قدرت سے کھلواڑ کا نتیجہ ہیں کیرالہ میں قیامت جیسے آفات... مرنال پانڈے

کیرالہ میں سیلاب نہ آیا ہوتا اور چار دھام یاترا کا راستہ ملبے میں نہ بدل گیا ہوتا تو بھی ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی لالچ کے دوہرے حملہ سے مچی تباہی کی بیسیوں داستانیں ہر شہر اور گاؤں مل جاتیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مرنال پانڈے

اگست کا مہینہ ملک کے کئی حصوں میں تباہی لے کر آیا۔ کیرالہ اور ہمالیائی علاقے اس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ کیرالہ میں طغیانی کرتے سیلاب کے نظارے ہم نے دیکھے۔ اسی درمیان خبر آئی کہ شملہ میں کئی عمارتیں ٹوٹ گئیں اور نینی تال میں مال روڈ جھیل میں سما گئی۔ بسوں کا کھڈوں میں گرنا اور لبریز نالوں میں بہہ جانا تو تقریباً معمول کی بات ہو گئی ہے۔

’مارکنڈے پران‘ کہتا ہے کہ زمین پر اسی وقت تک انسان کی نسل اور ان کی آنے والی نسلیں بچی رہیں گی جب تک وہاں کے درخت، پہاڑ، جنگل اور پودے محفوظ ہیں۔ لیکن بہت زیادہ اور جلد سے جلد کمانے کی جو پیاس گزشتہ چار سالوں میں لگاتار ملک میں جگائی گئی ہے اس سے متاثر ہوئے لوگوں کے لیے ملک کے تمام خوبصورت ساحلی اور پہاڑی علاقے سیاحوں کو دنیا بھر سے لا کر سنہرے انڈے دینے والی مرغیوں میں بدلتے چلے گئے۔ مرکزی حکومت بھی لگاتار ’اتیتھی دیوو بھو‘، ’پدھارو مھارے دیس‘ یا ’دیو بھومی آئیے‘ جیسے نعرے اچھال کر اس عمل کو فروغ دے رہی ہے۔ پوری دنیا کے ماحولیات پر منڈلا رہے سنگین خطروں سے انجان یا لاپروا سیاحی جتھوں کے لیے دور دراز کیرالہ یا ہمالیائی ریاست، ہرے بھرے چراگاہ اور جنگل صرف رومانی جگہ بن گئے ہیں، جہاں جیب میں پیسہ ہے تو موج مستی کے لیے آپ جب جی چاہے جا سکتے ہیں۔

قدرت کو اب انصاف چاہیے۔ وادیٔ کیدار کی تباہی، ممبئی مہانگری کا ڈوبنے کی حد تک سیلاب سےجدوجہد کرنا، بنگلورو کی جھیل میں خطرناک کیمیکل سے آگ لگ جانا اور اب برسات کے موسم میں شملہ، نینی تال سے کوچی تک تباہناک سیلاب اور زمین کھسنے کے نظارے سامنے ہیں۔

کیرالہ کے سیلاب سے کتنا نقصان ہوا اس کا ابھی اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ مانسون کی پہلی دستک سننے والی اس ریاست میں اِدُکّی ضلع ملک کے سب سے زیادہ بارش والے 10 علاقوں میں شمار ہے۔ کثرت آبادی والا کیرالہ تنہا نہیں ہے۔ سائنسداں کہہ رہے ہیں کہ 1980 میں ہی قومی سیلاب کمیشن نے متنبہ کیا تھا کہ اتر پردیش، بہار اور پنجاب جیسی زیادہ آبادی والی اور زراعت والی ریاستوں میں آگے بھی زبردست سیلاب آئے تو لاکھوں زندگیوں کے ساتھ ہی قریب 4 کروڑ ہیکٹیر زمین بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

تیاری کا حال یہ ہے کہ مارچ 2018 تک 11ویں اور 12ویں منصوبوں کے تحت مرکز نے جو 13238 کروڑ روپیہ سیلاب سے نمٹنے کے لیے الاٹ کیا تھا، تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس میں سے اب تک صرف 4873 کروڑ روپیہ ہی ریلیز کیا گیا ہے۔ کیرالہ کو اب تک اس کے حصے کا 49 فیصد ہی ملا ہے اور اتراکھنڈ کو 24 فیصد۔ لہٰذا یہ دن آنا ہی تھا جب ہمارے پہاڑ، جنگل اور ان کے سیاحتی ادارے لڑکھڑا کر گرنے لگیں۔ گلوبل گرمی سے وہ وقت آ گیا ہےجب کیلیفورنیا سے جاپان تک کہیں سیلاب، کہیں خشک سالی، کہیں طوفان اور کہیں زلزلہ اور سنامی تباہی پھیلا رہی ہیں۔

قومی جی ڈی پی شرح ترقی میں اضافہ کو ہی پاور کا انڈیکس سمجھنے والی حکومتیں قدرت کی ناراضگی کے سامنے بے بس ہیں۔ قانون اور موسم کے سائنسدانوں کے انتباہ کے بعد بھی منّار وادی، گوا، اتراکھنڈ، ہماچل، ہر جگہ زمین کی ممنوعہ خرید فروخت برسرعام ہو رہی ہے اور اس پر تعمیرات جاری ہیں۔ خود حکومت بھی جنگل اور پنچایتی زمین کو اپنی نگرانی میں لے کر بلڈر، بابو اور لیڈر کی تکڑی سے کہیں سیاحت میں بہتری تو کہیں مال کی آمد و رفت میں آسانی پیدا کرنے کے نام پر ہر زولوجیکل پارک اور جنگلوں میں سیندھ لگا کر جغرافیائی نظامِ ماحولیات کے قوانین توڑ رہی ہے۔ سیاحتی مقامات یا کارخانوں سے سرکاری شرح ترقی بھلے ہی اونچی ہو لیکن اس سے جنگل، زمین، پہاڑ لگاتار کھوکھلے ہو رہے ہیں اور کروڑوں لوگ در بدر ہو رہے ہیں۔

ہندوستان کی ندیاں زمانۂ قدیم سے انسان کی نسل کے لیے کارآمد رہی ہیں۔ اسی لیے ندیوں کو ماں کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ’نمامی گنگے‘ جیسا منصوبہ بنانے اور ندی کی آرتی پر جذباتی جملے بازی کرنے کے باوجود ندی صفائی کا آبی تحفظ پروگرام ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ایسا اس لیے کیونکہ مناسب عمل ہمارے لیے دور کی بات ہے۔ اور ندی سے جڑے پروجیکٹ اس ملک کا کمبھ بن چکے ہیں جن میں مذہبی میلوں کا سارا پاکھنڈ اور اجڈپن شامل ہوتا ہے۔ ہر پروجیکٹ کی پلیہ پر سرکاری پنڈے ہیں جن کو ’دَکشِنا‘ دینا لازمی ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ ماحولیات کو سمجھنے والے سائنسداں اور معلم کہاں ہیں؟ 70-1960 کی دہائی تک تو ہماری اعلیٰ تعلیم اور تحقیقی ادارے جب تب عالمی سطح کے سائنسداں اور ماہرین پیدا کر ہی رہے تھے۔ نہرو-اندرا کو ہم جتنا کوسیں، ان کا ہندوستان، تجسّس اور علم کے نظریہ سے ایک نیا ملک بن چلا تھا۔ چین-پاکستان سے جنگوں اور سالانہ سیلاب و خشک سالی کے درمیان بھی وہ پشتوں، صنعتوں مصنوعات کی بڑی عوامی مشنریوں، آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن جیسے نشریاتی مراکز اور اعلیٰ تعلیم کے تمام اداروں کی تشکیل کر سکا۔ آج وہ سبھی ادارے بغیر پنکھ کے برساتی کیڑوں سے نظر آتے ہیں جہاں نئے علم اور تکنیکی پہلوؤں کو ہٹا کر حکومت کے ذریعہ راتوں رات تقرر کیے گئے محکماتی سربراہ آگے بڑھنے والے مدلل نظریات اور ناپسندیدہ باتوں کو ہٹا کر ایک من چاہا متھ پر مبنی تاریخ کو ثابت کرنے کے لیے پروگرام کرا رہے ہیں۔

اگر کیرالہ میں سیلاب نہ آیا ہوتا اور ہمالیائی علاقے کے چار دھام یاترا کا راستہ اور نینی تال کا مال روڈ آبی روانی سے ملبے میں نہ بدل گیا ہوتا تو بھی ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی لالچ کے دوہرے حملہ سے مچی تباہی کی بیسیوں داستانیں ہر شہر و گاؤں میں مل جاتیں۔ 19ویں صدی میں انگریز صاحبان نے جب اپنی خوشی کے لیے ہی سہی ہمالیائی علاقوں اور سمندر کے ساحلی علاقوں پر نگروں اور جنگلوں کے درمیان سرکاری شکارگاہیں اور آرام گاہ بنوائے تو کچھ حادثوں کے بعد ان کے سول انجینئر جلد ہی سمجھ گئے کہ ان علاقوں میں ماحولیات کی حالت نازک ہے۔ لہٰذا مشکل علاقوں کو کافی حد تک مشکل ہی رکھا گیا تاکہ آمد و رفت محدود رہے۔ سڑکیں جب بن گئیں تو بھی ٹھوک پیٹ کر درست پائے گئے علاقوں میں ہی اور ان پر گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے سخت قوانین بنائے گئے۔ پیدل چلنے کو توجہ دی گئی۔ یہ بھی خیال رکھا گیا کہ پانی اور غلاظتوں کے نکلنے کا انتظام ہو اور نالی-نالوں کی صاف صفائی باضابطہ طور پر ہوتی رہے۔

سیاحت اور مذہبی یاتراؤں کو اتنا فروغ دینے کے ساتھ ہی بدقسمتی سے ان سبھی قوانین کو گزشتہ برسوں میں طاق پر رکھ دیا گیا، اور اسی لیے ہر برسات میں تباہی جو پہلے اتفاقاً ہوتی تھی اب معمول اور لازمی بنتی جا رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔