آزاد فلسطینی مملکت: بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی
فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام پر عالمی حمایت بڑھ رہی ہے مگر اسرائیل و امریکہ کے سخت گیر موقف کے باعث فوری طور پر یہ خواب حقیقت بننا مشکل ہے، سب سے اہم ضرورت غزہ میں نسل کشی روکنا ہے
فلسطینیوں کا خون ناحق رنگ لا رہا ہے۔ عالمی برادری جس شدت کے ساتھ آج ان کے حقوق کا نہ صرف اعتراف کر رہی ہے بلکہ اس کے لئے عملی قدم بھی اٹھا رہی ہے ایسا پہلے کبھی نہیں تھا۔ حد تو یہ ہے کہ جس برطانیہ نے فلسطینیوں کے سینے میں یہ خنجر بھونکا تھا وہی اب آزاد اور خودمختار فلسطینی مملکت کو منظوری دے رہا ہے۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم بورس جانسن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں اس اہم راز سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ 1917 کے جس بلفور اعلانیہ کے ذریعہ ملکہ برطانیہ کی نے فلسطین کی تقسیم اور وہاں یہودیوں کے لئے ایک آزاد اسرائیلی ریاست کی تشکیل کا عندیہ ظاہر کیا تھا، وہ دو حصّوں میں تھا۔ ایک میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا تو دوسرے میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ اس سے فلسطینیوں کی کوئی حق تلفی نہیں ہوگی اور وہ ایک آزاد خود مختار ریاست کے طور پر برقرار رہے گی۔ برطانیہ نے فلسطین کی جو تقسیم کی تھی اس میں 33 فیصد زمین اسرائیل کو اور 67 فیصد زمین فلسطینیوں کے لئے چھوڑ دی گئی تھی مگر اسے وقتی طور سے اردن کے حوالہ کر دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ وقت آنے پر فلسطین کی نئی سرحدوں کا تعین کر کے اسے آزاد خود مختار ملک بنایا جائے گا مگر وہ وقت آج تک نہیں آیا۔
1948 میں جب اسرائیلی مملکت نے حتمی شکل اختیار کر لی اور اس تقسیم کو متحدہ اقوام نے بھی تسلیم کیا تو زمین کی تقسیم کا یہی فارمولہ اس عالمی پلیٹ فارم سے عالمی برادری نے بھی تسلیم کر لیا تھا لیکن ہندوستان اور سبھی عرب ملکوں سمیت ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ملکوں نے اسرائیل کے وجود کو ہی نہیں تسلیم کیا لیکن یورپ میں یہودیوں سے ہولوکاسٹ کی وجہ سے ہمدردی بھی تھی اور یہودیوں و عیسائیوں کے مابین تاریخی نفرت بھی۔ اسے یہ بہترین موقع مل گیا۔ بڑی ہوشیاری اور عیاری سے اپنے ملکوں سے یہودیوں کو نکال بھی دیا اور نام نہاد ’ارض موعود‘ میں انہیں بسا بھی دیا۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی ملکوں کی اندھی حمایت اور یہودیوں کی دولت کے بل پر اسرائیل روز اول سے ہی اپنی سرحدوں کی توسیع کرتا رہا یہاں تک کہ 1967 کی جنگ میں اس نے مصر، اردن اور شام کی مشترکہ فوج کو محض چند گھنٹوں میں شکست دے کر یروشلم سمیت پورے مغربی کنارے، مصر کے صحرا سینا اور شام کی گولان پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔
اس کے فوری بعد سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کر کے اسرائیل کو تمام مقبوضہ علاقے خالی کرنے کو کہا۔ یہ پہلی اور شاید آخری قرارداد تھی جو اسرائیل کے خلاف امریکہ کی بھی حمایت سے منظور ہوئی تھی مگر اسرائیل نے اسے جوتے کی نوک پر رکھ دیا۔ 1973 میں مصر کے ہاتھوں پٹنے کے بعد امریکہ کی ثالثی میں مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا جس کی رو سے اس نے مصر کا صحرا سینا تو خالی کر دیا مگر نہ گولان کی پہاڑیاں خالی کیں اور نہ ہی یروشلم۔ بلکہ عالمی رائے عامہ کو ٹھکراتے ہوئے یروشلم کو اپنی راجدھانی بھی ڈکلیئر کر دیا حالانکہ امریکہ کے علاوہ کسی اور ملک نے اس کو تسلیم نہیں کیا مگر اسرائیل نے کب عالمی رائے عامہ کی فکر کی ہے۔ اسے امریکہ کی یہودی لابی کی طاقت کا احساس ہے اور جانتا ہے کہ امریکہ کبھی اس کی حمایت اور مدد سے منہ نہیں موڑ سکتا، اسی لئے وہ صرف عربوں نہیں بلکہ پوری دنیا کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔
کیمپ ڈیوڈ معاہدہ مصر کے حق میں تو بہتر رہا ہے، اسے صحرا سینا واپس مل گیا مگر جمال عبد الناصر نے جس مصر کو عرب ملکوں کا لیڈر بنا دیا تھا وہ مصر عربوں میں ہی الگ تھلگ پڑ گیا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرنے والے مصر کے صدر انور سادات کو مصری فوجیوں نے ہی بھری پریڈ میں موت کے گھاٹ اتار دیا لیکن تب تک مصری فوج میں پہلے سے ہی موجود امریکی اور اسرائیلی ایجنٹ مضبوط ہو گئے تھے۔ حسنی مبارک کی شکل میں اسی ایک ایجنٹ نے مصر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ فلسطین کی جو لڑائی اب تک عربوں کا ایک متحدہ محاذ لڑ رہا تھا وہ صرف فلسطینیوں کی ہی لڑائی رہ گئی۔ عرب ممالک ایک طرف تو فلسطینی مزاحمتی تحریک فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) اور اس کے لیڈر یاسر عرفات کو مالی، سفارتی اور اخلاقی مدد تو دیتے رہے، دوسری جانب اسرائیل سے بھی رشتے ہموار کر لئے۔ مصر، اردن، قطر، متحدہ عرب امارات وغیرہ نے اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی رشتے بھی قائم کر لئے۔
اسی دوران سعودی عرب کے شاہ خالد مرحوم نے اس مسئلہ کے حل کے لئے دو مملکتی فارمولہ پیش کر دیا جس کی رو سے اگر اسرائیل سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق مقبوضہ فلسطینی علاقہ خالی کر دے اور وہاں ایک آزاد خود مختار فلسطینی ریاست قائم ہو، جس کی راجدھانی یروشلم ہو تو عرب ملک نہ صرف اسرائیل کو اس کی ان سرحدوں کے اندر تسلیم کر لیں گے بلکہ اس سے ہر طرح کے رشتے بھی استوار کر لیں گے اور اس کے تحفظ کی گارنٹی بھی دیں گے۔
یہ فارمولہ پوری دنیا کو پسند آیا۔ اسرائیل کے وجود کو ہی تسلیم نہ کرنے والے یاسر عرفات نے بھی اسے تسلیم کر لیا اور اسی کی بنیاد پر امریکہ کی ثالثی میں اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان اوسلو معاہدہ بھی ہوا جسے نہ اسرائیل کے سخت گیر عناصر نے پسند کیا اور نہ فلسطین کے۔ اسرائیل میں یہ معاہدہ کرنے والے وزیر اعظم کو قتل کر دیا گیا اور فلسطین میں ایک نیا سخت گیر محاذ حماس کی شکل میں وجود میں آ گیا۔ دوسری جانب معاہدہ کے باوجود اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیاں تعمیر کرتا رہا جس سے عاجز آ کر یاسر عرفات کے جانشین محمود عباس نے بھی اسرائیل سے مزید گفتگو کا سلسلہ بند کر دیا۔ اس کے بعد کی کہانی تو ابھی کل کی ہی ہے۔
اب جب آزاد خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کو اتنی زبردست عالمی حمایت حاصل ہے، اسرائیل اور امریکہ دونوں اوسلو معاہدہ کو ہی بھول چکے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو تو اب وسیع تر اسرائیل کی بات کہہ رہے ہیں اور ٹرمپ بھی کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل بہت چھوٹا ملک ہے اس کی سرحدوں کی اور توسیع ہونی چاہئے۔ یعنی وہ بھی وسیع تر اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں جو صحرا سینا، گولان کی پہاڑیوں اور اردن کے علاوہ عراق، سعودی عرب کا ایک حصہ جس میں مدینہ منورہ بھی شامل ہے پر مشتمل ہوگا۔ اس لئے یہ سمجھ پانا فی الحال مشکل ہو رہا ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا مگر یہ ضرور ہے کہ مستقبل قریب میں آزاد خود مختار فلسطینی مملکت کا قیام بعید از قیاس ہے۔ فوری ضرورت غزہ میں نسل کشی روکنے کی ہے جس پر ابھی ایمانداری سے کام بھی نہیں شروع ہوا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔