دنیا کب تک تماشائی بنی رہے گی؟

تجزیہ کار سوال کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کب تک اپیلیں کرتا رہے گا اور دنیا کے دیگر ممالک بشمول عرب ممالک کب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے؟ کیا ان کے تماشائی بنے رہنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

سہیل انجم

فلسطین کی مسلح تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کو ایک ہفتے سے زائد ہو گیا۔ اس جنگ کا ایندھن انسان بن رہے ہیں۔ ان کی املاک بھی تباہ ہو رہی ہیں۔ ہزاروں کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور ہزاروں زخمی ہو کر تڑپ رہے ہیں۔ اب غزہ کی پٹی انسانی آبادی کا خطہ نہیں بلکہ آسیب زدہ علاقہ لگتا ہے۔ چاروں طرف مکانوں کے ملبے پڑے ہوئے ہیں۔ جو لوگ ہلاک ہو رہے ہیں ان کی تدفین کا مسئلہ ہے اور جو ابھی زندہ بچے ہیں ان کی زندگی کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح اسرائیل میں بھی تباہی و بربادی کا کھیل جاری ہے۔ حماس کے حملوں میں جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں ابھی ان تمام کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ ان کی لاشیں اسپتالوں کے مردہ گھروں میں پڑی ہوئی ہیں۔

مبصرین کے مطابق اس وقت بہت سے ملکوں میں اور خاص طور پر ہندوستان میں حماس اور فلسطینی عوام کے درمیان کا فرق مٹا دیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ خود اسرائیل نے بھی اس فرق کو مٹا دیا ہے۔ وہ حماس کو تباہ کرنے کے بہانے فلسطینی عوام کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس نے انسانی آبادیوں پر بموں کی بارش کرکے حماس کے ساتھ ساتھ بے قصور فلسطینی شہریوں کو بھی نشانے پر لے رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے بار بار اس سے جنگی اصولوں اور قوانین کے احترام کی بات کی جا رہی ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ کسی کی نہیں سن رہا ہے اور اس کے حملے اب جنگی جرائم کے زمرے میں پہنچ گئے ہیں۔


اقوام متحدہ نے سوائے اس کے کہ اسرائیل سے اپیل کرے اور کچھ نہیں کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اینٹونیو گوتریز نے یہ تو کہا ہے کہ غزہ سے دس لاکھ افراد کی نقل مکانی ممکن نہیں ہے۔ وہاں کے لوگ کھانے پینے کی اشیا سے محروم ہیں۔ لیکن انھوں نے اسرائیل سے یہ نہیں کہا کہ وہ حملے بند کر دے۔ البتہ اتنا ضرور کہا ہے کہ اسے جنگی اصولوں کا احترام کرنا چاہیے۔ اسرائیل نے غزہ کے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ چوبیس گھنٹے کے اندر شمالی سے جنوبی علاقے میں چلے جائیں کیونکہ وہ شمالی علاقے میں حماس کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے والا ہے۔ اس کے اس اعلان کے بعد بے بس و مجبور فلسطینی عوام اپنی جانو ں کی حفاظت کے لیے وہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حالانکہ انسانی امداد فراہم کرنے والی ایجنسیوں نے اسرائیل سے اپنا حکم واپس لینے کو کہا ہے لیکن وہ اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حماس کے حملے کی فلسطینی عوام کو سزا ہے اور اجتماعی سزا ہے کہ انھیں اپنا وطن چھوڑنے کے لیے کہا جائے۔ اس حکم کے بعد خواتین، بچے اور معمر افراد انتہائی دشواریوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین بھی انخلا کے حکم کی مذمت کر رہے ہیں۔ داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ پاؤلا جی کا کہنا ہے کہ آبادی کی زبردستی منتقلی انسانیت کے خلاف جرم ہے اور بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت اجتماعی سزا ممنوع ہے۔


ادھر گوتریز نے مطالبہ کیا کہ تمام غزہ تک فوری طور پر انسانی بنیادوں پر رسائی دی جائے تاکہ خوراک، پانی اور ایندھن انتہائی ضرورت مندوں تک پہنچ سکے۔ انہوں نے غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے قبل کہا کہ جنگوں کے بھی اصول ہوتے ہیں۔ انہوں نے تنازعہ میں ملوث تمام افراد پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی انسانی اور انسانی حقوق کے قانون کے اصولوں کا احترام کریں جس میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے اور انہیں کبھی بھی ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

سعودی عرب نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کو غزہ چھوڑنے کے مطالبے کی مذمت کی اور بے دفاع شہریوں کو مسلسل نشانہ بنانے کی مذمت کی۔ اس کی وزات خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب غزہ سے فلسطینی عوام کی جبری نقل مکانی کے مطالبات کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کرتا ہے اور وہاں بے دفاع شہریوں کو مسلسل نشانہ بنانے کی مذمت کرتا ہے۔ عالمی برادری کو غزہ کے لوگوں کے لیے ضروری امداد اور طبی ضروریات فراہم کرنی چاہئیں۔ باوقار زندگی کے لیے بنیادی ضروریات سے محرومی بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔


ادھر ایران نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے بمباری نہیں روکی تو جنگ کے کئی محاذ کھل جائیں گے۔ لیکن بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل حملوں کو بند کرنا نہیں چاہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد حماس کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کو بھی ختم کر دینا اور فلسطینی زمین پر خاص طور پر غزہ پر قبضہ کر لینا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دراصل اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو ایک شدت پسند رہنما ہیں اور دیگر شدت پسند سیاسی جماعتیں ان کی حمایت کر رہی ہیں۔ اس لیے ان کو اندرون ملک اب کسی مخالفت کا سامنا بھی نہیں ہے۔ حالانکہ جنگ شروع ہونے سے قبل انھیں گھریلو محاذ پر کئی چیلنجوں کا سامنا تھا۔ لیکن اب ان کو لگتا ہے کہ انھیں اپنی حکومت مضبوط کرنے کا ایک سنہری موقع مل گیا ہے۔

حماس اسرائیل جنگ کے نتیجے میں زبردست انسانی المیے نے جنم لیا ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں اب تک تین لاکھ 40,000 لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان میں سے دو تہائی افراد نے اقوم متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ غزہ سے ایک نوجوان فلسطینی نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر گھنٹے، ہر منٹ اور ہر لمحے ہم فضا، زمین اور سمندر سے دھماکوں کی آوازیں سن رہے ہیں۔ ایک اور شہری نے بتایا کہ اسرئیل کے حالیہ حملوں کے بعد مغربی غزہ کی گلیوں کوپہچاننامشکل ہوگیا ہے۔


ایک بیس سالہ فلسطینی خاتون پلیستا الاقاد نے بتایا کہ سانس لینا دشوار ہوگیا ہے اور بارود کی وجہ سے آسمان دن رات تاریک رہتا ہے۔میں نے ساری عمر غزہ میں گزاری ہے اور اب میں اس کی گلیوں کو نہیں پہچان سکتی۔ زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پانی، بجلی، خوراک اور تمام ضروریات زندگی کی اشیا ختم ہورہی ہیں۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس نے جمعرات کو خبردار کیا تھا کہ بجلی کے بغیر غزہ کے اسپتالوں کا مردہ خانوں میں تبدیل ہونے کا خطرہ ہے۔ غزہ کے واحد بجلی گھر کا بدھ کو ایندھن ختم ہوگیا اور بیک اپ جنریٹرز کچھ ہی گھنٹوں میں کام کرنا بند کرنے والے تھے۔ (اب وہ بھی بند ہو گئے ہوں گے)۔ اسرائیل کی طرف سے مکمل ناکہ بندی غزہ پر فضائی اور توپوں سے حملوں کے بعد طبی مراکز میں کام حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔

اسرائیل میں بھی حالات اچھے نہیں ہیں۔ ایک 21سالہ اسرائیلی خاتون نے جس کے والد، چھوٹی بہن، کزن اور دادی حماس کے حملے کے بعد لاپتا ہوگئے تھے غمزدہ انداز میں کہا کہ میں نے ویڈیو میں دیکھا تھا کہ حماس کے لوگ میرے 12 سالہ بھائی کو لے جارہے تھے۔ کیا وہ زندہ بھی ہے؟ گایا کالدیرون جب صبح چھ بجے جاگیں تو تل ابیب میں ہر طرف سائرن بجنے کی آواز آرہی تھیں۔ انہوں نے چھوٹے سے قصبے نیر اوز میں مقیم اپنے خاندان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے فون کیا۔ انھوں نے بتایا کہ جب میں نے اپنی ماں اور والد کو کال کی تو سب کچھ اچھاتھا۔ میرے والد، چھوٹی بہن اور چھوٹا بھائی ایک محفوظ مقام پر جا چکے تھے جبکہ میری والدہ اور بڑے بھائی ایک الگ گھر میں موجود تھے۔


لیکن پھر میری بہن کی طرف سے ایک پیغام آیا کہ ان کی قیام گاہ کے قریب سے گولیا ں چلنے کی آواز آرہی تھی اور وہ خوف زدہ تھی۔ اس کے چند سیکنڈز بعد وہ غائب ہوگئی۔ اس کے بعد کالدیرون نے بتایا کہ اس نے اپنی دادی اماں کو کال کرنا شروع کیا جوکہ ان کے ایک کزن کے ساتھ اسی علاقے میں رہائش پذیر تھیں۔ ان کی دادی نے بتایاکہ حماس کے جنگجو ان کے گھر میں گھس آئے تھے اور وہ چیزوں کو ادھر ادھر پھینک رہے تھے۔ اس بات کے بعد کالدیرون کی دادی نے بھی فون کا جواب نہ دیا۔ کالدیرون کی ماں اور اس کے بڑے بھائی محفوظ ہیں لیکن ان کی چھوٹی بہن، بھائی، کزن اور دادی ابھی تک لاپتا ہیں۔

انسانی المیے کی یہ کہانی فلسطین اور اسرائیل دونوں جانب ہے۔ البتہ فلسطین کا زیادہ برا حال ہے۔ بہت سے تجزیہ کار سوال کرتے ہیں کہ آخر اقوام متحدہ کب تک اپیلیں کرتا رہے گا اور دنیا کے دیگر ممالک بشمول عرب ممالک کب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ کیا ان کے اس طرح تماشائی بنے رہنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔