انڈیا اتحاد کا مشترکہ منشور: سماجی انصاف، زمین اصلاحات اور مساوی تعلیم پر زور
بہار انتخابات سے قبل انڈیا اتحاد مشترکہ منشور کی تیاری میں مصروف ہے جس میں زمین اصلاحات، مساوی تعلیم اور سماجی انصاف جیسے نکات شامل ہوں گے، جبکہ چراغ کی حکمت عملی بھی زیر بحث ہے

Getty Images
بہار میں اسمبلی انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں اور ان حالات میں ’انڈیا‘ اتحاد ایک مشترکہ منشور کے مسودے کی تیاری میں اہم پیش رفت کر چکا ہے۔ یہ مشترکہ منشور مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان نہ صرف نظریاتی ہم آہنگی پیدا کرے گا بلکہ ایک واضح فکری بنیاد بھی فراہم کرے گا۔
ذرائع کے مطابق، اتحاد میں شامل تمام پارٹیاں جیسے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی)، کانگریس، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی)، سی پی آئی (ایم)، سی پی آئی (مالے) اور وکاس شیل انسان پارٹی (وی آئی پی) اس دستاویز پر کام شروع کر چکی ہیں جو این ڈی اے کی پالیسیوں کے متبادل کے طور پر پیش کیا جائے گا۔
اس سمت میں پہلا اہم قدم آر جے ڈی کے رہنما تیجسوی یادو کی قیادت میں ہونے والی پہلی مشترکہ کمیٹی کی میٹنگ میں اٹھایا گیا۔ یاد رہے کہ ’انڈیا‘ اتحاد نے تین بڑی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں، رابطہ کمیٹی، مہم کمیٹی اور انتخابی منشور کمیٹی۔ منشور تیار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ’انڈیا‘ اتحاد بہار میں حکومت بناتا ہے تو یہ محض نعرہ نہ ہو بلکہ سماجی انصاف پر مبنی ایک حکومتی خاکہ ہو۔
منشور کمیٹی کے رکن اور بہار کانگریس کے نوجوان رہنما منجیت ساہو کے مطابق، ‘‘جیسے کہ راہل گاندھی جی بار بار کہتے ہیں، سماجی انصاف صرف انتخابی مہم کا جز نہیں ہوگا بلکہ اسی کو مہم کا مرکزی خیال بنایا جائے گا۔ پورا بیانیہ اسی کے گرد ترتیب دیا جائے گا۔‘‘
منشور میں ذات پر مبنی ریزرویشن کی حد بڑھانے کی بات تو شامل کی ہی جائے گی، ساتھ ہی بہار سے بڑے پیمانے پر ہجرت، خاص طور پر نوجوانوں اور محنت کش طبقے کے باہر جانے جیسے مسائل کے دیرپا حل کی بھی بات کی جائے گی۔
ایک اور اہم تجویز زمین اصلاحات سے متعلق ہے، جس پر عرصے سے توجہ نہیں دی گئی۔ بہار کی نصف سے زیادہ آبادی زمین سے محروم ہے۔ اتحاد کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ بندیوپادھیائے کمیٹی کی زمین اصلاحاتی سفارشات پر سنجیدہ غور و خوض کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر دلتوں اور دیگر محروم طبقات کے درمیان منصفانہ زمین کی تقسیم، زمین کے پٹے کی فراہمی اور زرعی پیداوار میں اضافے سے متعلق نکات منشور میں شامل کیے جانے کی توقع ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کمیشن کا قیام نتیش کمار نے ہی کیا تھا لیکن دو دہائیوں تک اقتدار میں رہنے کے باوجود وہ اسے نافذ نہیں کر سکے۔
اس منشور میں مساوی تعلیم کے نفاذ کا مطالبہ بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ کانگریس اس معاملے پر سرگرم ہے۔ اس جماعت کے ایک سینئر رہنما کے مطابق، ’’تعلیمی عدم مساوات کم کرنے اور ہمہ گیر ترقی کے لیے یہ ناگزیر ہے۔‘‘
یہ تجویز طویل عرصے سے مساوی اسکولنگ سسٹم کے مطالبے سے متاثر ہے جو ہر بچے کو ذات، طبقے یا آمدنی سے ہٹ کر معیاری تعلیم کی فراہمی کی یقین دہانی کراتا ہے۔ منشور کمیٹی میں شامل ایک آر جے ڈی رہنما نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ریزرویشن کی توسیع، زمین اصلاحات اور مساوی تعلیم جیسے اہم نکات پر بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ عمومی اتفاق ہو چکا ہے۔
یہ خیال کہ انڈیا اتحاد کو مشترکہ منشور دینا چاہیے، 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی سامنے آیا تھا لیکن ذات پر مبنی مردم شماری جیسے حساس معاملات پر اندرونی اختلافات کی وجہ سے یہ مکمل نہیں ہو سکا۔ یہ معاملہ آج بھی نازک ہے، کم از کم قومی سطح پر۔ کانگریس، آر جے ڈی، سماج وادی پارٹی، سی پی آئی، سی پی ایم اور ڈی ایم کے جیسی جماعتیں مکمل ذات پر مبنی مردم شماری کی حامی ہیں۔ جبکہ ترنمول کانگریس تذبذب کا شکار ہے، حالانکہ اس نے غیر تسلیم شدہ ذاتوں کے لیے او بی سی سطح کا جائزہ لینے کے لیے ٹاسک فورس کے قیام کا وعدہ کیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مشترکہ منشور کب جاری ہوتا ہے۔
’نوکری کے بہار با‘ کا اصل مطلب
انتخابات کے قریب آتے ہی نتیش کمار کی حکومت نوکریاں بانٹنے میں مصروف ہو گئی ہے لیکن ایک لمحہ رک کر سوچیے، یہ ملازمتیں واقعی بے روزگار نوجوانوں کو مل رہی ہیں یا ان سیاسی خاندانوں کو جو اقتدار سے قریب ہیں؟ آر جے ڈی رہنما تیجسوی یادو نے طنزاً کہا ہے کہ نتیش حکومت کو ’داماد کمیشن‘ بھی بنا دینا چاہیے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی لوگ پہلے کانگریس کی مبینہ خاندانی سیاست کے خلاف سیاست میں آئے تھے۔
مثال کے طور پر، جیتن رام مانجھی کے داماد دیویندر کمار مانجھی جو کبھی ان کے پرسنل اسسٹنٹ ہوا کرتے تھے، اب بہار درج فہرست جاتی کمیشن کے نائب صدر بنا دیے گئے ہیں۔ اسی کمیشن کا صدر رام ولاس پاسوان کے داماد انل پاسوان کو بنایا گیا ہے۔ نتیش کے قریبی وزیر اشوک چودھری کے داماد ساین کنال کو بہار ریاستی مذہبی ٹرسٹ کونسل کا رکن بنایا گیا ہے۔ وہ معروف رامائن مندر پروجیکٹ سے بھی منسلک ہیں۔
سب سے زیادہ تنقید جے ڈی یو کے رہنما سنجے جھا کی دونوں بیٹیوں کی سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کے وکیل کے طور پر تقرری پر ہوئی ہے، حالانکہ دونوں ابھی 30 سال کی بھی نہیں ہیں اور قانونی تجربہ بھی محدود ہے لیکن جے ڈی یو کے ایک رہنما نے کہا کہ ’یہ دربھنگہ کے لیے فخر کی بات ہے۔‘ یہ بیان ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب لاکھوں نوجوان معیاری نوکری کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایسے میں ’نوکری کے باہر با‘ کا مطلب واضح ہو جاتا ہے—یہ خاص خاندانوں کے لیے مختص ہیں۔
چراغ کی اصل چاہت کیا ہے؟
لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے سربراہ چراغ پاسوان نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ان کی پارٹی بہار کی تمام اسمبلی سیٹوں پر امیدوار اتارے گی۔ ان کے اس اعلان نے سیاسی تجزیہ کاروں کو متحرک کر دیا ہے کہ آخر ان کی اصل حکمت عملی کیا ہے؟ ان کے حمایتی اس فیصلے کو پارٹی کی توسیع کا قدم کہہ رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ انہیں این ڈی اے کے اندر وہ اہمیت نہیں دی جا رہی جس کی وہ امید کر رہے تھے۔
لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے سربراہ چراغ پاسوان نے جب سے اعلان کیا ہے کہ وہ بہار کی تمام اسمبلی نشستوں پر امیدوار اتاریں گے، تب سے سیاسی حلقوں میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں کہ آخر ’وزیر اعظم مودی کے ہنومان‘ کی اصل نیت کیا ہے؟ اگرچہ ان کے حامی اسے پارٹی کے دائرہ کار کو وسعت دینے کی سمت میں ایک بڑا قدم قرار دے رہے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پٹنہ کے سیاسی دربار میں چراغ کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا جتنی وہ امید کر رہے تھے۔
کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کا ماننا ہے کہ چراغ اس اعلان کے ذریعے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) میں زیادہ سے زیادہ نشستوں پر دعوے کی چال چل رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنتا دل (یو) کے رہنما بھی ان کی سیاسی خواہشات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دے رہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا چراغ کے پاس جے ڈی (یو) کو نقصان پہنچانے کی واقعی کوئی سیاسی حیثیت ہے؟
پٹنہ کے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے، ’’چراغ نتیش کمار کے ساتھ وہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان کے والد رام ولاس پاسوان نے 2005 میں لالو پرساد یادو کے ساتھ کیا تھا۔‘‘ اس وقت لالو-رابڑی کی 15 سالہ حکومت کو ختم کرنے میں رام ولاس پاسوان نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت لوک جن شکتی پارٹی نے راشٹریہ جنتا دل کے خلاف تو امیدوار کھڑے کیے تھے، مگر کانگریس کے خلاف نہیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ آر جے ڈی کو سب سے زیادہ 75 نشستیں ملیں، ایل جے پی کو 29 اور کانگریس کو 10 نشستیں حاصل ہوئیں۔ رام ولاس نے ان میں سے کسی کو بھی حمایت نہیں دی، جس سے نتیش کمار کے لیے اقتدار تک کا راستہ ہموار ہو گیا۔ چراغ شاید اسی طرح کی چال چلنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عوام کے درمیان چراغ کی وہ ساکھ نہیں ہے جو ان کے والد کی تھی۔ مزید یہ کہ ان کے چچا پشوپتی کمار پارس نے ’راشٹریہ لوک جن شکتی پارٹی‘ کے نام سے الگ جماعت بنا لی ہے، جس سے پاسوان ووٹ بینک میں دراڑ آنا طے ہے۔ کچھ مبصرین کا ماننا ہے کہ چراغ کی یہ ساری حکمت عملی دراصل اس مقصد کے تحت ہے کہ اگر کسی طرح این ڈی اے حکومت بنا لے، تو وہ نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ حاصل کر سکیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی اس پر راضی ہوگی؟ اب تک اس سلسلے میں کوئی واضح اشارہ نہیں ملا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔