وہی بھاری پڑ رہا ہے، جسے آنکھ اُٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں تھا...آشیش رے

مودی حکومت کی پاکستان کو تنہا کرنے والی خارجہ پالیسی الٹی پڑ گئی ہے۔ ٹرمپ نے پاکستان سے تعلقات مضبوط کر لیے، جبکہ ہندوستان اقتصادی دباؤ، عالمی تنہائی اور خارجہ محاذ پر کمزوری کا شکار ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر اے آئی</p></div>
i
user

آشیش رے

یہ مضمون اس وقت لکھا گیا جب امریکی میڈیا میں ’ٹرمپستان‘ کے حالات حکومت کی بندش، برطرفیاں اور غزہ کے لیے ٹرمپ کا متنازعہ ’امن منصوبہ‘ مرکزِ گفتگو تھے مگر ہندوستان کے لیے زیادہ اہم وہ ملاقات تھی جو 25 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کے درمیان ہوئی۔ اس سے دو دن قبل، یہ تینوں رہنما نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بھی مل چکے تھے۔

یہ واضح اشارہ تھا کہ ٹرمپ کی توجہ پاکستان پر مرکوز ہے اور ہندوستان پس منظر میں چلا گیا ہے۔ یہ صورتِ حال ہندوستان کے لیے ایک کاری ضرب کی طرح تھی، بالکل اسی طرح جیسے ہندوستانی برآمدات پر اضافی محصولات، ایچ-1 بی ویزا پالیسی میں سختی اور ان ہندوستانیوں کی بے عزتی سے ملک بدری جن کی مدتِ قیام ختم ہو چکی تھی۔ اس کے برعکس، پاکستان کے لیے ٹرمپ نے سرح قالین بچھا رکھا ہے۔

ٹرمپ نے روسی خام تیل کی خرید پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ہندوستان پر درآمدی محصولات دگنے کر دیے، حالانکہ چین، ترکی اور دیگر ممالک روسی توانائی کے کہیں بڑے خریدار ہیں۔ پھر بھی ٹرمپ نے ان کے ساتھ نرمی برتی، یہاں تک کہ ترکی کو ایف-35 لڑاکا طیارے فروخت کرنے کی خواہش بھی جتائی۔

ممکن ہے کہ یہ سخت رویہ دیرپا نہ ہو۔ جب امریکی مارکیٹ میں افراطِ زر بڑھے گی اور اشیاء کی کمی محسوس ہوگی، تو ٹرمپ کو ہندوستان کے خلاف اپنی پالیسی میں نرمی لانی پڑ سکتی ہے۔ البتہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب نریندر مودی امریکی زرعی اشیاء کے لیے ہندوستانی منڈی کھولنے یا روسی تیل کی خریداری روکنے جیسے اقدامات پر راضی ہوں۔


1991 کی معاشی اصلاحات کے بعد بڑی محنت سے قائم ہوا اعتماد اب ٹوٹ چکا ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں جو تلخی آئی ہے، اس کی تلافی جلد ممکن نہیں، خاص طور پر اس وقت جب امریکہ اور پاکستان کے تعلقات تیزی سے گہرے ہو رہے ہیں۔

دسمبر 2016 کے بعد سے مودی کی خارجہ پالیسی کا محور پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنا رہا۔ مودی نے کثیرالطرفہ سفارت کاری چھوڑ کر مکمل جھکاؤ امریکہ کی طرف کر دیا۔ اس پالیسی نے روس کو ناراض کیا، جو ہندوستان کا سب سے بڑا اسلحہ فراہم کنندہ ہے۔ چین، جو منموہن سنگھ کے دور میں نسبتاً دوستانہ رویہ رکھتا تھا، اب سرحدوں پر جارحانہ ہو گیا ہے اور لداخ، سکم اور اروناچل پردیش میں کشیدگی اس کی علامت ہے۔

گزشتہ 11 برسوں میں خارجہ پالیسی کو جس نااہلی کے ساتھ چلایا گیا اور قومی مفاد کو ذاتی تشہیر کی بھینٹ چڑھایا گیا، ویسا منظر آزادی کے بعد کبھی نہیں دیکھا گیا۔ یہ سب ایک فرد کی عالمی شبیہ کو چمکانے کے لیے کیا گیا، جبکہ اس میں ہندوستان کے حقیقی مفادات کو مسلسل نظرانداز کیا گیا۔

دوسری طرف، پاکستان نے اپنی اقتصادی مشکلات کے باوجود چین، روس اور امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات استوار کیے اور سعودی عرب کے ساتھ اپنے پرانے اعتماد پر مبنی تعلقات میں نئی جان ڈال دی۔ اب ریاض صرف ایک اقتصادی دوست نہیں، بلکہ دفاعی شراکت دار بھی بن چکا ہے۔

ہندوستانی وزرائے اعظم عام طور پر سعودی عرب کے معاملے میں محتاط رہے مگر مودی نے وہاں دوستی کی جو پالیسی اپنائی، وہ الٹی پڑ گئی۔ سادہ بات یہ ہے کہ آپ ملک کے اندر مسلمانوں سے نفرت کریں اور بیرونِ ملک مسلم حکمرانوں سے قربت جتائیں—یہ دوہرا رویہ زیادہ دن نہیں چل سکتا۔

پہلگام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ناقص شواہد کے باوجود شروع کیا گیا ’آپریشن سندور‘ ہندوستان کو بھاری پڑا۔ مئی میں پاکستان کے ساتھ چار روزہ جنگ دراصل بہار اور بنگال کے انتخابات سے قبل سیاسی فائدے کے لیے تھی۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس سبھی نے پاکستان کے خلاف کسی فوجی کارروائی کی مخالفت کی، جبکہ چین نے تو کھلے عام اسلام آباد کی حمایت کی۔


ان عالمی دباؤ کے درمیان ہندوستان نے واشنگٹن کو یقین دلایا کہ وہ صرف دہشت گرد ٹھکانوں پر حملہ کرے گا اور اس کی پیشگی اطلاع اسلام آباد کو دے گا اور یہی ہوا۔ اگر اس کا موازنہ 2008 کے ممبئی حملوں سے کیا جائے تو اس وقت ہندوستان کے پاس پاکستان کے خلاف ٹھوس شواہد تھے، ایک دہشت گرد زندہ بھی پکڑا گیا تھا۔ اس وقت ہندوستان نے عسکری کارروائی کے بجائے سفارتی حکمتِ عملی اپنائی اور پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈالنے میں کامیاب رہا۔

اس کے برعکس ’آپریشن سندور‘ نے ہندوستان کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا۔ اب پاکستان دنیا بھر سے ہمدردی سمیٹ رہا ہے اور ٹرمپ اسے مشرقِ وسطیٰ میں ممکنہ ثالث کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف اور عاصم منیر ٹرمپ کے ’غزہ امن منصوبہ‘ میں شامل ہیں۔ ٹرمپ کو غالباً یہ امید ہے کہ پاکستان مستقبل میں ایران کے ساتھ مذاکرات میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

پاکستان نے اس منصوبے کو مشروط حمایت دی ہے کیونکہ اس سے اسے اپنے عوام میں سیاسی مقبولیت حاصل ہو سکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مودی کا ہندوستان اس مکالمے سے بالکل باہر ہے، وہ صرف بنجامن نیتن یاہو کے ساتھ کھڑا ہے، جن پر جنگی جرائم کے الزام میں آئی سی سی نے گرفتاری کا حکم جاری کر رکھا ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ مودی کا ہندوستان پاکستان کو کوسنے میں مصروف ہے اور عالمی سطح پر غیر متعلق ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی تازہ مثال ایشیا کپ کے ایک میچ میں نظر آئی، جس میں ہندوستانی ٹیم کا رویہ کھیل سے زیادہ سیاسی پیغام دیتا دکھائی دیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جس دشمن کو مودی حکومت نے اپنی نفرت کا مرکز بنایا، آج وہی بین الاقوامی منظرنامے میں اس پر بھاری پڑ رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔