حجاب معاملہ: وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی شبیہ داؤ پر...ڈاکٹر ریحان غنی

بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی ایک سرکاری تقریب میں مسلم خاتون ڈاکٹر کے حجاب سے متعلق نازیبا حرکت نے ان کی شبیہ کو نقصان پہنچایا ملی و مذہبی قیادت کی خاموشی نے مزید تشویش پیدا کر دی ہے

<div class="paragraphs"><p>نتیش کمار (فائل)، تصویر یو این آئی</p></div>
i
user

ڈاکٹر ریحان غنی

بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بلاشبہ ’وکاس پرش‘ ہیں اور ان کی شبیہ بھی اچھی ہے، لیکن ادھر چند مہینوں سے عوامی جلسوں اور تقریبات کے دوران وہ مضحکہ خیز حرکتیں کرنے لگے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی شبیہ داؤ پر لگ گئی ہے اور ان کے ذہنی توازن پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔

ابھی کل یعنی 15 دسمبر کی ہی بات ہے، پٹنہ میں ایک سرکاری تقریب میں وہ آیوش ڈاکٹروں کو تقرر نامہ تقسیم کر رہے تھے۔ اسی دوران ایک مسلم خاتون ڈاکٹر کو تقرر نامہ لینے کے لئے بلایا گیا۔ وہ آئی تو اسے حجاب میں دیکھ کر نتیش کمار برہم ہو گئے اور غصے میں انہوں نے اس کے حجاب کو کھینچ کر ہٹا دیا۔ چونکہ یہ پروگرام لائیو ہو رہا تھا اس لئے اس کا ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گیا۔ وزیر اعلیٰ کی اس نازیبا حرکت کی مذمت کی جانے لگی۔ تقریب میں موجود سبھی افسر بھی حواس باختہ ہو گئے۔ ان کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا۔

با وثوق ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ کی سرکاری رہائش تک اس کا اثر دیکھا گیا۔ اس واقعہ کا جو ویڈیو وائرل ہوا اس میں بہت واضح طور پر یہ نظر آ رہا ہے کہ جب وزیر اعلیٰ اس مسلم خاتون ڈاکٹر کے چہرے سے حجاب ہٹا رہے تھے تو قریب میں موجود بی جے پی رہنما اور نائب وزیر اعلی سمراٹ چودھری نے انہیں ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش کی، جس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اس واقعہ سے بلا شبہ نتیش کمار کی رسوائی ہوئی ہے۔ حالانکہ جنتا دل یو کے مسلم رہنما وزیر اعلیٰ کا دفاع کر رہے ہیں۔ یہ واقعہ مسلم سماج کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے مہذب سماج کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔

سب سے زیادہ حیرت کی بات اس واقعہ پر بہار کے اردو اخبارات اور ملی و مذہبی رہنماؤں کی خاموشی ہے۔ کہیں کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔ صرف ایک اخبار نے اس کا نوٹس لیا جو بہار کے علاوہ دوسری ریاستوں سے بھی شائع ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں جب میں ماضی کی اردو صحافت کو یاد کرتا ہوں اور آج اردو صحافت کا جائزہ لیتا ہوں تو رونا آتا ہے۔ جب کبھی ملت پر افتاد آتی ہے تو مجھے بے ساختہ شیر بہار غلام سرور اور ان کا اخبار ’سنگم‘ یاد آتا ہے۔ نہ تو اب غلام سرور رہے اور نہ وہ ’سنگم‘ رہا۔ بہار میں بیسویں صدی کے نصف کا یہ وہ اخبار تھا جو ’سرکار بناتا تھا اور سرکار گراتا تھا‘۔ یہ میرا جملہ نہیں ہے۔ یہ جملہ ستندر نارائن سنہا کے دور حکومت کے وزیر اطلاعات و تعلقات عامہ کرپا ناتھ پاٹھک کا ہے۔


مجھے یاد ہے اس وقت میں کانگریس کے ترجمان روزنامہ ’قومی آواز‘ پٹنہ ایڈیشن کے شعبہ ادارت سے وابستہ تھا۔ میرے ساتھ شعبہ ادارت میں شمیم پھلواروی، سید عبدالرافع، شفیع عالم، نیئر فاطمی اور کئی دوسرے رفقاء شام کے وقت ادارتی کام میں مصروف تھے کہ اچانک خبر ملی کے وزیر اطلاعات و تعلقات عامہ کرپا ناتھ پاٹھک شعبہ ادارت میں تشریف لا رہے ہیں۔ یہ اطلاع ملتے ہی وہ آ گئے، گفتگو شروع ہوئی۔ انہوں نے پوچھا کہ ابھی پٹنہ سے کون کون اردو اخبارات نکلتے ہیں۔ ابھی ہم لوگ تفصیل بتانے ہی والے تھے کہ انہوں نے دوسرا سوال کر دیا ’کیا سنگم نکلتا ہے؟‘ ہم لوگوں نے کہا کہ بالکل شائع ہوتا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے برجستہ کہا ’’یہ وہ اخبار ہے جو سرکار بناتا تھا اور سرکار گراتا تھا‘‘۔ ان کا یہ اشارہ یقینی طور پر آنجہانی کے بی سہائے کی حکومت کی طرف تھا جس کو اکھاڑ پھینکنے میں غلام سرور اور ان کے اخبار ’سنگم‘ کا بھی اہم کردار تھا۔

موجودہ دور، یعنی اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں صرف بہار میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں اردو صحافت بے وقعت، بے وقار اور انتہائی کمزور ہو کر رہ گئی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے اس معاملے پر ملی و مذہبی رہنماؤں نے بھی مجرمانہ خاموشی اِختیار کر لی ہے۔ یہ ڈر خوف کیوں؟ اردو صحافت اور ملی اور مذہبی رہنماؤں کی جرأت و بے باکی کو گہن کیوں لگ گیا؟ حکومت وقت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے سے لوگ کیوں ڈرنے لگے؟ اس طرح کے کئی سوالات آج سب کو پریشان کر رہے ہیں۔ ہر طرف مجرمانہ خاموشی ہے، سب نے مصلحت کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ اس خاموشی سے نقصان پہنچے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔