چوتھی بڑی معیشت کا دعویٰ محض خوش فہمی، جاپان سے موازنہ بے بنیاد...ارون کمار
ارون کمار کے مطابق ہندوستان کی جی ڈی پی جاپان سے معمولی فرق سے آگے ہو سکتی ہے، مگر شدید عدم مساوات، بے روزگاری اور ناقص اعداد و شمار کے باعث یہ دعویٰ گمراہ کن اور محض نمائشی ہے

حال ہی میں نیتی آیوگ اور وزیرِ اعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان نے جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی چوتھی بڑی معیشت کا مقام حاصل کر لیا ہے۔ یہ دعویٰ آئی ایم ایف کے 2025 کے تخمینوں پر مبنی ہے، جن کے مطابق ہندوستان کی جی ڈی پی جاپان سے محض 0.586 ارب ڈالر یا 0.014 فیصد زیادہ ہو سکتی ہے لیکن ہندوستان کے اپنے معاشی اعداد و شمار پر عدم اعتماد کے باعث یہ خوشی قبل از وقت اور گمراہ کن ہے۔ مودی نے گاندھی نگر کی ایک ریلی میں اعلان کیا تھا، ’’ہم جاپان کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘
سوال یہ ہے کہ اتنی عجلت میں دعویٰ کیوں کیا گیا؟ کیا یہ ’آپریشن سندور‘ کے بعد حکومت کی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش ہے؟ عالمی سطح پر یہ تاثر ہے کہ ہندوستان نے امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ کے دباؤ میں جنگ بندی قبول کی، جس کا اعلان ہندوستان سے پہلے خود ٹرمپ نے کیا۔ اس سے ٹرمپ کا مؤقف زیادہ قابلِ اعتبار بن گیا، جب کہ جنگ بندی محض فوجی فیصلہ نہیں، ایک سیاسی اقدام بھی ہوتی ہے۔
آبادی اور آمدنی میں فرق
فرض کریں کہ اگر ہندوستان واقعی 2025 میں جاپان کے برابر جی ڈی پی حاصل کر لے تو بھی یہ عام ہندوستانی کے لیے کچھ خاص معنی نہیں رکھتا۔ ہندوستان کی متوقع آبادی 146 کروڑ ہوگی، جب کہ جاپان کی صرف 12 کروڑ، یعنی فی کس آمدنی اب بھی ہندوستان کی نسبت جاپان میں 12 گنا زیادہ ہوگی۔ عالمی درجہ بندی میں بھی یہی فرق جھلکتا ہے، ہندوستان فی کس جی ڈی پی میں 140ویں جب کہ جاپان 34ویں نمبر پر ہے۔
مزید یہ کہ ہندوستان میں شدید معاشی ناہمواری ہے۔ جاپان میں سرفہرست ایک فیصد افراد کی آمدنی کا حصہ 8.44 فیصد ہے، جب کہ ہندوستان میں یہ 22.6 فیصد ہے۔ جاپان کے نچلے 50 فیصد افراد کی آمدنی کا حصہ 20 فیصد ہے، جبکہ ہندوستان میں صرف 15 فیصد۔ مطلب یہ کہ جاپان کا ایک عام فرد اسی سماجی درجے کے ہندوستانی سے بارہ گنا بہتر زندگی گزار رہا ہے، جیسا کہ تعلیم، صحت اور متوقع عمر جیسے اشاریے ظاہر کرتے ہیں۔
بے روزگاری اور ناہمواری
بے روزگاری کا مطلب ہے کہ خاندان کے کم افراد کما رہے ہیں، اور اس سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جاپان میں لیبر فورس میں شمولیت کی شرح تقریباً 63 فیصد ہے جب کہ ہندوستان میں 56 فیصد، مگر سی ایم آئی ای اور آئی ایل او کے مطابق یہ شرح دراصل اس سے بھی کم ہے۔
ہندوستان میں خواتین اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ملازمت کی صورتحال خاصی خراب ہے۔ چھوٹے کاروبار، کسان، اور مائیکرو انٹرپرائز جیسے غیر منظم شعبے نوٹ بندی، جی ایس ٹی جیسے ناقص اقدامات اور جبری ڈیجیٹل پالیسیوں سے بدحال ہو چکے ہیں۔ یہی وہ شعبے تھے جو بڑی تعداد میں روزگار فراہم کرتے تھے۔ ’سدھار‘ کے نام پر ان شعبوں کو رسمی بنا کر ختم کیا جا رہا ہے۔
سرکاری سرمایہ کاری بنیادی ڈھانچے جیسے ہائی وے، ریلوے اور بجلی میں تو بڑھ رہی ہے، لیکن یہ شعبے روزگار بہت کم دیتے ہیں۔ اس کے برعکس منریگا، تعلیم اور دیہی ترقی جیسے پروگراموں کے بجٹ میں کٹوتی کی گئی ہے، جس سے غریبوں کی حالت مزید بگڑ گئی ہے۔
غربت کے دعووں کی حقیقت
حکومت کا کہنا ہے کہ غربت میں کمی آئی ہے لیکن اس کا انحصار 2015-16 اور 2019-21 کے صحت سروے کے اعداد و شمار پر ہے۔ اصل غربت کا اندازہ تو ’سماجی طور پر کم سے کم ضروری اخراجات‘ کے تصور سے ہوتا ہے، جو وقت اور جگہ کے ساتھ بدلتا ہے۔
آخری بار 2004-05 میں تندولکر کمیٹی نے غربت کی لکیر متعین کی تھی۔ چونکہ اب سماج کافی بدل چکا ہے، اس لیے نئی غربت لائن کی اشد ضرورت ہے۔ فی الحال، عالمی بینک کی فی کس روزانہ 2.15 ڈالر کی حد استعمال کرنی چاہیے، جو موجودہ شرح تبادلہ کے مطابق تقریباً 183 روپے روزانہ اور ایک پانچ افراد کے خاندان کے لیے 27,400 روپے ماہانہ بنتی ہے۔
ایسے میں ہندوستانی خاندانوں کی ایک بڑی اکثریت اس سے کم آمدنی پر گزارہ کر رہی ہے، اس لیے 90 فیصد خاندانوں کو غریب کہا جا سکتا ہے، چاہے وہ ’انتہائی غریب‘ نہ ہوں۔
پی پی پی کا مغالطہ
اشرافیہ یہ دلیل دیتی ہے کہ موازنہ ’خریداری کی طاقت کی برابری‘ (پی پی پی) کے تحت ہونا چاہیے، مگر یہ درحقیقت غریبوں کے ساتھ دوہرا دھوکہ ہے۔ کم تنخواہوں کی وجہ سے خدمات سستی ہیں اور روپے کی قیمت زیادہ نظر آتی ہے۔ لیکن غریب وہ سہولیات استعمال نہیں کرتے جو وہ سستے میں مہیا کرتے ہیں۔ لہٰذا، حقیقی غربت کا اندازہ نام نہاد ڈالر میں ہونا چاہیے، نہ کہ پی پی پی میں۔
جی ڈی پی کے اعداد و شمار کی خامیاں
نوٹ بندی کے بعد جی ڈی پی کا حساب لگانے کا طریقہ ہی غلط ہو چکا ہے۔ چونکہ غیر منظم شعبے کے اعداد و شمار دستیاب نہیں، اس لیے منظم شعبے کو بطور اشارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن نوٹ بندی اور دیگر جھٹکوں سے غیر منظم شعبہ کمزور ہوا ہے، اس لیے منظم شعبے کو بطور پروکسی لینا گمراہ کن ہے۔
جی ڈی پی، سرمایہ کاری، اور کھپت کے تمام اعداد و شمار مشکوک ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا کہ ہندوستان دنیا کی چوتھی یا پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے، محض افسانہ ہے۔ جب تک ہم حقائق، جیسے بے روزگاری، معاشی ناہمواری، ناقص ڈیٹا اور اشرافیہ پر مرکوز پالیسیوں، کا سامنا نہیں کرتے، تب تک ایسی عالمی درجہ بندیاں صرف ایک خالی ٹرافی جیسی ہیں۔
(مضمون نگار ارون کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں معاشیات کے سابق پروفیسر اور انڈین اکنامیز گریٹیسٹ کرائسس: امپیکٹ آف دی کورونا وائرس اینڈ دی روڈ اہیڈ‘ کے مصنف ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔