جو آزادی حاصل ہے، اسے کیسے محفوظ رکھیں... کنہیا کمار

جب کل کے لودی سے کبیر سچ بولنے میں نہیں ڈرے، تب ہم آج کے مودی سے سچ بولنے میں کیوں ڈریں؟ جمہوریت میں بے خوف اور بلند آواز سے ہی آزادی بچے گی بھی اور اس کا دائرہ بھی بڑھے گا۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

کنہیا کمار

ہندوستان کو آزاد ہوئے 75 سال پورے ہو گئے ہیں۔ آج جب پورا ملک آزادی کا ’امرت مہوتسو‘ منا رہا ہے، تب کچھ ایسے ضروری سوال ہیں جو ہر شہری کو خود سے پوچھنا چاہیے۔ مثلاً کیا آزادی کوئی تحفہ ہے کہ ایک بار مل گئی سو مل گئی، اب نہ اسے سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے نہ ہی اس کے دائرے کو بڑھانے کی ضرورت ہے! آزادی نہ بھیک ہے، نہ تحفہ۔ کہتے ہیں کہ کل کا غلام ہی آج کا باغی ہوتا ہے اور باغی کے جدوجہد سے ہی آزادی کی داستان لکھی جاتی ہے۔ جس آزاد ملک میں آزادی کی گونج بند ہو جائے، وہاں آزادی کا باغبان بھی محفوظ نہیں بچتا ہے۔ جس طرح غلامی تھوپی جاتی ہے، ٹھیک اس کے برعکس آزادی حاصل کی جاتی ہے۔

آج ہم جس آزادی کا جشن منا رہے ہیں، وہ ایک طرح کی ذہنی، جسمانی اور نظریاتی غلامی سے آزادی کا جشن ہے۔ یہ جشن ہے اونچ نیچ اور تفریق والے نظام کے برعکس برابری اور انصاف پر مبنی نظام کو تیرا کرنے کے خوبصورت خواب کا۔ یہ جشن ہے ہندوستان میں تنوع کے اتحاد اور اتحاد میں تنوع کا۔ یہ جشن ہے مشترکہ شہادت اور مشترکہ وراثت کا۔ یہ جشن ہے برابری کے اس احساس کا جو پیدائش، ذات، مذہب، زبان، ثقافت، روایت اور شناخت سے اوپر اٹھ کر ہر شہری کو برابری کا حق دیتا ہے۔ یہ جشن ہے اس حق کا جہاں صدر جمہوریہ اور چپراسی کے ووٹ کی حیثیت برابر ہوتی ہے۔ یہ جشن ہے اس خواب کا جس میں ’ہم، بھارت کے لوگ‘ بھارت کو ایک مکمل خود مختار، سماجوادی، سیکولر جمہوری ملک بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ جشن ہے ریاستی اقتدار اور شخص کے درمیان ہوئے اس معاہدے کا جہاں اقتدار ’عوام کا، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعہ‘ طے ہوگا۔ یہ جشن ہے ملک کا ملک کے لوگوں سے بننے کا، یہ جشن ہے ہمارے آبا و اجداد کی جدوجہد اور قربانی کا۔


یہ جشن ہم اس لیے مناتے ہیں تاکہ ہمیں یاد رہے کہ آزاد ملک میں آزادی سے زندگی جینے کے ہمارے حقوق کے لیے لوگوں نے اپنی زندگی قربان کی ہے۔ جب ہم جشن منا رہے ہیں، تب یہ سوال لازمی ہے کہ جو آزادی ہمیں حاسل ہے، اس آزادی کو ہم آنے والی نسل کے لیے کیسے محفوظ رکھیں اور اس کے دائرے کو کیسے بڑھائیں تاکہ سماج کے آخری شخص تک اس کی رسائی یقینی کی جا سکے۔ اس بات کا دھیان رکھنا بہت ضروری ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک شخص یا گروپ کی آزادی کسی دوسرے شخص اور گروپ کے لیے غلامی کا سبب بن جائے۔ اگر ان سوالوں پر بار بار غور نہ کیا جائے تو اس بات کا خطرہ ضرور ہے کہ مٹھی بھر طاقتور لوگ اپنے مفاد میں بڑی چالاکی سے آزادی کا اصل معنی ہی بدل دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آزادی کی دلیل دیتے ہوئے ہی یہ نہ ثابت کیا جانے لگے کہ جیسے کسی کو جینے کی آزادی ہے، ویسے ہی کسی کو مارنے کی بھی آزادی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جمہوریت کا مزہ لیتے ہوئے جمہوریت کا ہی گلا گھونٹا جانے لگے۔ آزادی کی سمجھداری اس بات پر منحصر کرتی ہے کہ ہمارا سنگیت کسی اور کے لیے شور نہ بنے۔ آزادی کا حق اور احساس لوگوں کے یکسر تعاون اور مشترکہ وجود پر مرکوز ہوتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ کسی جمہوری نظام میں ہی سب کی آزادی اور آزادی کے اعلیٰ اقدار کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان اور ہندوستانی سماج میں جمہوریت کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ ہندوستان کی ترایخ ہر دور میں کسی بھی طرح کی غلامی تھوپے جانے اور اس سے نجات حاصل کرنے کے عمل کو اپنے وجود میں سمائے ہوئے ہے۔ دلیل، نظریہ، فلسفہ، ادب اور سائنس کی بات کریں یا کسی ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح سڑ رہے نظام کے خلاف ہمت اور جدوجہد کی، قائم اقتدار کو سچ سے چیلنج دینے کی کہانیوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔ جہاں تک موجودہ وقت میں آزادی، جمہوریت اور شہری حقوق کا سوال ہے جس میں پرائیویسی کا حق بھی شامل ہے۔ 15 اگست 1947 سے لے کر اب تک ہمارے ملک نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ شمالی-صنعتی سماج میں صنعتی انقلاب کے دور میں تیار آزادی کی سمجھ اور جمہوریت کے دائرے کو توسیع دینے کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ وقت کے داخلی اختلافات کا ٹھیک سے تال میل بٹھایا جا سکے۔ آج جس طریقے سے موضوع کے بغیر نصف سچ یا مکمل جھوٹ کو ڈیجیٹل ذرائع کا سہارا لے کر پھیلایا جا رہا ہے، یہ جدید ہندوستان کے اتحاد، سالمیت، آزادی اور جمہوریت کے لیے سنگین چیلنج بن چکا ہے۔


جس طرح سے سائنسی ٹول کا استعمال اندھی تقلید، نفرت اور جھوٹ کو پھیلانے میں کیا جا رہا ہے، جس طرح سے مذہب، عقیدہ اور جذبہ کے نام پر لوگوں کے بنیادی حقوق پر حملے ہو رہے ہیں، یہ انتہائی خطرناک ہے۔ جس جمہوریت اور آزادی کے حقوق سے جو لوگ گدی پر بیٹھے ہیں، وہی اپنے سے الگ نظریہ رکھنے والوں کا استحصال کر رہے ہیں، اپنے مخالفین کو جیلوں میں ٹھونس رہے ہیں، ملک کے تحفظ کے لیے بنے اداروں اور ایجنسیوں کا بیجا استعمال اپنی کرسی کی حفاظت کے لیے اور عام لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا نہ کر پانے کی ناکامی کو چھپانے کے لیے کر رہے ہیں۔ عوام کے ٹیکس سے پولیس کی لاٹھی خرید کر ’جَن تنتر‘ کو ’لاٹھی تنتر‘ بنانے کی اس سازش کو روکنا بہت ضروری ہے، ورنہ جتنی آزادی اور جمہوریت اس ملک کے عام لوگوں کے حصے آئی ہے، ان کو بھی بچانا مشکلوں سے بھرا ہوگا۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آزادی محض دکھاوے اور فیشن کی چیز نہیں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ فیشن کے دور میں آزادی کی گارنٹی ہی نہ چلی جائے۔ جیسے آبا و اجداد کے بنائے گھر کو بھی صاف صفائی اور وقت وقت پر مرمت کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی جمہوریت اور آزادی کو بھی لگاتار بچانا اور بڑھانا ہوتا ہے۔ امید ہے کہ خطرہ چڑھا ہے، تو اترے گا بھی، کیونکہ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جب کل کے لودی سے کبیر سچ بولنے میں نہیں ڈرے، تب ہم آج کے مودی سے سچ بولنے میں کیوں ڈریں؟ جمہوریت میں بے خوف اور بلند آواز سے ہی آزادی بچے گی بھی اور اس کا دائرہ بھی بڑھے گا۔ آزاد ملک میں آزادی کی سبھی ملک کے باشندوں کو مبارکباد!

(مضمون نگار کانگریس لیڈر اور جے این یو اسٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر ہیں۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */