ہیروشیما و ناگاساکی: ناقابل تصور تباہی کی یادیں

جاپانی شہروں پر ایٹمی حملوں کو 80 سال مکمل ہونے پر دنیا نے خاموشی، یادگاری تقریبات اور تخفیفِ اسلحہ کی اپیل کے ساتھ خراجِ عقیدت پیش کیا، اور عالمی رہنماوں سے جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کا مطالبہ کیا

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر، سوشل میڈیا</p></div>
i
user

مدیحہ فصیح

گزشتہ ہفتے 6 اور 9 اگست 2025 کو دنیا نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی یاد منانے کے لیے ایک لمحہ توقف کیا — یہ وہ واقعات تھے جنہوں نے انسانی تاریخ کا دھارا ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ آٹھ دہائیاں گزرنے کے بعد، زندہ بچ جانے والے افراد جنہیں "ہیباکوشا" کہا جاتا ہے، عالمی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر ہمیں ایٹمی جنگ کی ہولناکیوں اور اسلحے کے خاتمے کی فوری ضرورت پر غور کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، ہیروشیما میں صبح 8:15 بجے "پیس میموریل پارک" میں گہری سنجیدگی چھا گئی — یہ وہی وقت تھا جب یورینیم بم پھٹا تھا۔ ہزاروں افراد، جن میں 120 سے زائد ممالک کے نمائندگان شامل تھے، پھول چڑھانے، خاموشی اختیار کرنے، اور امن کے لیے ایک پُراثر اعلامیہ سننے کے لیے جمع ہوئے۔ میئر کازومی ماتسوی نے جوہری ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی دوڑ پر خبردار کیا اور عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ ہیروشیما آ کر اس حقیقت کا مشاہدہ کریں۔ تین دن بعد ناگاساکی میں، شرکاء نے صبح 11:02 پر خاموشی اختیار کی — وہ لمحہ جب "فیٹ مین" نامی بم نے شہر کو تباہ کیا تھا۔ میئر شیرو سوزوکی نے ایک بار پھر ایٹمی جنگ کے نئے خطرات پر متنبہ کیا اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کی ذمہ داریوں کو اجاگر کیا۔

زندہ بچ جانے والوں کی آوازیں

ہیباکوشا، جو اب زیادہ تر 80 یا 90 سال کی عمر کے ہو چکے ہیں، وقت کے ساتھ ایک دوڑ میں ہیں تاکہ وہ اپنی کہانیاں دنیا تک پہنچا سکیں۔ 90 سالہ یوشیکو نِییاما، جنہوں نے ہیروشیما کے ملبے میں اپنے والد کو تلاش کیا تھا، آج نئی نسل کو بطور "خاندانی جانشین" تربیت دیتی ہیں تاکہ جاپان پر امریکی ایٹمی حملوں کی یہ یادیں زندہ رہیں۔ 83سالہ کُنی ہیکو ایئیدا، جو بچپن میں ہیروشیما دھماکے سے صرف 900 میٹر کے فاصلے پر موجود تھے، اب اس پارک میں رضاکارانہ خدمات انجام دیتے ہیں، خاص طور پر اُن سیاحوں میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے جو ان بمباریوں کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔

اسی طرح، 86 سالہ فُومیکو دُوئی، جو ناگاساکی میں بمباری سے بمشکل بچ پائیں، باقاعدگی سے امن و عدم تشدد کی تقریبات میں خطاب کرتی ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں سے پیدا ہونے والے موجودہ خطرات کو نمایاں کرتی ہیں۔ مزید براں، جاپان پر ایٹمی حملوں سے بچ جانے والوں کی تنظیم، نِہون ہِدانکویو، جسے 2024 کا نوبیل امن انعام دیا گیا تھا، اپنی انتھک جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے — گواہوں کے بیانات کو محفوظ کر رہی ہے، حکومتوں اور اقوام متحدہ کو درخواستیں دے رہی ہے، اور دنیا کو بیدار کرنے میں مصروف ہے۔


اس موقع پر "ایسوسی ایٹڈ پریس" نے سُومی تیرو تانِی گوچی کی ہولناک تصاویر دوبارہ شائع کیں — جو 16 سال کی عمر میں شدید جھلس گئے تھے اور ساری زندگی ایٹمی اسلحے کے خاتمے کی مہم چلاتے رہے — یہ تصاویر ایٹمی ہتھیاروں کے جسمانی اور جذباتی اثرات کی ایک شدید یاددہانی ہیں۔ میڈیا کوریج، جیسے کہ "پی بی ایس" کی دستاویزی فلم "ایٹومک پیپل" زندہ بچ جانے والوں کی ہولناک گواہیوں کو اجاگر کرتی ہے — کہ کیسے جسم پگھلے، اسکول گر گئے، اور بستیاں تباہ ہو گئیں — اور 2023 میں اقوام متحدہ میں ایک زندہ بچ جانے والے کے خطاب پر ختم ہوتی ہے، جس میں موجودہ جوہری بحران جیسے یوکرین اور غزہ کی صورتحال سے موازنہ کیا گیا۔

یادیں محفوظ رکھنے کی ضرورت

زندہ بچ جانے والوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے — اب یہ تعداد ایک لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے، اور ان کی اوسط عمر 86 سال سے زائد ہو چکی ہے۔ ایسے میں معاشرے ایک بڑے چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں: ان عینی شاہدین کی گواہیوں کو محفوظ رکھنا۔ ڈیجیٹل آرکائیونگ، نوجوانوں کی تربیت، نمائشوں، اور زبانی تاریخ کے پروگرام جیسے اقدامات اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ یادیں فراموشی کے خلاف ایک مضبوط قلعہ بنیں۔ جاپان بھر میں ہیباکوشا نیٹ ورکس اور نوجوانوں کے پروگرام اس جدوجہد میں شامل ہیں تاکہ یہ مشعل بجھنے سے پہلے نئی نسل کے ہاتھوں میں منتقل کی جا سکے۔

تخفیفِ اسلحہ معاہدوں کی اہمیت

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے ہیروشیما اور ناگاساکی کی تقریبات میں اپنی تخفیفِ اسلحہ کی سربراہ ایزومی ناکامیستو کے ذریعے ہیباکوشا کے اخلاقی ورثے کو خراجِ تحسین پیش کیا اور نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر پر بمباری سے بچ جانے والے درختوں کے پودے لگا کر امید کی نئی علامت قائم کی۔ گوٹیرش نے 1945 میں اقوام متحدہ کے قیام کو انسانیت کے تحفظ کے طور پر یاد کیا اور اس بات پر زور دیا کہ آج کے بڑھتے ہوئے جوہری خطرات ایک نئی توانائی سے بھرپور تخفیفِ اسلحہ کی کوششوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ انہوں نے پیکٹ فار دی فیوچر، عدم پھیلاؤ کا معاہدہ (این پی ٹی) اور جوہری ہتھیاروں پر پابندی کا معاہدہ (ٹی پی این ڈبلیو) کو اس سلسلے کے اہم ترین آلات قرار دیا۔

ٹوکیو میں، اقوام متحدہ کی یونیورسٹی (یو این یو) نے ایک نمائشی نمائش کا اہتمام کیا جس کا عنوان تھا "امن کی نمائش: ہیروشیما-ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کو 80 سال " اس میں تصاویر، تخفیفِ اسلحہ سے متعلق معلومات شامل ہیں — جو یادگار اور تعلیمی حوالے سے ایک طاقتور ذریعہ ہے۔یو این یو نے مئی میں ایک اعلیٰ سطحی سمپوزیم بھی منعقد کیا جس کا عنوان تھا "ہیروشیما اور ناگاساکی کی 80ویں یاد: عالمی اتحاد کی ضرورت" اس میں بان کی مون اور فومیو کیشیدا جیسے سابق عالمی رہنماؤں نے شرکت کی، جنہوں نے کثیرالجہتی نظام میں جاپان کے اخلاقی کردار کو اجاگر کیا اور بین الاقوامی اتحاد کی ازسرِ نو تعمیر پر زور دیا۔علاوہ ازیں، نوجوانوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا: 6 اگست کو ہیروشیما میں ایک مکالماتی پروگرام میں نوجوان سفیروں نے 2050 تک ایک جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کے لیے اپنا روڈ میپ پیش کیا۔ تجربہ کار سفارتکاروں کے ساتھ بات چیت کے اس سیشن کو ایکسپو 2025 اوساکا میں براہِ راست نشر بھی کیا گیا۔


یاد رکھنا کافی نہیں، عمل ضروری ہے

اگرچہ دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے پر عالمی سطح پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے، لیکن موجودہ جغرافیائی سیاسی حالات — جن میں اسلحے کی جدید کاری اور باہمی اعتماد کا فقدان شامل ہے — اس مقصد کے راستے میں سنگین رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ نوبیل انعام یافتہ تنظیم نِہون ہِدانکویو اب بھی ایٹمی حملوں سے بچ جانے والوں کی آوازوں کو دستاویزی شکل میں محفوظ کر رہی ہے اور بین الاقوامی فورمز پر ان کے حق میں مؤثر وکالت جاری رکھے ہوئے ہے۔ جاپان کے وزیر اعظم فومیو کیشیدا جیسے رہنما اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جاپان کی ایک منفرد اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ سچائی کو نسل در نسل منتقل کرے۔ دی ایلڈرز، جن میں بان کی مون بھی شامل ہیں، نے اس سال کے آغاز میں ہیروشیما کا دورہ کیا اور عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ خطرناک رجحانات کو پلٹ دیں، اور یہ خبردار کیا کہ جوہری خطرہ اب سرد جنگ کے دور سے بھی زیادہ سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔

آج جب ان تباہ کن واقعات کو 80 سال گزر چکے ہیں، ہیروشیما اور ناگاساکی اب بھی انسانی صلاحیت کی تاریک ترین حد — اور روشن ترین امید — کی لافانی علامتیں ہیں۔ وہ آوازیں، جو کبھی صدمے کے باعث خاموش تھیں، آج اخلاقی وضاحت کے ساتھ گونج رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے لے کر نوجوان کارکنوں تک، سب ایک ہی پیغام دہرا رہے ہیں: یاد رکھنا کافی نہیں، عمل ضروری ہے۔ ہیباکوشا کی سچی تکریم صرف باتوں سے نہیں، بلکہ اقدامات سے ہوگی — اسلحے کے کنٹرول کو مضبوط بنانے، تخفیفِ اسلحہ کے معاہدوں کی حمایت کرنے، نوجوانوں کو بااختیار بنانے، اور امن کے پیغام کو عالمی شعور میں راسخ کرنے سے۔ تب ہی ہم اس وعدے کو سچ کر سکیں گے کہ "کبھی دوبارہ نہیں"صرف الفاظ نہ ہوں، بلکہ ہماری مشترکہ حقیقت بن جائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔