میری تمنا ہے کہ سارے کے سارے چلڈرن لٹریچر فیسٹیول خوشحال ہوں... (یشسوی وَچھانی کا مضمون)

آج بچوں کی تمام کتابیں ہندوستانی مصنفین کے ذریعہ لکھی اور چھوٹے بڑے ہندوستانی پبلشرز کے ذریعہ شائع کی جا رہی ہیں، یہ کتابیں-کہانیاں ہمارے تاریخی اور ثقافتی منظرنامہ ڈوبی اور ہمارے قریب ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر&nbsp;GettyImages</p></div>

تصویرGettyImages

user

قومی آوازبیورو

یہ ایک نوخیز لڑکی کی کہانی ہے۔ وہ لڑکی جو صبح و شام کے ناشتے، دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے میں بس کتابیں لیتی (پڑھتی) تھی۔ لیکن اس نے جو بھی کتابیں پڑھیں، وہاں اہم طور سے امریکہ یا انگلینڈ کے گوروں کی دنیا ہی ہوتی۔ جو گھاس کے میدان میں دوڑتے، جنگل میں پکنک مناتے اور چائے کے ساتھ اسکول کھانے کے مزے لیتے۔ مٹھری، ڈوسا یا چٹی کا کہیں نام و نشان نہیں ہوتا۔ ساحل پر گھومنا یا سی ایس ٹی بلڈنگ سے باہر نکلتے لوگوں کا ہجوم بھی نہیں۔ ان مقامات، ان آوازوں یا لطف کا کہیں کوئی تذکرہ ہی نہیں جو واقعی ان کی دنیا کا حصہ تھے۔ جب لکھنے کی کوشش کی تو اس نوخیز لڑکی نے بھی انگلینڈ کے ایک چھوٹے سے شہر والے جان اور جین کے بارے میں لکھا جو کسی جنگل میں بیٹھ کر ٹونا سینڈوچ کھاتے ہوئے ایک بیمار کتے کی بیماری کا معمہ حل کر رہے تھے۔

وہ لڑکی میں تھی۔

میں 90 کی دہائی میں میلوری ٹاورس، سیکریٹ سیون، ہارڈی بوائز، نینسی ڈرا، سویٹ ویلی ہائی او رہیری پاٹر کو کھاتے-جیتے بڑی ہوئی۔ حالانکہ یہ انتہائی ’مقوی اور بہترین‘ غذا تھی لیکن میں یہ نہیں کہوں گی کہ یہ غذا متوازن بھی تھی۔ اس نے پڑھنے کے تئیں میری محبت کو بڑھایا ضرور، لیکن اس سے مجھے کوئی نظریہ یا وہ راستہ نہیں ملا جو مجھے میری زندگی سے جوڑتا۔ اس نے مجھے میری زندگی میں جھانکنے کا نظریہ نہیں دیا۔


تب سے اب تک دنیا کافی بدل گئی ہے اور بچوں کی تمام کتابیں ہندوستانی مصنفین کے ذریعہ لکھی اور چھوٹے بڑے ہندوستانی پبلشرز کے ذریعہ شائع کی جا رہی ہیں۔ ادب کی اس دنیا سے نکلی یہ کتابیں-کہانیاں ہمارے تاریخی اور ثقافتی منظرنامہ میں ڈوبی ہوئی ہیں اور ہمارے قریب ہیں۔ صرف 2022 کی بات کریں تو بھی ’سانگس آف فریڈم‘ سیریز کے تحت لبنیٰ بندوق والا کی ’چوپاٹی ککنگ کلب‘، دیویکا رگاچاری کی ’دی ٹرین ٹو تنجور‘، لیسلی ڈی بسواس کی ’اے کانسپریسی اِن کلکتہ‘ اور ادیتی کرشن کمار کی ’دیٹ ایئر ایٹ منی کوئل‘ اہم کتابیں ہیں۔ ناول والے لطف کے ساتھ تحریک آزادی کے پس منظر میں بسے اس سیٹ کے علاوہ ملک میں اس دور کے بچوں کی زندگی کا پتہ لگاتی لونیا کارتک کی سیریز ’دی ڈریمرس‘ جیسی کچھ غیر افسانوی کتابیں بھی شمار کی جا سکتی ہیں۔ سبق اور تصویروں کے ذریعہ سے یہاں سلیم علیم، ستیہ جیت رے، جانکی امال اور تیجن بائی جیسے ہندوستانیوں کی زندگی میں آئے جیسے نشیب و فراز یہاں نشان زد ہوئے ہیں، وہ اہمیت کی حامل ہیں۔

اس تحفے کے علاوہ بھی تعمیری تحریر کی استاذ کے طور پر میں نے اپنے کام میں ایک چیز دیکھی، کہ طلبا اب بھی اپنے ہیرو کے طور پر جان، ایلس، اولیور یا جین کا نام لیتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہو، دور دراز دنیا میں ہی اپنی کہانی کا سنسار رچتے-بُنتے ہیں۔ میرے کلاس میں ایک طالب علم نے ایسے تمام ناموں کی ایک فہرست بنائی جو اس کے مطابق ہیرو کی شکل میں بہتر نظر آتے تھے اور 20 کی اس فہرست میں ایک بھی نام ہندوستانی نہیں تھا۔ فطری طور سے اس کی کہانی، اس کی سوچ کے تانے بانے کی زمین ہندوستانی نہیں تھی۔


نوجوان مصنف کے طور پر جو خاصہ پڑھنے والے بھی ہیں، ہم عموماً ان کہانیوں کی نقل کرتے اور اپنے الفاظ میں ڈھالتے ہیں جو ہمیں اپنے زیادہ قریب لگتی ہیں۔ میرے طلبا مجھے اس نتیجہ پر لے گئے کہ ان کی اپنی دنیا اور ان کا ثقافتی پس منظر ایک کھانچے میں فٹ نہیں بیٹھتے۔ حالانکہ وہ اسی میں رہتے ہیں، لیکن اس کے بارے میں پڑھنے کو انھیں زیادہ کچھ نہیں ملتا جو انھیں ان کے وسیع تجرباتی ادبی منظرنامہ سے متعارف کرائے۔ انھیں اپنے ارد گرد ہونے والی سرگرمیوں کی نہ تو جانکاری ہے اور نہ ہی وہ شاید اس کے قریب جانا چاہتے ہیں۔

اگر ہم اسکول کے نصاب پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی بیشتر ادب مغرب سے متعلق ہے، اور یہ تب سے ہے جب میں اسکول میں تھی۔ مقبولیت کے پیمانے پر آج بھی ہیری پاٹر اور پرسی جیکسن جیسے لوگوں کی بالادستی ہے۔ اس ماحول میں نوجوان قاری ان کہانیوں سے کیسے دوستی کرے جو خود اس کی زندگی کے ارد گرد ہیں اور اس کی بنیاد کا حصہ رہی ہیں، یا انھیں بنانے والے دماغ سے میل کھاتی ہیں؟


یکبارگی تو میرے پاس اس کا تیار جواب ہے- ادب اطفال کے جشن یا میلے میں! گزشتہ کچھ سالوں میں بکارو، پیک اے بک، ککڈو کو، نیو لٹریچر فیسٹیول، جونیئر کلام (جنوری کے آخری ہفتہ میں منعقد)، چنڈی گڑھ چلڈرن لٹریچر فیسٹیول اور کالا گھوڑا کلا اُتسو کا ادب اطفال والا حصہ (دونوں فروری میں ہونے ہیں)، جیسے انعقادات نے بچوں کے لیے لکھے جا رہے ایسے ادب کو فروغ دینے کا کام کیا ہے جو بنیادی طور سے ہندوستانی بچوں اور ذہن کے قریب ہیں۔ جونیئر کلام اور کالا گھوڑا جیسے فیسٹیول بنیادی طور سے بڑے شہروں (کولکاتا اور ممبئی) میں رچے بسے ہیں، لیکن بکارو اور ککڈوکو ان میلوں یا تقاریب کا حصہ ہیں جو الگ الگ مقامات پر گھوم کر منعقد ہوتے ہیں۔ تہوار کے موسم میں یہ بڑودہ، جئے پور اور بھوپال جیسے شہروں میں منعقد ہوتے رہتے ہیں۔

ان میلوں یا جشن کے مواقع میں عام طور پر مختلف عمر والے گروپ کے مصنفین کے ذریعہ ورکشاپ اور اجلاس کا انعقاد ہوتا ہے جو انھیں دلچسپ اور طویل مدتی تجربات میں تبدیل کرتے ہیں۔ مصنفین کے اجلاس عام طور پر کسی کتاب کے ارد گرد ہوتے ہیں جہاں اس کتاب سے تعارف، کچھ قرأت اور دیگر سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ فطری ہے کہ ایسی تقاریب تحریر کے انداز، کتاب اور مصنف کے بارے میں تجسس بڑھانے والے ہوتے ہیں۔ یہ اس دوران انھیں آئی پیڈ اور کارٹون کی دنیا سے دور رکھنے کا کام بھی کرتا ہے۔


میں نے اپنے دور میں ایسے میلوں اور جشن میں دیکھا ہے کہ ایسے اجلاس کے بعد بیشتر بچے کتابوں کے اسٹال پر امنڈ پڑتے تھے اور اپنی خواہش کے مطابق کتابوں پر اپنے سامنے کھڑے زندہ جاوید مصنف کے دستخط پا کر جوش سے کس طرح لبریز ہو جاتے تھے۔ ایک قاری کے لیے ایک ایسے مصنف سے ملنا سب سے بہترین تجربہ سے گزرنا ہوتا ہے جس نے آپ کے پسندیدہ کرداروں سے بھری پوری ایک دنیا ہی تعمیر کر دی ہو۔ قاری کے لیے ایک مصنف کی محبت میں پڑنا اور اس کی ساری کتابیں پڑھ جانے کی خواہش سے بھر جانا کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ یہ تقاریب مصنف اور قاری کے درمیان رشتے کی مضبوط ڈور کھینچتے ہیں، اور کہنا نہ ہوگا کہ یہ سب نوجوان قاری پر انمٹ نقوش چھوڑنے والا ہوتا ہے۔

ممبئی کے جسودابین ایم ایل اسکول میں حال ہی میں ختم ’پیک اے بک‘ چلڈرن لٹریچر فیسٹیول میں مصنف جیری پنٹو نے کہا کہ ’’کتابیں پڑھنا کسی باغیچے میں چلنے اور بیج بونے جیسا ہے۔ یہ بیج نظریہ ہیں اور جب کچھ نیا لکھنا چاہتا ہوں تو میں بس میرے باغیچے میں گھومنے نکل جاتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہاں کیا ہے۔‘‘ میں اس میں مزید یہ جوڑنا چاہوں گی کہ ان پروگرامس میں شامل ہونا اور مصنفین کے ساتھ بات چیت کرنا نظریوں کو مضبوط بنانے کے لیے کھاد پانی کا کام کرتا ہے۔


اب جب یہاں خواہشات اور ادبی میلوں کی بات ہو رہی ہے تو میری بھی ایک خواہش ہے۔ میری تمنا ہے کہ سارے کے سارے چلڈرن لٹریچر فیسٹیول خوشحال ہوں اور ملک بھر کے بچوں کو مصنفین سے ملنے کے تمام مواقع ملیں۔ اور میں متالی، ریا، ادویت اور روہن کے اس گینگ سے بھی ملنا چاہوں گی جو ایک ٹیبل کے ارد گرد بیٹھ کر سیو-پوری کا لطف لیتے ہوئے کہانی میں لاپتہ چپل کا معمہ سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے، جیسا کہ میرے جیسے ہندوستانی اکثر کرتے ہیں۔

(مضمون نگار یشسوی وَچھانی ممبئی سے تعلق رکھنے والی مصنفہ، دی پومیگرنٹے ورکشاپ کی کریٹیو رائٹنگ ٹیچر اور چلڈرنس لٹریری ایونٹس کی کیوریٹر ہیں)۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔