زندہ لاشوں کو آزادی کی کیا ضرورت؟... پرشوتم اگروال

ہر مطلق العنان بحث سب سے پہلے جذبات پر حاوی ہوتی ہے، منطق ذہانت کو نقصان پہنچاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ذاتی ’تجربات‘ کو متعلقہ شواہد پر حاوی کر دیتی ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

پرشوتم اگروال

اٹھارہویں صدی کے مفکر امینوئل کانٹ نے طلوعِ علم یا بیداری کو ’نابالغی‘ سے باہر آنے سے تشبیہ دی، جسے وہ آزاد خیالی کی راہ کی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔ اپنے 1784 میں لکھے ایک مشہور مضمون میں کانٹ نے لاطینی محاورے ’سپیرے اوت‘ (علم حاصل کرنے کی جرأت) کو روشن خیالی کے دور میں رہنما اصول کے طور پر پیش کیا۔ آزادی کے نظریہ کے اصل معنی ایک منطقی شخصیت کا ہونا اور اپنے کئے کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرنا ہے۔ کوئی سیاسی نظام تبھی تک جائز قرار دیا جا سکتا ہے جب تک وہ نابالغی سے بچنے کی آزادی دیتا ہے۔ تاہم اس میں کچھ منطقی پابندیاں اور دانشمندی بھی شامل ہیں جو کسی بھی شہری کو دوسرے شہری کی آزادی میں دانستہ طور پر مخل ہونے سے روکتی ہیں۔ شہریوں کی آزادی پر معقول پابندی کے ذریعے کوئی متکبر اور جنونی حکمراں جبراً خوف کا ماحول بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا، خواہ وہ ریاست کے مفاد میں ہی کیوں نہ عائد کی جائے۔

اب یہ کون طے کرے گا کہ آزادی محض جملہ بازی یا کچھ چنندہ لوگوں کی مراعات بن کر نہ رہ جائے؟ یہاں تک کہ سیاسی ڈھانچہ سے پرے بھی، پورے سماجی تانے بانے کو ہی شہریوں کی آزادی یقینی بنانے کو تیار دکھنا چاہئے اور اس کے لئے جامع کوشش کئے جانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے آئین کے معماروں نے اسی سمجھ کے ساتھ انصاف، مساوات اور بھائی چارے کے حوالہ سے آزادی کا تانا بانا بُنا تھا۔ ان تین ستونوں میں سے کوئی ایک بھی متزلزل ہوا، تو آزادی کمزور اور لڑکھڑاتی ہوئی نظر آئے گی۔


انصاف، مساوات، رواداری اور آزادی کے ان چار ستونوں کو کسی بھی دانشمند جمہوری حکومت کے لئے ایک اخلاقی رہنما کے طور پر کام کرنا چاہئے۔ کوئی بھی باشعور ریاست سماج میں ہمدردی اور تنقیدی سوچ کو فروغ دیتی۔ اس سے نہ تو عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچے گی اور نہ ہی یہ جمہوری و سماجی شعور کو الجھانے کا موقع فراہم کرے گی۔ یہ لوگوں کو اپنے مذہبی اعتقاد یر عمل کرنے اور تبلیغ کرنے کی اجازت دے گی لیکن مذاہب کے درمیان امتیاز نہیں کرے گی اور عقیدے کے نام پر قتل کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ ایک باشعور ریاست شہری حقوق کی حفاظت کے لئے سماجی تحریکوں کو مسلسل فروغ دے گی اور شہریوں کو کسی بھی طرح سے ’جذبات بھڑکنے کے خطرے‘ سے بچائے گی۔

کسی بھی باشعور ریاست کے شہری کبھی بھی خوف میں زندگی نہیں گزارتے۔ دراصل خوف سے آزادی ہی ہر طرح کی آزادی کا اصل ہے۔ پنڈت نہرو اپنی سوانح حیات میں 12ویں صدی کے جنگ نامہ ’راج ترنگنی‘ میں کلہن کے جملہ ’دھرم اور ابھے‘ کو بڑے جوش کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ نہرو لکھتے ہیں ’’اسے قانون اور نظام کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، کچھ ایسا جو حکمراں اور ریاست کا فرض تھا اور اسے یہ یقینی بنانا تھا- صداقت اور خوف سے آزادی۔ قانون صرف قانون نہیں اس سے بڑھ کر بھی کچھ تھا اور نظام کا مطلب لوگوں کا خوف سے آزاد ہونا تھا۔ بے خوف سماج بنانے کے بجائے پہلے سے خوفزدہ عوام پر نظام کو مسلط کرنے کا خیال کہاں تک جائز ہے۔‘‘


ایسے میں ہماری آزادی کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ہمیں یہ سوال پوچھنا ہے کہ ہندوستان اور اس کے شہری ہونے کے ناطے آج ہم خود کو کتنا آزاد محسوس کر رہے ہیں؟ سات سال قبل ایمرجنسی کی 40ویں سالگرہ کے موقع پر ٹیلی ویژن پر گفتگو کے دوران اینکر نے مجھے موجودہ حکومت کے دوران ’غیر اعلانیہ ایمرجنسی‘ کا خدشہ ظاہر کرنے والا ’الارمسٹ‘ کہہ کر نشانہ پر لیا تھا۔ لیکن اب تک ایسے لوگ بھی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ قانون کا زبردست غلط استعمال، اپوزیشن کی آواز کو منمانے طریقے سے دبانے کی کوشش، دانشوروں کا بائیکاٹ، ’گئو رکشا‘ کے نام پر ہولناک قتل عام، خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانا اور لوگوں کے گھروں اور اداروں پر بلڈوزر چلا کر قہقہے لگانا، آخر کیا ہے؟

اس منظر نامے کا سب سے تشویشناک پہلو صرف جمہوری اداروں کا زوال اور اخلاقیات کے اصولوں کا ختم ہو جانا ہی نہیں، بلکہ اسے عوام کی مل رہی کھلی حمایت ہے۔ انتہائی محتاط اور منظم طریقے سے حقائق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، خیالی دنیا بنانا اور احمقانہ سرگرمیوں کو فروغ دیتے جانے کا ہی نتیجہ ہے کہ لوگوں کا ذہن خستہ حال ہوتا جا رہا ہے اور معاشرہ تیزی سے تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔

کیا واقعی ہمیں ایسی من گھڑت اور پروپیگنڈہ والی باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے؟


کورونا وبا جیسے تاریخی بحران کے وقت بھی ہمارے سپریم لیڈر اپنی اداکاری کی مہارت پر قابو نہیں رکھ پاتے جس کے نتیجے میں لاکھوں مزدور، مجبور لوگ بھوکے پیاسے محض چار گھنٹے کے نوٹس پر پیدل اپنے گاؤں اور گھروں کو جانے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔ اس کے لئے کوئی جوابدہی قبول نہیں کرتا! نوٹ بندی کے نام پر بھی چار گھنٹے کے نوٹس پر معیشت مکمل طور پر پٹری سے اتار دی جاتی ہے اور پورا ملک بینکوں کے سامنے لائن میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس پر بھی کوئی جوابدہی نہیں قبول کرتا، کوئی زمینی بحث نہیں! گئو موتر کی پارٹیاں کووِڈ کی موثر خوراک کے طور پر سامنے آتی ہیں، کوئی غصہ یا ناراضگی نہیں، کوئی سوال نہیں!

پادری، مذہبی اسکالر، نازی مخالف اور گاندھی کے مداح ڈٹرک بین ہوفر کو اپریل 1945 میں فالوسین برگ کے حراستی کیمپ میں قتل کر دیا گیا۔ ان کے خیالات ہمیں اجتماعی حماقتوں کی تخلیق اور ان کے پھیلاؤ کے پیچھے کے شیطانی مزاج سے آگاہ کرتے ہیں۔ انہوں نے لکھا ’’ایک احمق اکثر ضدی ہوتا ہے اور ہمیں اس حقیقت سے آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں کہ وہ آزاد نہیں ہے۔ وہ جادو کا شکار ہے، نابینا ہو گیا ہے، اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور وہ کسی کی زیادتی کا شکار ہے۔ اس طرح ایک ’بے عقل آلہ‘ میں تبدیل ہو چکا بے وقوف شخص ہر برائی سے لیس، کسی بھی بری حرکت کے ارتکاب کے لیے ہمیشہ تیار رہے گا اور اسے خبر تک نہیں ہوگی کہ اس میں کچھ غلط بھی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں شیطانی غلط استعمال کا بہت بڑا خطرہ منڈلاتا ہے کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو انسانیت کو ہمیشہ کے لیے تباہ کر سکتی ہے۔‘‘


مطلق العنان سیاست ہمیشہ عقلیت اور دانشوری کے طعنوں پر پروان چڑھی ہے (محاورہ بودھک آتنک واد کو یاد کریں)، یہی اس کا کھاد اور پانی ہے۔ اس طرح آپ لوگوں کو جنونی بنا کر خودکش مشنوں پر بھیجتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مطلق العنان بحث سب سے پہلے جذبات پر حاوی ہوتی ہے، منطق ذہانت کو نقصان پہنچاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ذاتی ’تجربات‘ کو متعلقہ شواہد پر حاوی کر دیتی ہے۔

اجتماعی حماقت کبھی بھی قدرتی آفت نہیں ہوتی! یہ مطلق العنان سیاست کی ایک خصوصیت ہے جو سوچنے والے طبقے کو لاشوں میں تبدیل کرنے، ان کی استدلال کو ماند کرنے کی صلاحیت، عملی فہم کی صلاحیت، سوال اور اثر و رسوخ میں ان کی صوابدید، اور ان کی آزادی کو نشانہ بناتی ہے۔ آخر، آپ نفرت اور تشدد کی سیاست کی فصل کو لوگوں کی نیکی اور بدی کی فطری سمجھ کو کمزور کر کے نہیں، تو پھر کیسے کاٹیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */