گاندھیائی تحریکوں کے ستون، خود شناسی اور نظم و ضبط

جب انگریزوں نے نہ دلیل، نہ اپیل اور نہ وکیل کے التزام والا قانون بنایا تو گاندھی جی نے ایک ایسی تحریک تیار کی جو عدم تشدد کے احتجاج کا راستہ دکھاتی ہے

گاندھیائی تحریکوں کے ستون، خود شناسی اور نظم و ضبط
گاندھیائی تحریکوں کے ستون، خود شناسی اور نظم و ضبط
user

انیل نوریا

گاندھی جی اور ان کے ساتھیوں نے بالواسطہ مزاحمت پر مبنی عوامی جدوجہد کا ایک طریقہ کار تیار کیا تھا، جسے گاندھی جی 'ستیاگرہ' کہتے تھے۔ 1915 میں ہندوستان واپسی کے فوراً بعد ہی انہوں نے مشرقی ہندوستان کے کسانوں اور پھر مغربی ہندوستان میں ٹیکسٹائل کے مزدوروں اور کسانوں کے مسائل کو اٹھایا۔ اس کے فوراً بعد نوآبادیاتی حکومت نے نام نہاد 'افراتفری اور انقلابی جرائم' سے نمٹنے کے لیے قانون (رولیٹ بل) پیش کیا۔ بل میں دلیل، اپیل یا دفاعی وکیل کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ گاندھی جی نے رولٹ بل کا خلاصہ شائع کیا جس میں قابل اعتراض حصوں کو خاص طور پر نشان زد کیا گیا تھا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ایسے قانون کے سامنے جھک جانا 'انسانیت کو گروی رکھنے' کے مترادف ہے اور اس کے خلاف 6 اپریل 1919 کو ملک گیر ہڑتال کی کال دی۔ جمہوری حقوق کے معاملے پر ہندوستان میں یہ پہلا ملک گیر احتجاج تھا، جوکہ جدید ہندوستانی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔

اس کے ایک ہفتے بعد ہی 13 اپریل 1919 کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں ایک احتجاجی جلسے میں جمع نہتے لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔ پنجاب کے کچھ حصوں میں فضائی بمباری بھی کی گئی اور اس کے بعد مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ ان واقعات نے تحریک کو کچھ عرصے کے لیے مؤخر کر دیا لیکن اس نے سامراجی حکومت کی مخالفت کے لیے لوگوں کے عزم کو مضبوط کر دیا۔

گاندھی جی نے 1920 میں اپنی مزاحمت کے ترکش سے 'عدم تعاون تحریک' کا تیر نکالا۔ عدم تعاون کا مطلب نوآبادیاتی حکومت سے رضاکارانہ طور پر اپنے تعلقات منقطع کرنا تھا۔ گاندھی نے دلیل دی 'یہ جتنا توہین آمیز ہے، اتنا ہی حیران کن بھی ہے کہ ساڑھے 32 کروڑ ہندوستانیوں پر ایک لاکھ سے بھی کم سفید فام لوگ حکومت کر رہے ہیں۔ وہ کچھ حد تک طاقت کے دم پر ایسا کر پا رہے ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا تعاون ہے جو انہیں ہزار طریقوں سے مل رہا ہے۔ وہ ہندوستان سے عربوں کا فائدہ چاہتے ہیں اور وہ اپنے سامراجی لالچ کے لیے ہندوستان کی مزدوروں کی طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔'' (ینگ انڈیا، 22 ستمبر 1920)۔


کوئی شخص کسی بھی وقت تعاون سے انکار کر سکتا ہے اور عدم تعاون بذات خود کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں تھا۔ اس کے باوجود اس میں حکومت کو مفلوج کرنے کی صلاحیت تھی۔ مارچ 1921 میں گاندھی نے اعلان کیا ’’ہمارے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ ہم حکومت کی مرضی کی مخالفت کرنے کے بجائے اپنی مرضی کی مخالفت کرتے ہیں، دوسرے لفظوں میں حکومت سے تعاون واپس لینے کا نقطہ ہے۔ اگر ہم اس مقصد میں متحد ہیں تو حکومت کو ہماری خواہش ماننا پڑے گی یا یہاں سے جانا ہوگا۔ (ینگ انڈیا، 30 مارچ 1921)۔

گاندھی جی کی سول نافرمانی اور عدم تعاون میں فرق تھا۔ سول نافرمانی میں خاص قوانین کی نافرمانی شامل ہے۔ 1920 کی دہائی میں پورے ملک میں عدم تعاون کا پروگرام چل رہا تھا، جب کہ مغربی ہندوستان میں باردولی، جنوبی ہندوستان میں گنٹور اور کچھ دیگر مقامات پر سول نافرمانی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یکن سول نافرمانی شروع کرنے سے پہلے، گاندھی جی نے لوگوں کو ان علاقوں میں ممکنہ طور پر سخت حالات سے آگاہ کیا ہوگا۔ جیسا کہ 1920 کی دہائی میں تحریک تیز ہوئی تو گاندھی جی چاہتے تھے کہ آندھرا اور گجرات کے کچھ اضلاع جدوجہد میں فعال کردار ادا کریں۔انہیں گجرات کے مختلف علاقوں میں آنے کی درخواستیں ملتی تھیں لیکن کہاں جانا ہے اس کا فیصلہ وہ اس بنیاد پر کرتے تھے کہ آیا وہ علاقہ تصادم کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ اکتوبر 1921 میں انہوں نے اس کے لیے ضروری شرائط پیش کیں۔

خواہ ہمارے پاس صرف ایک ضلع اچھی طرح سے تیار ہو، ہم مضبوطی سے لڑنے اور جیتنے کے اہل ہیں۔ میں ایسے ضلع میں ڈیرے ڈالنے کو تیار ہوں گا لیکن اس کے لیے پہلے درج ذیل شرائط کو پورا کرنا ہوگا۔

وہاں کے ہندو اور مسلمانوں بھائی بھائی کی طرح رہتے ہوں۔ وہ ایک دوسرے سے ڈر کر نہیں بلکہ ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہوں۔

ضلع کے ہندوؤں، مسلمانوں اور پارسیوں کو ذہنوں میں یقین ہونا چاہیے کہ مسئلہ خلافت پر فتح ہندوستان کے تعاون سے پرامن جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔

اس ضلع کے لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ عدم تشدد کے عزم کے ساتھ انہیں پھانسی پر چڑھنے کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا۔ سو میں سے کم از کم ایک شخص میں ایسی ہمت ہونی چاہیے۔ یعنی پانچ لاکھ کی آبادی میں 5000 افراد ایسے ہونے چاہئیں جو خاموشی سے موت کو گلے لگانے کا عزم رکھتے ہوں۔

اس ضلع کے ہندو چھوا چھوت کو گناہ سمجھتے ہوں اور بھنگیوں وغیرہ کے ساتھ ہمدردی سے پیش آتے ہوں۔

اس ضلع کے 90 فیصد سے زیادہ لوگوں نے غیر ملکی کپڑوں کا استعمال ترک کر دیا ہو اور اسی ضلع میں خود کاتے ہوئے سوت سے بنے کھادی کے کپڑے پہنتے ہوں۔ ہر دس افراد کے لیے ایک چرخہ ہونا چاہیے جو استعمال میں بھی ہو۔


ان شرائط کی سختی سے تعریف کی گئی تھی اور ان کے نفاذ کی احتیاط سے نگرانی کی گئی تھی۔ گجرات کے ایک اور علاقے کھیڑا کو سول نافرمانی کے ممکنہ علاقے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا اور گاندھی نے اس سلسلے میں وہاں سرگرم عباس طیب جی کو لکھا ’’ہماری تیاری ٹھوس اور مناسب ہونی چاہیے۔ سودیشی کی جڑیں گہری ہوں۔ چھوا چھوت نہ ہو ہندو مسلم اتحاد حقیقی ہونا چاہیے۔ یہ سب حقیقی عدم تشدد کے جذبے کے بغیر ناممکن ہے۔‘‘

سورت کے باردولی میں سول نافرمانی شروع کرنے کی تیاری پر گاندھی جی نے آزاد سبحانی کے ساتھ علاقہ کا دورہ کرنے کے بعد کہا ’’ایک عظیم سلطنت کی طاقت کو چیلنج کرنے سے پہلے باردولی کو اپنا سودیشی پروگرام مکمل کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ہاتھ سے کاتے ہوئے سوت سے وافر کپڑا تیار کیا جائے، اچھوتوں کو قومی اسکولوں میں آزادانہ طور پر قبول کیا جائے اور یہ اتنا غیر متشدد ہونا چاہیے کہ ایک غیر مسلح انگریز سمیت افسران مکمل طور پر محفوظ محسوس کریں۔‘‘

گاندھی جی کا خیال تھا کہ نافرمانی کی تحریک ان پیشگی شرائط کے بغیر کام نہیں کرے گی۔ سول نافرمانی کی تحریک کے لیے باردولی کا جائزہ لیتے ہوئے، گاندھی جی نے جامع تعلیم کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا ’’یہ کافی نہیں ہے کہ بھنگیوں اور دیگر ایسے لوگ آزادانہ طور پر جلسوں میں شریک ہوں۔ چھوا چھوت کی رسم کو ختم کرنے کا مفہوم اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ لوگوں کو ڈھیڈوں اور بھنگیوں سے پیار کرنا چاہیے۔ ان کے بچوں کو قومی اسکول جانا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہمیں جانا چاہیے اور ان کے والدین کو اس کے لیے راضی کرنا چاہیے۔‘‘

ملک بھر میں اور خاص طور پر متحدہ صوبوں میں مختلف مقامات پر تشدد کے بعد مہاتما گاندھی نے باردولی کی مجوزہ نافرمانی کی تحریک کو موخر کر دیا جبکہ تحریک عدم تعاون جاری رہی۔


مارچ 1922 میں بغاوت کے الزام میں گرفتاری سے قبل گاندھی جی نے کئی بار واضح کیا تھا کہ سول نافرمانی کی تحریک اور عدم تعاون کی تحریک میں فرق ہے۔ جواہر لال نہرو کو نہ صرف دسمبر 1921 میں بلکہ مئی 1922 میں بھی نافرمانی کی سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا، اس وقت وہ غیر ملکی کپڑوں کا بائیکاٹ کر رہے تھے۔ 1924 کے آخر تک عدم تعاون کی تحریک میں نرمی کی گئی۔

گاندھی کی طرف سے اختیار کیے گئے تمام نظم و ضوابط کے برعکس آزادی کے بعد ہندوستان میں کوئی خود ساختہ نظم و ضبط نظر نہٰں آتا۔ مثال کے طور پر 1970 کی دہائی میں گجرات کی ’نو نرمان تحریک‘ کو لیں۔ یہ تحریک 1972 کے اسمبلی انتخابات میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کو ہٹانے کے لیے تھی۔ یہ مہم بہار میں آر ایس ایس کی حمایت یافتہ جے پی تحریک کے تحت شروع کی گئی تھی۔ ایک پرتشدد مظاہرے میں، ہجوم نے مبینہ بدعنوانی کے الزامات پر متعدد ارکان اسمبلی کو زد و کوب کیا اور انہیں استعفی دینے پر مجبور کیا۔ یہ آزاد ہندوستان میں فسطائیت کے عروج کی پہلی علامت تھی۔

جے پرکاش نارائن کی ایک حالیہ سوانح عمری میں کہا گیا ہے کہ ’نو نرمان تحریک‘ کی قیادت آر ایس ایس کے نوجوان پرچارک (بشمول نریندر مودی) کر رہے تھے۔ یہ تحریک ان واقعات میں سے ایک سمجھی جاتی ہے جس نے 1975-77 میں ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے زمین تیار کی۔ ہندوستان میں بدعنوانی کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں بنیادی طور پر خود شناسی، جمہوری اور انسان دوست جذبات کا فقدان رہا، جو گاندھی کی نافرمانی اور عدم تعاون کی تحریکوں میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */