انڈیگو... یعنی لاپروائی، بے رخی اور ٹوٹتا بھروسہ... آدتیہ آنند
پانی سر سے اوپر جا چکا ہے۔ ہندوستان کی ہوابازی صنعت کو اگلے کسی بحران سے پہلے ٹھوس جوابدہی طے کرنے کے ساتھ نتیجہ خیز قدم اٹھانے ہوں گے۔

انڈیگو مسافر طیاروں کی پروازوں کی بڑی تعداد میں منسوخی نے ایک ہی جھٹکے میں جس طرح کا خوفناک سچ گزشتہ دنوں سامنے لایا ہے، اس کا اندازہ پہلے سے ہی تھا۔ خطرے کی گھنٹی تو نومبر کے آغاز میں ہی سن لی جانی چاہیے تھی، جب اوسطاً منسوخ ہونے والی اس کی پروازوں کی تعداد روزانہ تقریباً 14 سے بڑھ کر 40 تک پہنچ چکی تھی۔ یہ منسوخیاں تب تک بڑھتی رہیں، جب تک نظام پوری طرح درہم برہم نہیں ہو گیا اور بالآخر دسمبر میں ایک ہی دن میں ایک ہزار سے زیادہ پروازیں منسوخ ہو گئیں۔
حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ ہزاروں مسافر مختلف ہوائی اڈوں پر پھنسے رہ گئے، جنہیں یہ بتانے والا کوئی نہیں تھا کہ وہ کب پرواز کر پائیں گے۔ کتنے ہی لوگوں کے نوکری کے انٹرویوز، شادیاں، آخری رسومات، اسپتال میں علاج کے طے شدہ شیڈول اور بین الاقوامی پروازیں چھوٹ گئیں۔ غیر ملکی شہری واپسی کے لیے پھنس گئے۔ پونے میں لینڈ کرنے کے بعد لوگوں کو جہاز میں ہی انتظار کرنا پڑا کیونکہ پائلٹ کو پارکنگ کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ سیدھی پرواز منسوخ ہونے سے پٹنہ-دہلی پرواز کے مسافر بھونیشور میں پھنس گئے۔ ایسا ہی نظارہ ہر طرف دیکھنے کو مل رہا تھا۔ ایک طرف بے بسی کی یہ حالت تھی، دوسری طرف موقع کا فائدہ اٹھا کر دیگر ایئرلائنز کے ٹکٹوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، لیکن حکومت نے فوری مداخلت ضروری نہیں سمجھی۔
6 دسمبر کو آنکھ کھلی، تب شہری ہوا بازی کی وزارت اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (ڈی جی سی اے) کو کرایوں کی حد مقرر کرنے کی سوجھی۔ راجیہ سبھا رکن جان بریٹاس نے یہ مسئلہ اٹھایا کہ حکومت تو ہمیشہ یہی دعویٰ کرتی رہی ہے کہ مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں کوئی غیر منصفانہ قیمت طے نہیں ہو رہی، ہوائی کرایہ طلب پر مبنی ہے اور کوئی کارٹیل کام نہیں کر رہا۔ تو کیا حکومت کسی مجبوری میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے جھوٹ بول رہی تھی؟
حالات بگڑنے کے بعد ڈیمیج کنٹرول میں لگے ڈی جی سی اے نے آخرکار 9 دسمبر کو انڈیگو کو روزانہ کی پروازوں میں 10 فیصد کمی کا حکم دیا ہی، اس کے بورڈ کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرتے ہوئے انڈیگو کے دفاتر اور ہوائی اڈوں پر افسران کی تعیناتی بھی کی۔ بالکل اسی طرح جیسے ’گھوڑا بھاگ جانے کے بعد باڑ لگانے‘ کی یاد آتی ہے۔ وزارت نے مرکزی وزیر ہوا بازی رام موہن نائیڈو کے ساتھ ایئرلائن کے ڈچ سی ای او پیٹر ایلبرز کی میٹنگ کی تصویر بھی جاری کی، جس میں ایلبرز ہاتھ جوڑ کر تکالیف کے لیے معافی مانگتے نظر آ رہے تھے، لیکن کیا واقعی ایسا تھا!
ہندوستان کی سب سے زیادہ منافع کمانے والی ایئرلائنز میں سے ایک انڈیگو کے اس زوال کی سیدھی سادی تشریح کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ وہی ایئرلائن ہے جس نے 24-2023 میں 7,500 کروڑ روپے کا خالص منافع حاصل کیا، جس کے پاس 400 طیاروں کا بیڑا ہے (ایئر انڈیا سے دو گنا) اور جو روزانہ 2,200 پروازیں چلاتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کم پروازیں چلانے والی ایئر انڈیا کے پاس انڈیگو کے مقابلے کہیں زیادہ 6,350 پائلٹ ہیں، جبکہ انڈیگو کے پاس محض 5,085۔ یہ بھی اہم ہے کہ ڈی جی سی اے کو یہ سب معلوم تھا، پھر بھی انڈیگو کی پروازوں پر کوئی لگام نہیں لگی۔ یہاں تک کہ اس نے پروازوں میں اضافے کی بھی منظوری دے دی، خاص طور پر سردیوں کی تعطیلات کے مصروف موسم میں ایئرلائن کی جانب سے مانگی گئی رات کی پروازوں کو۔
میڈیا کی خبروں کے مطابق، ڈی جی سی اے اس کے اعلیٰ انتظامیہ کے خلاف کارروائی چاہتا ہے۔ تاہم کچھ ہوا بازی کے ماہرین کی رائے ہے کہ کارروائی انڈیگو سے نہیں، خود ڈی جی سی اے سے شروع ہونی چاہیے۔ ویسے بھی یہ ڈائریکٹوریٹ شہری ہوا بازی کی وزارت کے تحت آتا ہے اور خود مختار نہیں ہے۔ اس لیے آخری ذمہ داری تو حکومت ہی کی بنتی ہے۔ پورے معاملے میں ڈی جی سی اے اور ہوا بازی کی وزارت کا ردعمل محض ضابطہ جاتی کمزوری کو ہی ظاہر کرتا ہے۔ تھکن سے متعلق معیارات کو سختی سے نافذ کرنے کے بجائے ڈی جی سی اے نے مزید پروازیں منسوخ نہ ہوں، اس دباؤ میں پرواز کی ڈیوٹی کے وقت کی حد سے متعلق کچھ اصول ہی واپس لے لیے۔ نگراں کے درجے پر ہونے والی اس الٹ پھیر سے یہی پیغام گیا کہ ’دباؤ کے آگے‘ سیکورٹی کے اصول بھی نرم کیے جا سکتے ہیں۔ یہی منطق کارپوریٹ امور کی وزارت پر بھی نافذ ہوتی ہے، جو انتباہی اشاروں کو مسلسل نظرانداز کرتی رہی ہے۔
ایک ہوا بازی کے ماہر سوال اٹھاتے ہیں کہ ’’جب ایئرلائنز قواعد کی حدیں پار کرنے لگیں، تو انہیں روکنا نگراں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن کیا ہوگا جب ڈی جی سی اے ہر کمزور عمل کو منظوری دینے لگے، ہر شارٹ کٹ کو قبول کر لے اور انہی نظاموں پر اعتماد ظاہر کرے جو بار بار ناکام ہوتے رہتے ہیں؟‘‘ انڈیگو کا یہ زوال کوئی اچانک پیش آیا واقعہ نہیں تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ’نگراں‘ کنٹرول کے کردار کو بھول کر تماشائی بن کر آپریٹروں کی خواہشات پر مہر ثبت کر رہا تھا۔ فطری ہے کہ ایسے میں ہوائی سیکورٹی ’قسمت کے سہارے‘ والی بات بن جاتی ہے، نہ کہ ضابطے کی اور نہ ہی سختی کی۔
ہندوستان کی ایئرلائنز کے لیے بین الاقوامی ایف ڈی ٹی ایل معیارات کی خلاف ورزی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ برسوں سے جاری ہے۔ وہ معیارات جن سے طے ہوتا ہے کہ پائلٹ کتنی دیر تک پرواز کر سکتے ہیں، ڈیوٹی کے درمیان انہیں کتنا آرام ملنا چاہیے اور انہیں زیادہ سے زیادہ کتنی رات کی لینڈنگ کرنی چاہیے۔ یہ معیارات بین الاقوامی شہری ہوا بازی تنظیم (آئی سی اے او)، امریکہ میں قائم فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) اور یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ای اے ایس اے) کے مقرر کردہ عالمی پیمانوں پر مبنی ہیں، جو تھکن کی حالت میں انسانی کارکردگی پر دہائیوں کی تحقیق کے بعد طے ہوئے ہیں۔ لیکن انہیں طویل عرصے تک اس وقت تک نظرانداز کیا جاتا رہا جب تک پائلٹوں کی جانب سے احتجاج اور عدالتوں کی مداخلت نہیں ہوئی۔
بالآخر 2024 میں ڈی جی سی اے نے ہندوستانی معیارات کو بین الاقوامی پیمانوں کے مطابق ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔ اصول سادہ تھا... زیادہ آرام، کم نائٹ لینڈنگ اور حدود کی واضح تعریف۔ یہ سائنسی بنیاد پر تھا، لیکن برسوں، یا پھر شاید دہائیوں سے نافذ نہیں ہوا تھا۔ سائنسی مطالعات بتاتے ہیں کہ مناسب آرام کے بغیر مسلسل کام کرنے سے پائلٹوں کے شعور، چوکسی اور ردِعمل کے وقت پر اثر پڑتا ہے، جو سیکورٹی سے متعلق سنگین خطرے کا باعث بنتا ہے۔ یہ خاص طور پر رات کی ڈیوٹی اور صبح 2 بجے سے 6 بجے کے درمیان کے اس وقت میں زیادہ اہم ہو جاتا ہے، جب نیند میں خلل کے باعث تھکن عروج پر ہوتی ہے۔
ڈی جی سی اے نے جنوری 2024 میں ترمیم شدہ ایف ڈی ٹی ایل معیارات کا اعلان کیا اور جولائی و نومبر 2025 میں 2 مرحلوں میں انہیں نافذ کر کے مسئلے کا حل نکالا۔ اس سے پائلٹوں کے ہفتہ وار آرام کی مدت 48 گھنٹے تک بڑھ گئی، رات کی ڈیوٹی کو ’رات 12 بجے سے صبح 6 بجے تک‘ کے طور پر از سر نو متعین کیا گیا اور نائٹ لینڈنگ کی حد بھی فی شفٹ 6 سے گھٹا کر 2 کر دی گئی۔ مسلسل رات کی ڈیوٹی کی تعداد بھی 2 تک محدود کر دی گئی۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ اپنے پائلٹوں کی تھکن سے متعلق بنائے گئے نئے قواعد پر ضروری اقدامات کرنے میں انڈیگو ناکام رہی۔ پائلٹوں کی تعداد اور اسٹینڈ بائی پول بڑھانے کے بجائے انڈیگو نے بھرتی پر ہی روک لگا دی، تنخواہوں کو منجمد کر دیا، پائلٹوں کی حاصل شدہ رخصتیں کم کر دیں اور عملے کے ارکان کو ہنگامی حالات کے لیے کسی اضافی انتظام کے بغیر قانونی ڈیوٹی کی حد تک دھکیل دیا۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ اس نے ’ڈیڈ ہیڈ‘ مدت (وہ پروازیں جو پائلٹ اگلی پرواز کے لیے کاک پٹ میں جانے سے پہلے مسافر کے طور پر کرتے ہیں) کو بھی ’آرام‘ کا حصہ مان لیا۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی ڈی جی سی اے خاموش رہا!
دوسری جانب ایئر انڈیا نے اپنا آپریشن 208 طیاروں کے ساتھ 90 گھریلو اور بین الاقوامی راستوں پر تقریباً 5,600 ہفتہ وار پروازوں سے گھٹا کر نومبر 2025 تک 187 طیاروں کے بیڑے کے ساتھ 82 مقامات پر تقریباً 4,700 ہفتہ وار پروازوں تک محدود کر دیا۔ ایئر انڈیا پائلٹوں کی مناسب دستیابی، کم عملہ اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ نئے ایف ڈی ٹی ایل قواعد کو بخوبی اپناتا نظر آیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ گزشتہ ہفتے جب انڈیگو مشکلات سے دوچار تھی، ایئر انڈیا بغیر رکاوٹ اپنا آپریشن جاری رکھ سکا۔
انڈیگو نے اپنے طیاروں کو روزانہ 12-13 گھنٹے کی زیادہ سے زیادہ استعمال کی شرح پر اڑانا جاری رکھا، جو کم فاصلے کی پروازوں کے لیے عالمی سطح پر سب سے زیادہ ہے۔ بہتر تجارتی فائدے کے لیے رات کی پروازیں بڑھائی گئیں اور عملے کو قانونی طور پر مقرر تھکن کی حد تک کم سے کم آرام کے ساتھ تعینات کیا گیا۔ یہ کم لاگت والا ماڈل، جو سخت شیڈول کے ساتھ دیر رات اور صبح سویرے کی ’ریڈ آئی‘ پروازوں پر حد سے زیادہ انحصار کے ذریعے آمدنی کو زیادہ سے زیادہ کرتا تھا، یکم نومبر 2025 کو ڈی جی سی اے کے ترمیم شدہ ایف ڈی ٹی ایل معیارات کے مکمل نفاذ پر بہت کم گنجائش چھوڑ سکا، جس میں رات کی لینڈنگ محدود کر دی گئی اور آرام کی ضرورت بڑھا دی گئی۔
ایک سینئر کپتان نے کہا کہ ’’ہم جس طرح 100 فیصد صلاحیت پر کھیل رہے تھے، کسی معمولی سے جھٹکے میں بھی کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہونا طے تھا۔‘‘ سوال یہ ہے کہ ڈی جی سی اے اور انڈیگو بورڈ نے مسافروں کی سیکورٹی سے متعلق ممکنہ خطرات پر توجہ کیوں نہیں دی؟ ایس ای بی آئی اور کارپوریٹ امور کی وزارت نے بھی انڈیگو کے شریک بانی راکیش گنگوال کی جانب سے برسوں پہلے اٹھائے گئے حکمرانی سے متعلق مسائل پر فیصلہ کن کارروائی کرنے میں ٹال مٹول کی۔ ایسے میں سوال بجا ہے کہ ’آخر کون کس کو کنٹرول کر رہا ہے؟‘
انڈیگو کے زوال کی حقیقت سمجھنے کے لیے راکیش گنگوال کی جانب سے 2019 میں دی گئی وارننگ پر غور کرنا ضروری ہے۔ گنگوال ایک تجربہ کار ہوا باز تھے، جن کے پاس یونائٹیڈ ایئرلائنز میں اعلیٰ عہدوں اور یو ایس ایئرویز کے سی ای او کے طور پر کام کرنے کے ساتھ تقریباً 4 دہائیوں کا تجربہ تھا۔ 2006 میں انڈیگو کے قیام کے وقت گنگوال کو ہی اس کا منظم، کم لاگت والا آپریشنل ماڈل تیار کرنے، بڑے پیمانے پر طیاروں کے آرڈرز حاصل کرنے اور ایسی لاگت کی ساخت بنانے کا سہرا دیا گیا تھا، جہاں کارکردگی کے معاملے میں انڈیگو ایک کیس اسٹڈی بن گئی تھی۔ لیکن جولائی 2019 میں انڈیگو کی سنگین انتظامی خامیوں کے حوالے سے گنگوال نے ہی سیبی کے سامنے شکایت درج کرائی، جس کے مرکز میں شریک بانی راہل بھاٹیہ (دہلی میں مقیم تاجر) اور ان کے انٹر گلوب انٹرپرائزز (آئی جی ای) گروپ کی جانب سے غیر معمولی کنٹرول کا معاملہ تھا۔ اس گروپ کے پاس بورڈ کے 10 ڈائریکٹروں میں سے 5، نیز منیجنگ ڈائریکٹر، سی ای او اور چیئرمین مقرر کرنے کا اختیار تھا، جبکہ گنگوال محض ایک ہی تقرری کر سکتے تھے۔ گنگوال کی شکایت تھی کہ اس طرح کا غیر متوازن طاقت کا توازن بورڈ کی حقیقی آزادی کو متاثر کرتا ہے۔ یہ انٹر گلوب ہوٹلز اور انٹرگلوب رئیل اسٹیٹ وینچرز جیسی بھاٹیہ سے منسلک دیگر کمپنیوں سے متعلق انتظامی فیصلوں یا متعلقہ فریقین کے لین دین کو مؤثر طور پر چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔
گنگوال کے سخت بیانات میں انڈیگو کے اقتدار کے ڈھانچے کا موازنہ ’پان کی دکان‘ سے کیا گیا تھا، جہاں کوئی رسمی جواب دہی نہیں تھی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کے مرکوز کنٹرول سے خطرات کے تئیں لاپروائی جنم لیتی ہے، جو انڈیگو کے ادارہ جاتی استحکام کے لیے خطرناک ہے۔
لندن کی ایک عدالت کی جانب سے گنگوال کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد، ثالثی اور شیئر ہولڈر معاہدوں میں کچھ ترمیمات کے باوجود بھاٹیہ انڈیگو پر اپنا غلبہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ گنگوال نے فروری 2022 میں انڈیگو چھوڑ دی۔ اس کے بعد انہوں نے ایئرلائن میں اپنی 37 فیصد حصص داری کو مرحلہ وار فروخت کیا اور 2025 کے وسط تک محض 5 فیصد حصص ہی اپنے پاس رکھے۔ گنگوال کے فروخت کردہ شیئرز کی مالیت 45,000 کروڑ روپے سے زیادہ ہونے کا اندازہ ہے۔
ماہرین کا الزام ہے کہ حکومت نے شہری ہوا بازی کی منڈی میں 2 بڑی ایئرلائنز انڈیگو (65-60 فیصد) اور ایئر انڈیا (23-20 فیصد) کی اجارہ داری کو فروغ دیا، جو منڈی کے 80 فیصد سے زیادہ حصے پر قابض ہیں۔ ڈی جی سی اے انڈیگو کو اس کی ’بڑی حیثیت‘ کے غلط استعمال سے روکنے میں بھی ناکام رہا، جس نے نہ صرف چھوٹی ایئرلائنز کو ڈرا دھمکا کر ان کے راستوں پر قبضہ کر کے انہیں مقابلے سے باہر کیا اور جارحانہ قیمتوں کے ذریعے حریفوں کو شکست دی، بلکہ اس سے بھی بدتر یہ کہ اسے شمال مشرقی ریاستوں جیسے کئی ’غیر منافع بخش‘ علاقوں سے ہٹنے کی اجازت دے دی گئی۔
انڈیگو کا زوال اس بات کی ایک خطرناک مثال ہے کہ کس طرح کارپوریٹ غرور، نگران کی ٹال مٹول اور حکومتی ناکامیاں مل کر لاکھوں صارفین کے اعتماد اور سیکورٹی کو خطرے میں ڈال دیتی ہیں۔ نمائشی اقدامات کا وقت اب ختم ہو چکا ہے۔ ہندوستان کی ہوا بازی صنعت کو اگلے کسی بحران سے پہلے نہ صرف ٹھوس جواب دہی طے کرنی ہوگی بلکہ ساختی اصلاحات پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔