ہیرن جوشی: وزیر اعظم مودی کی میڈیا حکمتِ عملی کے خاموش معمار پر سوال
ہرین جوشی، جنہیں مودی کا بااثر مگر پس منظر میں کام کرنے والا میڈیا معمار کہا جاتا ہے، پہلی بار جانچ کے دائرے میں ہیں۔ کانگریس کئی سوال اٹھا رہی ہے جبکہ ان کے اثر و رسوخ پر متضاد دعوے گردش کر رہے ہیں

سینئر صحافی راجدیپ سردیسائی نے اپنی کتاب ’دی الیکشن دیٹ سرپرائزڈ انڈیا‘ میں ہرین جوشی کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے، وہ شخصیت جو ہندوستان کے طاقت ور ترین وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) میں سب سے بااثر مگر کم ترین نظر آنے والے افراد میں شمار کی جاتی ہے۔ سردیسائی انہیں ہندوستان کا ’سپر ایڈیٹر‘ قرار دیتے ہیں اور مختلف واقعات کے ذریعے واضح کرتے ہیں کہ گزشتہ 18 برسوں سے نریندر مودی کے ساتھ رہنے والے جوشی نے کس طرح میڈیا کے اس پورے نظام کو تشکیل دیا جو عوامی رائے کو متاثر کرتا ہے۔
سردیسائی کے مطابق جوشی صرف نیوز رومز پر اثرانداز نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ یہ طے کرتے تھے کہ پرائم ٹائم پر کیا چلے گا، مخالف جماعتوں کے خلاف کس نوعیت کے مباحثے ہوں گے اور کون سے موضوعات کو اٹھایا یا دبایا جائے۔ سردیسائی کی کتاب کے شائع ہونے سے دو برس قبل 2022 میں دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے پہلی مرتبہ کھلے عام الزام لگایا تھا کہ جوشی ٹی وی چینلز پر دباؤ ڈالتے ہیں اور عام آدمی پارٹی کی کوریج کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جو شخص برسوں سے میڈیا کا پورا بیانیہ سنبھالتا رہا، وہ خود بدھ کے روز خبر بن گیا، جب کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے ایک پریس کانفرنس میں ’ایچ بم‘ یعنی ہرین جوشی بم گرانے کا دعویٰ کیا۔ یہ پریس کانفرنس اصل میں سنچار ساتھی ایپ کے متنازع پہلوؤں پر بات کرنے کے لیے بلائی گئی تھی، جسے حزبِ اختلاف شہریوں کی پرائیویسی کے لیے بڑا خطرہ بتا رہی ہے۔
جوشی کے اثرورسوخ کی واضح جھلک اوپن میگزین کی اس سطر میں ملتی ہے، ’ہرین جوشی صرف مودی کے نظام کا حصہ نہیں، وہ اس پورے نظام کا مدر بورڈ ہیں۔‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا میں شاید ہی کسی نے انہیں کبھی دیکھا ہو۔ ایک ٹی وی صحافی کے مطابق، ’وہ ایک بھوت کی طرح ہیں، صرف تب ظاہر ہوتے ہیں جب میڈیا میں مودی کے خلاف کچھ نشر ہو رہا ہو۔‘
ان کی کوئی سرکاری تصویر موجود نہیں۔ سینئر صحافی پرنجوئے گوہا ٹھاکرتا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ جی-20 کے ایک اجلاس کی تصویر میں جوشی کی شناخت کی، جہاں وہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیر اعظم مودی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ آؤٹ لک کے سابق مدیر کرشنا پرساد نے انہیں ’ہندوستانی میڈیا کا بھائی‘ قرار دیا تھا۔
اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ ’بھائی‘ اپنے عہدے سے ہٹائے جا رہے ہیں؟ پون کھیڑا نے الزام لگایا کہ جوشی ’’ہندوستان میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے میں مرکزی کردار‘‘ رہے ہیں۔ کانگریس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کھیڑا جلد ہی جوشی کے ’غلط کاموں‘ کے شواہد پیش کریں گے۔ کھیڑا نے سوال اٹھایا کہ جوشی نے کون سی بیٹنگ ایپ میں سرمایہ کاری کی، پی ایم او میں ان کا کردار کیا تھا، ان کے بیرونِ ملک مفادات کیا تھے اور امریکہ میں وہ کن لوگوں سے ملے؟
پی ایم او اور بی جے پی کی جانب سے فی الحال کوئی باضابطہ جواب سامنے نہیں آیا لیکن دہلی کے سیاسی حلقوں میں بے چینی ضرور ہے۔ کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ جوشی کو پی ایم او سے ہٹا دیا گیا ہے اور اب وزیر اشونی ویشنَو وزیر اعظم کی میڈیا حکمت عملی سنبھال رہے ہیں۔ تاہم دوسری اطلاعات کا کہنا ہے کہ جوشی بدستور اپنے منصب پر قائم ہیں۔
نیشنل ہیرالڈ ڈ نے اس سلسلے میں حقائق جاننے کی کوشش کی۔ مودی کی سوشل میڈیا ٹیم کے ایک سابق رکن نے، جن کا بالواسطہ طور پر جوشی سے رابطہ رہتا تھا، بتایا کہ گزشتہ 6 ماہ سے انہیں ہٹانے کی کوشش چل رہی تھی مگر وہ ’آخرکار یہ جنگ جیت گئے۔‘ ان کے مطابق جوشی ’مودی کے بارے میں اتنا کچھ جانتے ہیں کہ انہیں زبردستی ہٹانا حکومت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔‘
این ڈی ٹی وی سے وابستہ رہنے والے ایک گجرات کے صحافی کے مطابق جوشی کی سرگرمیوں پر کچھ عرصے سے نظر ضرور رکھی جا رہی تھی مگر انہیں ہٹایا نہیں گیا۔ تاہم احمد آباد کے صحافی دیپال ترویدی کی رائے مختلف ہے۔ ان کے مطابق، ’’ان کے دوست اب مایوس ہوں گے کہ جوشی کو ان کے اختیارات سے محروم کر دیا گیا ہے۔‘‘
جوشی اصل میں بھلواڑہ کے ایک انجینئرنگ پروفیسر تھے۔ 2008 میں انہوں نے اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ مودی کے ایک پروگرام میں ٹیکنیکل خرابی دور کی اور یہیں سے ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز ہوا۔ وہ مودی کے ساتھ گاندھی نگر سے دہلی تک آئے اور وزیر اعظم کی ڈیجیٹل شناخت تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 2019 تک وہ جوائنٹ سکریٹری/او ایس ڈی (کمیونیکیشن اینڈ آئی ٹی) کے منصب تک پہنچ چکے تھے، ایک ایسی حیثیت جو دہلی کے طاقت کے مرکز میں وزیروں، میڈیا مالکان اور پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیموں سے بھی بالاتر ہوتی ہے۔
خاموش مگر ہر جگہ موجود رہنے والے جوشی کو وزیر اعظم کی ’آنکھیں اور کان‘ کہا جاتا ہے۔ دعویٰ ہے کہ خطے کے کئی ممالک جیسے پاکستان، بنگلہ دیش، مالدیپ، نیپال، ترکی اور یہاں تک کہ چین کے خلاف ڈیجیٹل مہمات کے پیچھے انہی کی حکمت عملی تھی۔ ’وشوگرو‘ جیسا نعرہ بھی انہی کی دین بتایا جاتا ہے۔
جوشی کی ممکنہ برطرفی کی خبریں اس وقت سامنے آئیں جب پرسار بھارتی کے طاقتور افسر نوینت سہگل نے استعفیٰ دیا۔ اسی دوران لا کمیشن کے افسر ہیتیش جین کا نام بھی سامنے آیا، جنہیں جوشی کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔ الزام یہ ہے کہ جین نے بیٹنگ قوانین میں خامیاں پیدا کرنے میں کردار ادا کیا مگر اس کی آزادانہ تصدیق ممکن نہیں ہو سکی۔
قیاس لگایا جا رہا ہے کہ سہگل پی ایم او میں جوشی کی جگہ لے سکتے ہیں۔ حقیقت آنے والے دنوں میں واضح ہوگی لیکن اتنا ضرور ہے کہ پہلی بار پی ایم او کے اندرونی معاملات براہِ راست سوالات کے گھیرے میں آ گئے ہیں اور یہ سوالات اب نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔