدف کو پورا کرنے میں افسران کی پیشانی سے سردی میں بھی پسینہ ٹپک رہا ہے۔ نوئیڈا کو 15 ہزار کروڑ روپے تو گورکھپور صنعتی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (گیڈا) کو 40 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہدف ملا ہے۔ نوئیڈا کو لے کر ریجنل منیجر یو پی سیڈا سورج پور انل شرما کا دعویٰ ہے کہ 350 سے زیادہ صنعتوں سے 6300 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی تجویز ملی ہے۔ جبکہ گیڈا کے چیف ایگزیکٹیو افسر پون اگروال سرمایہ کاری کی تجاویز پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’گیڈا انفراسٹرکچر سے لے کر زمین کی سہولت تک دے رہا ہے۔ کئی تجاویز پر بات چیت ہو رہی ہے۔‘‘ دراصل بیرون ممالک میں کروڑوں کی سرمایہ کاری کی تجویز ملنے کا دعویٰ کرنے والے افسران کو کانپور سے لے کر نوئیڈا اور وارانسی سے لے کر گورکھپور تک میں جھٹکا ہی مل رہا ہے۔

گلوبل انویسٹرس سمٹ کے ہدف کو لے کر گزشتہ دنوں وارانسی، بریلی، آگرہ، گورکھپور سے لے کر کانپور میں میٹنگیں ہوئیں۔ ان میں نئی سرمایہ کاری پر تبادلہ خیال سے پہلے صنعت کاروں نے پہلے کی سرمایہ کاری کو لے کر سبسیڈی کا مطالبہ کیا تو افسران بغلیں جھانکنے لگے۔ کانپور کے صنعت کار برجیش اوستھی نے صنعتی پالیسی-2017 کے تحت 10 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کر پیکیجنگ کی یونٹ لگائی تھی۔ اور صنعت کار منوج بنکا نے بھی دو کروڑ روپے سے ٹیکسٹائل کی یونٹ قائم کی تھی۔ لیکن دونوں کو سبسیڈی کا فائدہ نہیں ملا۔ صنعت کار برجیش بتاتے ہیں کہ ’’حکومت کی طرف سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مشینوں کی خرید سے لے کر بینکوں کے سود پر بھی سبسیڈی دی جائے گی۔ بعد میں شرط جوڑ دی گئی کہ پروڈکٹ کی فروخت سے جمع ہونے والے جی ایس ٹی کی بنیاد پر چھوٹ ملے گی۔ دو کروڑ کی مشین پر 36 لاکھ روپے جی ایس ٹی دینا پڑا۔ شروعاتی سالوں میں جو جی ایس ٹی جمع کرنا تھا، وہ اِن پٹ کریڈٹ میں ہی ضم ہو گیا۔ ایسے میں جی ایس ٹی جمع ہی نہیں ہوا۔ چھوٹ پانچ سال تک ہی ملنی تھی۔ بڑے صنعت کاروں کو بھلے ہی کچھ فائدہ مل گیا ہو، 10 سے 20 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے صنعت کاروں کو کوئی فائدہ نہیں ملا ہے۔‘‘


وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ گورکھپور سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں کے صنعت کاروں نے بھی سرمایہ کاری کی تھی، لیکن انھیں جھٹکے ہی ملے۔ ڈسپوزل کا کاروبار کرنے والے صنعت کار سدھانشو ٹبڑیوال نے 2018 میں 15 اکتوبر سے فیکٹر میں پروڈکشن شروع کیا۔ انھوں نے 19-2018 اور 20-2019 کے لیے سبسیڈی کی تقسیم کے لیے درخواست کی۔ افسران نے سبسیڈی کو لے کر ان کے کلیم (مطالبہ) کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ مشینری پر جتنے جی ایس ٹی کا اِن پٹ کریڈٹ ہے، اتنا ٹیکس ضم ہونے کے بعد ہی سبسیڈی کا فائدہ ملے گا۔ صنعتی پالیسی کے تحت سرمایہ کاری کرنے والے آکاش جالان، ونئے اگروال کو بھی کروڑوں کی سرمایہ کاری کے بعد بھی سبسیڈی کا فائدہ نہیں ملا ہے۔ سَنت کبیر نگر میں ایک ٹیکسٹائل صنعت کار تو صرف اس خوف میں منھ نہیں کھول رہے ہیں کہ افسران دوسرے معاملوں میں پھنسا کر ظلم نہ شروع کر دیں۔ مئو کے صنعت کار بھرت کا کہنا ہے کہ ’’صنعت کار کو کیپٹل پر 25 فیصد اور بینک قرض پر 7 فیصد کی سبسیڈی ملنی تھی۔ لیکن افسران کے پینچ کے سبب کوئی فائدہ نہیں ملا۔‘‘

’لگھو ادیوگ بھارتی‘ کے سربراہ دیپک کاریوال کا کہنا ہے کہ ’’صنعتی سرمایہ کاری پالیسی-2017 اور ٹیکسٹائل و گارمنٹ پالیسی-2017 میں ملنے والی سبسیڈی کا فائدہ افسران کی منفی سوچ کے سبب نہیں ملا۔ افسران نے سرکاری احکام جاری کرتے وقت ایسا پینچ پھنسایا کہ حکومت کے ذریعہ صنعت کاروں کو لیٹر آف کمفرٹ جاری ہونے کے بعد بھی سبسیڈی کا فائدہ نہیں ملا۔‘‘ واضح رہے کہ 21 اور 22 فروری 2018 کو لکھنؤ میں ہوئے یوپی انویسٹرس سمٹ میں 1045 ایم او یو ہوئے تھے، جن میں 4.28 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ لیکن وارانسی میں امول اور نوئیڈا میں سیمسنگ کی چنندہ بڑی سرمایہ کاری کو چھوڑ دیں تو سرکار کا دعویٰ کاغذی ہی نظر آ رہا ہے۔ کانپور میں 65 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کے دعوے کے برعکس 500 کروڑ کی بھی سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ رم جھم اسپات جیسی کئی یونٹس نے تو افسران کے استحصال کے سبب اپنے پاؤں ہی پیچھے کھینچ لیے۔ گورکھپور میں 12 ہزار کروڑ روپے کے ایم او یو کے برعکس بمشکل 700 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہوئی۔ ان میں گیلنٹ اور انکر صنعت کی سرمایہ کاری تجویز یوگی حکومت کے پہلے کی ہی تھی۔


عام آدمی پارٹی کے یوپی انچارج اور راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ انویسٹرس سمٹ کو لے کر ہو رہی کوششوں کو گھوٹالہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’انویسٹرس سمٹ کے نام پر کروڑوں روپے کی لوٹ کی جا رہی ہے۔ سان فرانسسکو میں جس یونیورسٹی کے ساتھ نالج سٹی کے لیے ایم او یو کیا گیا ہے وہ امریکہ میں بلیک لسٹیڈ ہے۔ حکومت پہلے یہ بتائے کہ 2018 میں ہوئے معاہدوں میں سے کتنی فیکٹریاں شروع ہوئین، ان میں کتنے لوگوں کو روزگار ملا اور کتنے صنعت کاروں کو سبسیڈی کا فائدہ دیا گیا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔