حماس اپنے مشن میں کامیاب!... ظفر آغا

مسئلہ فلسطین ایک بار پھر دنیا بھر کا مسئلہ ہے اور اسرائیل-سعودی-امریکہ ڈیل پر تالا پڑ گیا ہے، مظلوموں کو اپنی تھوڑی کامیابی کے لیے بڑی قربانی دینی ہی پڑتی ہے جو غزہ پٹی کے فلسطینی دے رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

ظفر آغا

فلسطینیوں پر جو گزرنی تھی وہ گزر رہی ہے۔ غزہ پٹی کی ناکہ بندی، آب و دانہ کی قلت، اسپتال قبرستان میں تبدیل اور آسمان سے بموں کی بارش تو زمین پر ٹینکوں کے گولے۔ گھر جہنم تو باہر موت۔ آئے دن سینکڑوں بچے، عورت و مرد ہلاک۔ لیکن ایسی جنگ سے فائدہ کیا کہ جس میں سوائے جان کے زیاں کے اور کچھ حاصل نہیں۔ بھلا حماس نے اسرائیل کے خلاف یہ جنگ چھیڑی کیوں! آخر فلسطینیوں کا خون ناحق بہانے کا فائدہ کیا! کیا حماس کی قیادت عقل کھو بیٹھی تھی کہ اسرائیل پر فوجی یلغار کر بیٹھی؟

جی نہیں! حماس نے جو کچھ کیا وہ بہت سوچ سمجھ کر کیا اور ایک عظیم پلان کے تحت کیا۔ حماس بخوبی سمجھ رہا تھا کہ بھلے ہی دو چار دن اس کی فوج کچھ اسرائیلیوں کو مارنے میں کامیاب ہو جائے اور کچھ اسرائیلی یرغمال کے طور پر ہاتھ لگ جائیں۔ لیکن پھر تو ادھر موت کا بازار گرم ہونا ہی ہے۔ ایسے منظم پلان کا آخر مقصد کیا! مقصد تھا اور حماس اپنے مقصد میں اب تک کامیاب ہے۔ حماس کا پہلا ٹارگیٹ مسئلہ فلسطین کو عالمی برادری کو یاد دلانا تھا۔ پچھلے دس بارہ دنوں میں کون سا ایسا ملک ہے جس کی حکومت، میڈیا اور عوام حماس اور اسرائیل جنگ سے پریشان نہ ہو۔ یہی تو حماس چاہتا تھا۔ فلسطینیوں کے قائد یاسر عرفات کی سنہ 2004 میں موت کے بعد ساری دنیا مسئلہ فلسطین بھول چکی تھی۔ دنیا یہ بھول چکی تھی کہ سنہ 1949 میں فلسطین کی سرزمین سے لاکھوں فلسطینیوں کو بھگا کر وہاں پر دنیا بھر میں بکھرے یہودیوں کے لیے ایک ملک اسرائیل بنا دیا گیا۔ اقوام متحدہ نے اس اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور بس پھر ساری دنیا اسرائیل کو تسلیم کر بیٹھی۔ مگر گاہے بگاہے فلسطینوں کی در بدری کی یاد دنیا کو فلسطین دلاتا رہتا تھا۔ مگر جیسا اوپر بیان کیا گیا، یاسر عرفات کے انتقال کے بعد یاد دہانی کا بھی سلسلہ ختم ہو گیا تھا۔


فلسطین کو بھولنا تو درکنار، دنیا بھر نے ریاست فلسطین کو تسلیم کرنا شروع کر دیا۔ ذکر کیا آخرش مسلم ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم لگے۔ اور تو اور عرب ممالک نے بھی اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیکنے شروع کر دیے۔ مصر تو سنہ 1970 کی دہائی میں ہی فلسطینیوں سے دامن چھڑا کر اسرائیل کو تسلیم کر چکا تھا۔ چند سال قبل دبئی اور عمان نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ سعودی عرب اور قطر جیسے دو چار تیل کی دولت میں ڈوبے ممالک حماس کو چند پیسے دے کر خاموش رہتے۔ لیکن حالات اتنی تیزی سے بدلے کہ خبریں یہ آ رہی تھیں کہ سعودی عرب جلد ہی اسرائیل کے ساتھ ڈیل کرنے والا تھا۔ سعودی عرب کے معنی تو یہ تھے کہ پھر تو ایران جیسے دو تین سرپھروں کو چھوڑ کر تمام اسلامی ممالک اسرائیل کا دامن پکڑ لیتے۔ بس پھر فلسطین اور فلسطینیوں کا اللہ اللہ خیر صلّا۔

حماس کے سامنے یہ ایک ایسا مسئلہ تھا کہ غزہ پٹی میں بسے تقریباً 20 لاکھ فلسطینیوں کو جو دو روٹی میسر تھی وہ بھی بند۔ تصویر سامنے تھی، غزہ پٹی میں بسے فلسطینی یوں ہی بے موت مرنے والے تھے۔ چنانچہ حماس کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا تھا اور وہ تھا گھٹ گھٹ کر مرو یا پھر اسرائیل سے جنگ مول لے کر ناکہ بندی سے مجموعی خودکشی کے ذریعہ جان گنواؤ۔ بس حماس نے اجتماعی خودکشی کا راستہ اپنایا۔ لیکن اس طرح غزہ پٹی کے فلسطینیوں کے لیے ایک امید کی کرن پھوٹی۔ سعودی عرب کی قیادت میں تیل کی دولت سے مالا مال وہ ممالک جو اسرائیل کا دامن پکڑنے والے تھے، وہ ٹھہر گئے۔ ساتھ ہی ساتھ ساری دنیا میں اور خصوصاً مسلم ممالک میں عرب نوجوان فلسطینیوں کی حمایت میں سڑکوں پر نکل پڑا۔ اسرائیل-امریکہ کی سازش کہ حماس اور مسئلہ فلسطین ہمیشہ ہمیشہ اسی طرح دفن ہو جائے، ناکام ہو گئی۔ غزہ پٹی کے فلسطینی ابھی تو اسرائیل کے ہاتھوں جان گنوا رہے ہیں، لیکن غزہ پٹی میں گھرے فلسطینیوں کے لیے آنے والے دنوں میں امید کی کرن پھوٹ پڑی۔ بس یہی حماس کا مقصد تھا، یہی اس کی کامیابی ہے۔


محض اتنا ہی نہیں، حماس نے دنیا کو مجبور کر دیا کہ وہ اسرائیلی حکمراں کی فلسطینیوں کے خلاف بربریت پر بریک لگوائے۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ سے حالات اس خطے میں اتنے سنگین ہوتے جا رہے ہیں کہ خود امریکی صدر جو بائڈن کو اسرائیل جانا پڑ گیا۔

عیاں ہے کہ بائڈن اسرائیلی حکمرانوں کو یہ سمجھانے بجھانے گئے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف اپنی جارحیت کو سلو ڈاؤن کریں۔ ورنہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایران اپنے حلیف لبنان اور شام کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر تو قیامت ہی بپا ہوگا۔ دنیا کو تیل سپلائی تو خطرے میں آ ہی جائے گی اور ساتھ چین و روس خاموش تماشائی بنے نہیں بیٹھے رہیں گے۔ حماس جیسی چھوٹی تنظیم کے لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ امریکہ خود غزہ پٹی کے فلسطینیوں کی زندگی کا ضامن بن جائے۔


ظاہر ہے کہ حماس اپنے مشن میں کامیاب ہے۔ مسئلہ فلسطین ایک بار پھر دنیا بھر کا مسئلہ ہے اور اسرائیل-سعودی-امریکہ ڈیل پر تالا پڑ گیا۔ مظلوموں کو اپنی تھوڑی کامیابی کے لیے بڑی قربانی دینی ہی پڑتی ہے جو غزہ پٹی کے فلسطینی دے رہے ہیں۔ لیکن حماس نے جو جنگ چھیڑی، اس نے فلسطین کو پھر عالمی ایشو بنا دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔