’اپنے دشمن سے لڑنے کے لیے اسے جانو‘... کمار کیتکر

نیا سال شروع ہو چکا ہے، لیکن گزشتہ سالوں میں ملک کو ایک دھاگے میں پروئے رکھنے والا ’آئیڈیا آف انڈیا‘ معدوم ہو گیا، اس آئیڈیا کے تئیں سینئر صحافی کمار کیتکر کیا سوچتے ہیں ذیل میں مطالعہ کیجیے۔

<div class="paragraphs"><p>جنتر منتر پر انڈیا اتحاد کا مرکز کے خلاف مظاہرہ، تصویر ویپن/قومی آواز</p></div>

جنتر منتر پر انڈیا اتحاد کا مرکز کے خلاف مظاہرہ، تصویر ویپن/قومی آواز

user

کمار کیتکر

اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد ’انڈیا‘ ہندوستانی سیاست کی اصولی تعمیر ہے۔ اسی طرح ’ہندوتوا‘ ایک اصولی تعمیر ہے، سوائے اس کے کہ اس نے ہندوستان میں ایک طبقہ کے تصور کو جکڑ لیا ہے۔ حالانکہ بی جے پی کی جڑیں آر ایس ایس اور کچھ حد تک ہندو مہاسبھا میں ہے، اس کا آج کے دن کا اوتار ہندوتوا کی شروعاتی تعریفوں یا روایات سے جنم نہیں لے پایا ہے۔ وہ شروعاتی نظریات تقریباً 70 سال تک لوگوں کے تصور کو متاثر نہیں کر پائے۔

ہندو مہاسبھا 1915 میں بنی، آر ایس ایس 1925 میں۔ آٹھ سال قبل ہندو مہاسبھا کا 100واں یومِ تاسیس بغیر کسی تشہیر کے گزر گیا اور کسی کا دھیان اس طرف نہیں گیا۔ لیکن آپ نے آنے والے آر ایس ایس کے 100ویں یومِ تاسیس کی تیاریوں کو نظر انداز نہیں کیا ہوگا، مانو یہ ہندوستان کے لیے تہذیب پر مشتمل تاریخی واقعہ ہو۔


کارپوریٹ فیشن میں آر ایس ایس نے مہاسبھا کی ذمہ داری لے لی ہے اور اس نے بی جے پی کو اس کے کاموں کو سونپ دیا ہے جو آر ایس ایس کی ساکھ ہے۔ تقریباً 50 سال تک آر ایس ایس اور مہاسبھا ایک دوسرے کے تئیں مخالف بھی رہے، جَن سنگھ اور مہاسبھا نے ایک دوسرے کے خلاف انتخاب تک لڑے۔

6 دسمبر 1992 تک جب شورش پسند ہندوتوا کی بھیڑ بابری مسجد پر چڑھ گئے اور اس نے اسے منہدم کر دیا، آپ دیکھیں گے کہ یہ پورا ہندوتوا گروپ عوام کے تصور کو بھڑکانے میں ناکام رہا تھا۔ لیکن بابری مسجد کو شہید کیے جانے کے چھ سال میں بی جے پی 24 پارٹیوں کو ایک ساتھ لانے اور اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں اقتدار ہتھیانے میں کامیاب ہو گئی۔ اپنے سفر کے اس نکتے پر آر ایس ایس کا عالمی نظریہ پارٹی کے نظریاتی قلب تک بنی ہوئی تھی۔ 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ بدلنے لگی۔ آر ایس ایس اور جَن سنگھ تحریک کی طرح تھے جو روایت پسند اقدار پر مبنی نظام اور رائٹ وِنگ معیشتوں کی نمائندگی کرتے تھے لیکن مودی کی بی جے پی نازی جرمنی کے طرز میں پاور مشین کی طرح زیادہ ہو گئی ہے۔


’انڈیا‘ کو سمجھنا ہوگا کہ یہ صرف رائٹ وِنگ سیاسی پارٹی سے نہیں بلکہ ایسے نئے عالمی لبرل چالباز سے لڑ رہا ہے جو مافیا کی طرح کام اور کارروائی کرتا ہے جسے بین الاقوامی کارپوریٹ فوجی-انڈسٹریل اتحاد کی حمایت حاصل ہے۔ یہ مشکل معلوم پڑ سکتا ہے، لیکن ’انڈیا‘ اسے کر سکتا ہے۔ انتخابی معنوں میں بی جے پی کے پاس اب بھی 37-31 فیصد ووٹ ہی ہیں اور وہ بھی ہندی بیلٹ میں مرکوز ہے۔ دوسرے لفظوں میں 69-63 فیصد ووٹرس ان کی سیاست کے حامی نہیں۔ بی جے پی شمالی ہندی زبان والی ریاستوں کی علاقائی پارٹی کی طرح ہے۔ اصل معنوں میں وہ قومی پارٹی نہیں ہے۔ دوسری طرف ’انڈیا‘ ایسا محاذ ہے جس میں شامل پارٹیاں ایک دوسرے سے مختلف سوچ رکھتی ہیں لیکن پھر بھی ایک جگہ جمع ہونے کی قوت رکھتی ہیں۔ اگر ’انڈیا‘ اتحاد اس ملکی کردار کے تحفظ کے لیے قابل اعتماد راستہ بناتا ہے، تو امید بنی ہوئی ہے۔

(کمار کیتکر سینئر صحافی اور راجیہ سبھا رکن ہیں۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔