امام حسین ساری انسانیت کا سرمایہ ہیں!... نواب علی اختر
کربلا؛عظیم مقصد کے لئے عظیم قربانی کا نام ہے جس کے اہداف و مقاصد، افکار و خیالات، اخلاص و للہیت، حقانیت و صداقت اور روحانیت ومعنویت نے سب کو غرق حیرت کر ر کھا ہے۔

محرم، علامتی تصویر
دین اسلام کی سربلندی اور بقا کے لئے نواسہ رسول خدا حضرت امام حسین نے ایسی پاک و پاکیزہ تحریک چلائی جس کی مثال دنیا میں نظر نہیں آتی ہے۔ کائنات رنگ و بو میں واقعات تو بہت رونما ہوئے لیکن مختصر مدت کے بعد طاق نسیاں کے حوالے ہو گئے۔ نہ کوئی سالانہ یاد منانے والا اور نہ ہی کوئی تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کرنے والا۔ یہ امتیاز صرف کربلا کو حاصل ہے کہ دنیا کا کوئی ایسا خطہ اور گوشہ نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا دن کہ جب فرزند رسول اور ان کی عظیم قربانی کو یاد نہ کیا جاتا ہو۔ واقعہ کربلا تاریخ انسانیت کا وہ واحد واقعہ ہے جس کے امتیاز و برتری کی برابری دنیا کا کوئی بھی واقعہ نہیں کر سکتا۔
کربلا؛ عظیم مقصد کے لئے عظیم قربانی کا نام ہے جس کے اہداف و مقاصد، افکار و خیالات، اخلاص و للہیت، حقانیت و صداقت اور روحانیت و معنویت نے سب کو غرق حیرت کر ر کھا ہے۔ واقعہ کربلا حق و باطل کے درمیان امتیاز کی ایسی علامت بن گیا ہے جس کی مثا ل ہر معرکہ حق و باطل کے لئے رہتی دنیا تک دی جائے گی۔انقلاب حسینی نے ایسا درس اور الہی کردار پیش کیا جو تا قیامت تمام انسانیت بالخصوص پیروان اہل بیت کے لئے نمونہ عمل بنا رہے گا۔امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے یہ واضح کر دیا کہ ایک فاسق و فاجر شخص مسلمانوں کا حکمران نہیں ہو سکتا۔
ویسے تو ہر دور میں حق کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن امام حسین ایسے زمانے میں زندگی بسر کر رہے تھے جب کو ئی ایسا حربہ اور چال نہیں تھی جو حق کو باطل سے مخلوط اور پردہ پوشی کرنے میں نہ چلی گئی ہو۔ ایسے موقع پر شعور اور بصیرت کی اشد ضرورت ہوتی ہے جس سے انسان نہ صرف حق شناس بنتا ہے بلکہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی باطل کی وادیوں سے نکال کرحق کی نورانی فضاؤں میں لاتا ہے۔ اس زمانے میں حضرت امام حسین جیسی عظیم المرتبت شخصیت موجود تھی لیکن بے شعور اور بے بصیرت افراد نے بغض و حسد، جاہ و مقام اور مال و دولت کی لالچ میں آکر یزید جیسے بدکار حاکم کے ہاتھوں پر بیعت کر کے آتش جہنم کا نوالہ بن گئے۔
یزید کی بیعت سے امام حسین کا انکار ذاتی اقتدار کی خواہش نہیں تھا بلکہ اسلامی اقدار اور اس کے نظامِ حکمرانی کی حفاظت کا مسئلہ تھا۔ میرے آقا حسین علیہ السلام نے فرمایا: اگر یزید جیسا شخص امت کا حاکم ہو جائے تو اسلام پر سلامتی ہو۔ یہ قول حق اور باطل کے فرق کو واضح کرتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر امام حسینؑ قیام نہ کرتے اور ایسے لوگوں کی اطاعت قبول کر لیتے جن کا پیشوا یزید تھا تو پھر یزید اوراس کے ساتھی ہی دین اسلام کے ترجمان ہوتے۔ امام حسینؑ نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے اعلان کیا کہ پیغمبر اسلام کا خاندان یزید کے اسلام کو قبول نہیں کرتا اور یزید کو اسلامی حکومت کے لئے اہل نہیں سمجھتا۔ سوچیے اگر امام حسینؑ بھی یزید کی بیعت کر لیتے تو پھر دین وہی کچھ سمجھا جاتا جو یزید اور اس کے حواری پیش کرتے۔
امام حسین نے کربلا میں حق و باطل کی شناخت کے سارے راستے اپنے گراں قدر خطبات، وعظ و نصیحت اور عملی سیرت کے ذریعہ عوام الناس پر واضح کر دیئے تھے۔ یزید اور اس کے حامیوں کا نام لے کر ان کی مذموم کرتوتوں سے پردہ ہٹا چکے تھے۔ لیکن امام عالی مقام کی جانفشانیوں کے باوجود اہل باطل کے بنے ہوئے جال میں اکثریت پھنس گئی جس کا نقصان اسلام کو آج تک اٹھانا پڑ رہا ہے۔ امام حسین کا لشکر تعداد میں قلیل تھا، لیکن وہ ایمان، اخلاق اور حق پرستی کی بہترین مثال تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنا مقصد واضح کیا کہ وہ فساد پھیلانے یا ظلم کرنے کے لیے نہیں نکلے، بلکہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح چاہتے ہیں اور نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا چاہتے ہیں۔
اگر کربلا میں حق کو مد نظر رکھا گیا ہوتا تو واقعہ کربلا پیش نہ آتا۔ دین اسلام کے احکام و قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی تھیں۔ بدعتوں کا دور دورہ تھا۔ گناہان کبیرہ کو کھلم کھلا انجام دیا جا رہا تھا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تو جیسے کوئی جانتا ہی نہ ہو۔ ایسے بدترین حالات میں امام حسین نے یزید اور اہل باطل کے خلاف قیام کر کے نہ صرف اسلام کی پاسبانی کی بلکہ سسکتی ہوئی انسانیت کو ظلم و بربریت کے چنگل سے آزاد کرایا ہے۔ اپنے پاک و پاکیزہ خون سے چمنستان اسلام کی ایسی آبیاری کی جہاں اب خزاں کا گزر بسر نہیں ہو سکتا۔
فرزند رسول حضرت امام حسین نے کربلا میں عزت و وقار کا وہ مفہوم پیش کیا جس کی مثال تا قیامت دی جائے گی۔ کربلا میں دراصل عزت کا مقابلہ ذلت سے تھا، حق کا سامنا باطل سے تھا، مظلوم کی جنگ ظالم سے تھی،انصاف پسندوں کا معرکہ بے انصافوں سے تھا۔ ایک سچا مومن جان تو نچھاور کر سکتا ہے لیکن عزت پر آنچ آنے نہیں دیتا۔ امام حسین نے کربلا میں اہل باطل کی شر انگیزی اور فتنہ پروری کو برملا کیا اور ان کے چہرے سے منافقت اور فسق و فجور کی نقاب ہٹا کر نہ صرف دین کو حیات نو بخشی بلکہ انسانیت کو وہ عزت وو قار عطا کیا جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔
امام عالی مقام کا نعرہ آج بھی مردہ ضمیروں کو خواب غفلت سے بیدار کر رہا ہے کہ اٹھو اور کربلا کو اپنا نمونہ عمل بناوتاکہ دنیا کی بڑی سے بڑی باطل طاقتوں سے لرزہ براندام نہ ہو بلکہ آنکھ سے آنکھ ملا کر عزت کی زندگی گزارو۔امام حسین کی قربانی نے ظاہر کیا کہ اسلام عدل، انصاف، مساوات اور حق پرستی کا دین ہے نہ کہ جبر، ظلم اور شہنشاہیت کا۔ کربلا محض دو افراد یا خاندانوں کی جنگ نہیں تھی، بلکہ یہ حق و باطل، عدل و ظلم، اور نبوت کے نظامِ خلافت اور شیطانی ملوکیت کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ تھا۔ حضرت امام حسین اور ان کے بہتر جانثار ساتھیوں نے ایسے صبر، شجاعت، وفا اور قربانی کی تاریخ رقم کی، جو دنیا کی کسی جنگ میں نہ ملے گی۔ان حالات میں 10 محرم الحرام کا سورج ایک ایسی قیامت بن کر طلوع ہوا، جس نے آسمان کو بھی غمگین کر دیا۔
مختصراً یہ کہ حق طاقت ہے یہی حسینیت ہے اور طاقت حق ہے اس فلسفے کو یزیدیت کہتے ہیں، کون حق پر ہے اور کون ظلم و جبر پر مبنی نظام طاقت پر ہے، یہ پرکھنے کے لیے تاریخ کربلا کو سامنے رکھ لیا جائے تو کھرے اور کھوٹے کا فرق سامنے آجائے گا۔ محرم الحرام میں امام حسین کی یاد مناتے ہوئے ہمیں ان کے مقاصد کو پیش نظر رکھنا چاہیے نیز اپنی زندگی میں بھی حسینی روش اختیار کرنا چاہیے۔ امام حسین کا نام لینا، ان کی محبت کا دم بھرنا اوران کی یاد میں آنسو بہانا ہی کافی نہیں۔ علاوہ ازیں ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ امام حسین پر کسی گروہ، کسی فرقے یا کسی مذہب کی اجارہ داری نہیں، حسین ساری انسانیت کا سرمایہ ہیں۔ آپ دنیا کے تمام حریت پسندوں، حق پرستوں اوراقتدار انسانی کے پاسداروں کے امام ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔