گجرات انتخابات: کسی ذات کے کام نہیں آیا مودی کا ’ترقیاتی ماڈل‘، صرف امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھ گیا

نریندر مودی برسوں سے گجرات کے ترقیاتی ماڈل کو اس طرح پیش کر رہے ہیں کہ گویا یہ پورے ملک کو سنہری دور میں لے جا سکتا ہے لیکن زمینی حقیقت مختلف ہے۔ یہاں تک کہ گجرات میں بھی ذات پات کی گرفت مضبوط ہوئی ہے

پی ایم مودی، تصویر آئی اے این ایس
پی ایم مودی، تصویر آئی اے این ایس
user

مارٹن میکوان

سپریم کورٹ کا 103ویں آئینی ترمیم کو درست قرار دینے کا فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب گجرات میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ ریزرویشن کا مطالبہ کرنے والی جس پاٹیدار تحریک کی گجرات اور مرکز میں بی جے پی حکومتوں نے سخت مخالفت کی تھی، وہی ذاتوں کے معاشی طور پر کمزور طبقات (ای ڈبلیو ایس) کو علیحدہ کوٹہ دینے کی بنیاد بنی۔ اس فیصلے کے بہت دور رس نتائج نکلنے والے ہیں کیونکہ اس کے بہت سے پہلو ہیں جو سماجی، معاشی اور سیاسی مساوات کو ایک نئی جہت دینے والے ہیں۔ پہلی بار نجی شعبے کو بھی ریزرویشن کے دائرے میں لایا گیا، ریزرویشن کے لیے مقرر کردہ 50 فیصد کی حد سے تجاوز کیا گیا اور ای ڈبلیو ایس کوٹہ کے لیے سالانہ آمدنی کی حد 8 لاکھ مقرر کی گئی۔

ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی آپدا کو اوسر (تباہی کو موقع) میں بدلنے کے اپنے قول کو سنجیدگی سے لے رہی ہے! ذات پر مبنی ریزرویشن کو لے کر اعلیٰ ذاتوں کے غصے کو ختم کرنے اور اسے ان کے حق میں پلٹنے کے منصوبے کے ساتھ بی جے پی نے ای ڈبلیو ایس ریزرویشن کی بنیاد رکھی۔ ویسے بھی گجرات کے معاملے میں وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکتھی ہے اور جس طرح سے پورے ملک کے سامنے گجرات کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور وہاں کی ایک بھی اسمبلی سیٹ سے کسی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا جاتا ہے، اس سے بی جے پی نے ہندو نواز اور اعلیٰ ذات پارٹی کے طور پر اپنی شبیہ کو مضبوط کیا ہے۔

ای ڈبلیو ایس کوٹہ نے یقینی طور پر ریزرویشن کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس نے ذات پر مبنی ریزرویشن کے نظام کے مقابلے میں معاشی معیار پر مبنی ریزرویشن سسٹم قائم کیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پالیسی سازوں نے اتنا تجزیہ کیا ہے کہ وہ ایسی بنیادی تبدیلی کو عملی جامہ پہنا سکیں؟ پارلیمنٹ اس نتیجے پر کیسے پہنچی کہ ای ڈبلیو ایس اہلیت کی حد 8 لاکھ روپے سالانہ ہونی چاہیے؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ سنہو کمیشن کی رپورٹ میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ اس نے ای ڈبلیو ایس اہلیت سے متعلق میرٹ پر فیصلہ کرنے کے لیے مختلف ریاستی حکومتوں کے جوابات حاصل کرنے کے لیے ایک تفصیلی سوالنامہ تیار کیا تھا، جس پر ریاستوں کی طرف سے بہت کم مثبت جواب ملا اور اس کے بعد جب کمیشن نے سوالوں کو آسان کر کے دوبارہ بھیجا تو بھی ریاستوں کے ردعمل میں بہتری نہیں آئی۔


ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی استفادہ کنندگان کے لیے اہلیت کا معیار 2.5 لاکھ روپے مقرر کیا گیا ہے۔ گجرات میں مختلف فلاحی اسکیموں کے فوائد حاصل کرنے کے لیے اس کو مدنظر رکھا جاتا ہے، جبکہ اعلیٰ ذاتوں میں ای ڈبلیو ایس کی اہلیت 8 لاکھ روپے سالانہ ہے۔ یہ واضح ہے کہ آئین کی 103ویں ترمیم اعلیٰ ذاتوں کو خوش کرنے کے لیے صرف ایک خوشنودی والا اقدام ہے۔ ہندوستان میں شاید ہی کوئی طبقہ ذات پات سے پاک ہو، ایسے میں معاشی معیار پر مبنی یہ ریزرویشن کئی تضادات کو جنم دیتا ہے۔

بی جے پی نے پاٹیدار تحریک میں آگے رہنے والے لیڈروں کو اسمبلی انتخابات میں ٹکٹ دے کر مطمئن کر دیا ہے۔ یہ 'پاٹیدار شکتی' ہی دراصل گجرات ماڈل کا تاج ہے۔ پاٹیدار برادری کو اپنی آبادی کے تناسب سے اسمبلی سیٹوں کا مطالبہ کرنے کا پورا حق ہے لیکن انہوں نے دوگنی سے زیادہ سیٹوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ تاہم، پاٹیدار تحریک اور ای ڈبلیو ایس ریزرویشن نے ثابت کر دیا کہ گجرات میں اعلیٰ ذاتیں بھی ترقی کے ماڈل سے فائدہ نہیں اٹھا سکی ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ گجرات میں ترقی غریبوں کے لیے کام نہیں کر سکی۔ نام نہاد ترقیاتی ماڈل نے صرف امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو وسیع کرنے کا کام کیا۔

اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ تاریخی طور پر اپنی ذات کی حیثیت کا فائدہ اٹھانے والی اعلیٰ ذاتوں نے ترقی کے گجرات ماڈل کو براہ راست چیلنج کیا ہے۔ اس تناظر میں پہلی بات یہ ہے کہ ای ڈبلیو ایس کو ریزرویشن کے لیے آگے بڑھا کر برسراقتدار بی جے پی اور حکومت نے ایک طرح سے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ گجرات ماڈل نے اعلیٰ ذاتوں کو بھی ترقی نہیں دی ہے۔ دوسری بات یہ کہ گجرات میں اگر ترقی ہو رہی ہے تو یقیناً غریبوں کے لیے نہیں ہے۔ تیسرا، نام نہاد ترقیاتی ماڈل نے صرف امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو بڑھا دیا ہے۔ چوتھی بات یہ کہ ہندوستان کے غریبوں کے دل اور دماغ پر پتھر کی لکیر کی طرح نقش کر دی گئی کہ ہے کہ ان کی ذات کوئی بھی کیوں نہ ہو ریزرویشن ہی ان کی ترقی کا پختہ راستہ ہے۔

یوپی اے کی پہلی اور دوسری حکومتیں پرائیویٹ سیکٹر کو ذات پر مبنی ریزرویشن دینے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے میں پوری طرح ناکام رہیں۔ این ڈی اے نے اسے آسانی کے ساتھ انجام دیا، حالانکہ یہ صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں تک ہی محدود تھا۔ بہر کیف کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے نجی ادارے ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کی اجارہ داری نہیں ہیں؟ اعلیٰ ذاتیں، جن کی ملک کی عوامی اور نجی زندگی کے تمام شعبوں میں نمائندگی پہلے ہی آبادی کے تناسب سے زیادہ رہی ہے، اب انہیں آئینی طور پر بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔


ای ڈبلیو ایس ریزرویشن میں پبلک سیکٹر میں بھرتی بھی شامل ہے۔ اہلیت کا معیار آمدنی پر مبنی ہے نہ کہ دولت یا اثاثہ کی بنیاد پر۔ قدرتی طور پر ایک شخص یا سماجی گروہ (ذات) جس کی آمدنی زیادہ ہے، اس کے پاس زیادہ دولت کی بنیاد ہونی چاہیے۔ ریزرویشن کے مخالفین عام طور پر یہ بات کرتے ہیں کہ ذات پات پر مبنی ریزرویشن کا فائدہ کریمی لیئر چھین رہی ہے لیکن یہ بات آسانی سے بھول فراموش کر دی جاتی ہے کہ ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے اندر کچھ لوگوں کو کریمی لیئر کی نام نہاد حیثیت تک پہنچنے کے لیے بھی کئی نسلیں لگ گئیں! ۔ ای ڈبلیو ایس استفادہ کنندگان کی اہلیت نے اعلیٰ ذاتوں کے اندر 'کریمی لیئر' پر بحث کو غیر متعلقہ بنا دیا ہے۔

ایک طرف سپریم کورٹ کا ماننا ہے کہ ذات پات پر مبنی ریزرویشن ختم ہونا چاہیے اور دوسری طرف اسے یہ بھی لگتا ہے کہ اعلیٰ ذاتوں کا ایک طبقہ، جس کی آمدنی ایس سی-ایس ٹی-او بی سی سے قدردے زیادہ ہے، اسے ریزرویشن کی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی جانب سے 103ویں آئینی ترمیم کو برقرار رکھنے کے فیصلے نے یہ ناگوار حقیقت بھی ظاہر کی ہے کہ ایسے اہم معاملات پر بھی سپریم کورٹ کے ججوں کے 'متضاد ضمیر' ہو سکتے ہیں کہ کیا 'غیر آئینی' ہے اور کیا آئین کے 'بنیادی ڈھانچے کے خلاف' ہے! ترمیم کو برقرار رکھنے والے تین ججوں میں سے دو اپنی ترقی کے بعد سپریم کورٹ آنے سے پہلے گجرات ہائی کورٹ کے جج تھے۔ آئینی بنچ میں ایس سی، ایس ٹی یا او بی سی کا کوئی رکن نہیں تھا۔

معاشرے کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ ہمارے معاشرے میں ذات پات کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن حقائق اسے غلط ثابت کرتے ہیں۔ ’نوسرجن ٹرسٹ‘ کے 2010 کے چھواچھوت پر کیے گئے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندو ہونے کے باوجود 90.1 فیصد دیہات میں دلت مندروں میں نہیں جا سکتے اور 54 فیصد دیہات میں دلت سرکاری اسکولوں میں مڈ ڈے میل کے لیے الگ قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ این سی آر بی کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پہلی بار راجستھان ایس سی اور ایس ٹی دونوں پر مظالم کے معاملے میں دوسرے نمبر پر آیا ہے۔ تمام مطالعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آزاد ہندوستانی معاشرے میں امتیازی ذات پات کا نظام مضبوط ہوا ہے اور حیرت انگیز طور پر میٹروپولیٹن شہری علاقے بھی اس معاملے میں مستثنیٰ نہیں ہیں۔

ہندوستان میں ذات پات پر مبنی ریزرویشن کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی سائنسی اعداد و شمار موجود ہیں کہ ایسا ریزرویشن آئین کے بنیادی اصول کو یقینی بنانے کے لیے ضروری تھا کہ تمام شہری 'برابر' ہیں اور انہیں یکساں مواقع حاصل ہیں۔ ذات پات کے نظام سے پیدا ہونے والی سماجی 'معذوری'، خاص طور پر چھواچھوت، نے نہ صرف ایس سی اور ایس ٹی کی کم نمائندگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عدم مساوات کی بنیاد بنائی، بلکہ اس کے قائم رہنے کی بنیاد بھی بنائی۔


ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے لیے ریزرویشن کا تعین سخت معیار کے عمل کو پورا کرنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ کیا عام ذاتوں کے لیے ای ڈبلیو ایس ریزرویشن کے لیے وہی سخت معیار اور سائنسی ڈیٹا موجود ہے؟ کئی ریاستیں مقامی کمیونٹیز کے لیے بڑھے ہوئے کوٹے کا مطالبہ کر رہی ہیں لیکن ان کی درخواستوں کو سپریم کورٹ نے اس بنیاد پر بار بار مسترد کر دیا ہے کہ 50 فیصد کی حد کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔

پرائیویٹ سیکٹر کے لیے صرف ای ڈبلیو ایس کوٹہ ہی کیوں دیا گیا اور اس کے لیے 50 فیصد کیپ میں نرمی بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ کم از کم کچھ ایسا نظام آزمایا جانا چاہیے تھا کہ غیر محفوظ طبقاتی ذات کی نمائندگی 50 فیصد سے زیادہ نہ ہو جیسا کہ کولہاپور کے ترقی پسند بادشاہ شاہو مہاراج نے آزادی سے پہلے کیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اچھوت سمجھی جانے والی ذاتوں سے مذہب بدل کر عیسائی اور مسلمان بن جانے والوں کو بھی ریزرویشن کی سہولت ملتی۔

ہندوستانی پارلیمنٹ نے مختلف ریاستوں میں خاص طور پر پبلک سیکٹر کی بھرتیوں میں ایس سی اور ایس ٹی گروپوں کے لیے ریزرویشن پالیسی کے عدم نفاذ کے بارے میں بہت کم یا کوئی بحث نہیں دیکھی ہے۔ آزادی کے بعد ایس سی اور ایس ٹی کے حق میں زمینی اصلاحات کے انقلابی قوانین کے عدم نفاذ پر بہت کم بحث ہوئی ہے (سابق سوراشٹرا ریاست میں زمینی اصلاحات کا نفاذ پاٹیدار برادری کے حق میں مکمل ہو گیا تھا)۔ یہ ایک بہت اہم قدم سمجھا جاتا تھا جس کا مقصد پیداوار کے ذرائع کو دوبارہ تقسیم کرنا اور اس طرح ساختی اقتصادی عدم مساوات کو کم کرنا تھا۔

اور 1981، 1985 اور 1989 میں جب ملک بھر میں ریزرویشن مخالف پرتشدد فسادات پھوٹ پڑے تو گجرات بھی پیچھے نہیں رہا۔ دیگر ریاستوں کی طرح گجرات میں بھی ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن اور ایس سی-ایس ٹی کے خلاف مظالم کو روکنے کے قانون کے موضوع پر کئی سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کی گئیں۔ لیکن ای ڈبلیو ایس کوٹہ کے معاملے پر چہار سو ایک عجیب سی خاموشی ہے۔

آج ملک کے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا ہندوستان کبھی ذات پات اور چھواچھوت اچھوت سے پاک ملک ہو سکے گا؟ یا ڈاکٹر امبیڈکر کا ذات پات سے پاک سماج کا خواب اب نعرے کے طور پر بھی سیاسی گفتگو میں جگہ پانے کے قابل نہیں رہا؟

(مصنف انسانی حقوق کے لیے سرگرم زمینی سطح کی دلت تنظیم ’نوسرجن‘ کے بانی ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔