اچانک ساتھ چھوڑتا دل! لوگوں کی حرکت قلب بند ہونے اور دل کا دورہ پڑنے کے واقعات میں اضافہ

کورونا کے دوران بڑی تعداد میں لوگوں کی جان گئی لیکن یہ حیران کن ہے کہ 2020 سے بھی زیادہ اموات 2022 میں واقع ہوئیں۔ اس بات کی تحقیق کی جانی چاہئے کہ ان اموات کا تعلق ٹیکہ کاری یا لاک ڈاؤن سے تو نہیں

دل کی جانچ کراتے مریضوں کی فائل تصویر / Getty Images
دل کی جانچ کراتے مریضوں کی فائل تصویر / Getty Images
user

قومی آوازبیورو

امیتابھ بنرجی اور بھاسکرن رمن

ان دنوں ملک بھر میں تمام عمر کے لوگوں میں دل سے متعلق امراض میں اچانک اضافہ ہوا ہے۔ کسی کو دل کا دورہ پڑ رہا ہے تو کسی کا دل اچانک کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ بالکل صحت مند نظر آنے والے لوگ سڑک پر چلتے ہوئے، ڈانس فلور پر رقص کرتے ہوئے اور دفتر میں اپنی میز پر کام کرتے ہوئے بھی لقمہ اجل بن رہے ہیں۔

پچھلی بار جب کوویڈ نے تباہی مچا ہوئی تھی، تو کچھ نوجوان یا صحت مند لوگوں کی ناگہانی موت یقیناً حادثاتی طور پر ہوگی لیکن اس معاملہ میں تحقیق کئے جانے کی ضرورت ہے، تاکہ کسی قسم کی احتیاط برتنے کی ضرورت ہو تو معلوم ہو سکے۔

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی یہ رپورٹ راحت والی ہے کہ 19 سال کی عمر تک کوویڈ سے اموات کی شرح 0.0003 فیصد اور 69 سال کی عمر تک تقریباً 0.03 فیصد سے 0.07 فیصد تک ہے۔ کوویڈ انفیکشن کی وجہ سے اموات کی اتنی کم شرح کے پیش نظر، اب ہم ٹیکہ کاری کو بند کر سکتے ہیں اور اپنے وسائل اور وقت کو تحقیق پر صرف کر سکتے ہیں۔

سال 2021 کے آغاز سے ہی اچانک اموات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ممبئی میں دل کے دورے کے واقعات میں 6 گنا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ تاہم، اس طرح کی اموات صرف ہندوستان میں ہی واقع نہیں ہوئیں بلکہ پوری دنیا کا یہی حال ہے۔ یہاں ہم دو ممالک کی صورتحال پر غور کرتے ہیں جن کے لیے ڈیٹا دستیاب ہے، انگلینڈ (بشمول ویلز) اور آسٹریلیا۔


انگلینڈ اور ویلز میں 2015 کے بعد 2020 میں اموات کے واقعات میں تقریباً 13 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جوکہ پچھلے 5 سالوں کی اوسط شرح اموات سے زیادہ ہے۔ انگلینڈ اور ویلز میں 15-44 عمر کے گروپ میں زیادہ لوگوں کی موت نہیں ہوئی، یہاں تک کہ سال 2020 میں بھی نہیں، جب کورونا عروج پر تھا۔ تاہم، 2021 اور 2022 میں اس عمر کے گروپ میں اموات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

آسٹریلیا کا معاملہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے کیونکہ اس ملک نے طویل عرصے تک زیرو کوویڈ پالیسی پر عمل کیا، سخت لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ ٹیکہ کاری کی سخت پالیسی بھی اپنائی۔ 2022 کے اوائل تک اس نے اپنی زیادہ تر آبادی کو ٹیکہ لگا دیا تھا اور یہاں تک کہ بوسٹر خوراکیں بھی دستیاب کرائی دی تھیں۔

دنیا بھر میں اموات کی تعداد میں اضافے کی دو ممکنہ وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے یہ طویل اور سخت لاک ڈاؤن کا اثر ہو سکتا ہے۔ لاک ڈاؤن نے ذیابیطس، موٹاپا، فاقہ کشی، غربت، بے روزگاری، وٹامن ڈی کی کمی، کینسر کے رجحانات وغیرہ کے واقعات میں براہ راست اضافہ کیا ہے۔ ایک اور وجہ کورونا ویکسین کا ضرورت سے زیادہ استعمال بھی ہو سکتی ہے۔ ویکسین ان لوگوں کو بھی دی گئی جو کوویڈ کی گرفت میں آنے کے بعد صحت یاب ہو چکے تھے اور ان لوگوں کو بھی جن کے لیے خطرے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ کسی کے پاس کوئی ٹھوس ڈیٹا نہیں تھا کہ کس کو ویکسین دی جائے اور کس کو اس سے دور رکھا جائے۔

جب تک ویکسین تیار کی گئی، کورونا وائرس ایشیا اور افریقہ کے گنجان آباد ممالک میں بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کر چکا تھا۔ نوجوان اور کمزور لوگ انفیکشن کے بعد صحت یاب ہو گئے اور انہیں ویکسین لگانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وائرس سے متاثر ہونے کے بعد انسان میں جو قدرتی قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے وہ ویکسین سے حفاظت نہیں کرتی۔


لیکن ہمیں اس کے لیے پالیسی سازوں کو شبہ کا فائدہ دینا چاہیے کیونکہ جب حالات ابتر ہوں اور جان بچانا اولین ترجیح ہو تو احتیاط میں کوئی کوتاہی نہیں کی جا سکتی۔ فی الحال صرف اتنا ہی کیا جا سکتا ہے کہ جو لوگ کبھی متاثر ہوئے ہوں ان کو مزید ویکسین نہ لگائی جائے اور ان کی صحت کی نگہداشت کی جائے۔

شروع سے ہی کوویڈ ویکسین اور دل کے امراض کے درمیان کوئی تعلق ہے لیکن یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب نہیں ہے کہ ویکسین ہی اس کی وجہ ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔

اپریل 2020 کے بعد کورونا کے بارے میں سب سے عام چیز اس کا خوف ہے لیکن کیا اعداد و شمار اس خوف کو درست ثابت کرتے ہیں؟ امریکی صدر جو بائیڈن نے 18 ستمبر 2022 کو اعلان کیا کہ کوویڈ 19 اب ختم ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی تقریباً پورا یورپ ہر قسم کی پابندیاں ہٹا چکا تھا اور لوگوں کے ذہن میں موجود خوف بھی دور ہوتا جا رہا تھا۔ تو کیا یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ 2020 میں 2022 سے زیادہ اموات واقع ہوئی تھیں؟ نہیں۔ 2021 اور 2022 میں اموات کی شرح امریکہ اور یورپ دونوں میں 2020 سے زیادہ ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ پھر کوویڈ کے بارے میں شور و غوغا کیوں تھا؟ کیا یہ جان بوجھ کر قائم کیا گیا تھا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وائرس کی وجہ سے لوگوں کی موت ہوئی لیکن لوگوں میں اس کے بارے میں خوف کی کوئی وجہ نہیں تھی۔

جس قسم کی سخت پابندیاں لگائی گئی تھیں اس کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کا عوامی زندگی پر کیا اثر پڑا وہ الگ بات ہے لیکن سوال اب بھی باقی ہے کہ 2020 کے مقابلے 2022 میں زیادہ اموات کیوں؟

اس کی دو ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک، شدید لاک ڈاؤن اور اس کے نتیجے میں ذریعہ معاش کا بحران، کاروبار کا نقصان، ورزش اور جسمانی مشقت میں کمی، سورج کی روشنی سے دور رہنا اور لوگوں کی صحت پر خوف و ہراس کا اثر۔ دوسرے جلد بازی میں ویکسین تیار کرنا اور اسے لوگوں کو لگانا۔ یہ ویکسین ان لوگوں کو بھی دی گئی جو انفیکشن سے صحت یاب ہو چکے تھے۔ اس کا جواز پیش کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی حقائق نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ کورونا ٹیکہ کاری کے معاملے میں غیر رسمی رضامندی کو بھی نظر انداز کیا گیا۔

(امیتابھ بنرجی پونے کے ڈی وی آئی پاٹیل میڈیکل کالج میں کمیونٹی میڈیسن کے پروفیسر اور بھاسکرن رمن آئی آئی ٹی ممبئی میں پروفیسر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔