گجرات اسمبلی انتخاب: لوگوں میں بی جے پی اور ہندوتوا سیاست سے دلچسپی گھٹ رہی... ظفر آغا

بی جے پی گجرات چناؤ پارٹی کے نام پر نہیں بلکہ ’نریندر مودی‘ کے نام پر لڑ رہی ہے۔ پروپیگنڈہ ہے کہ مودی جی کے ہاتھ مضبوط کیجیے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ گجرات میں ہندوتوا کا اثر گھٹ رہا ہے

گجرات انتخابات کی تشہیر کاری / ٹوئٹر
گجرات انتخابات کی تشہیر کاری / ٹوئٹر
user

ظفر آغا

ان دنوں سارے ہندوستان کی نگاہیں گجرات پر لگی ہوئی ہیں، اور ہونی بھی چاہئیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ریاست گجرات، ان کا وطن گجرات۔ سنہ 2002 کے گجرات فسادات نے ہی مودی کو مودی بنا دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ گجرات ہی ہے جو ہندوتوا سیاست کی لیباریٹری رہا اور وہیں کی سیاست بعد میں سارے ہندوستان پر حاوی ہو گئی۔ اس لیے گجرات میں صوبائی چناؤ ہوں اور سارے ہندوستان کی نگاہیں گجرات کی طرف نہ ہو، یہ ممکن نہیں۔ ہر کوئی اسی انتظار میں ہے کہ دیکھیں گجرات کے نتائج کیا ہوں گے!

اس مضمون کے لکھے جاتے وقت گجرات میں پہلے راؤنڈ کی پولنگ ہو چکی تھی۔ دوسرا راؤنڈ باقی ہے۔ مگر گجرات چناؤ سے جو سیاسی اشارے مل رہے تھے وہ دلچسپ ہیں۔ ایک تو زیادہ تر سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ گجرات میں چناؤ میں بی جے پی کے لیے لوگوں میں وہ جوش و خروش نہیں دکھائی پڑا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ یہ بات پہلے راؤنڈ کی پولنگ گھٹنے سے ثابت ہوتی ہے۔ دوسری بات جو صاف دکھائی دے رہی ہے وہ یہ ہے کہ بی جے پی گجرات چناؤ ’بی جے پی‘ کے نام پر نہیں بلکہ ’نریندر مودی‘ کے نام پر لڑ رہی ہے۔ کھل کر یہ پروپیگنڈہ ہے کہ مودی جی کے ہاتھ مضبوط کیجیے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ گجرات میں ہندوتوا کا اثر گھٹ رہا ہے۔ تبھی تو چناؤ مودی جی کے نام پر ہو رہا۔ بلکہ ایک گجرات ہی کیا، ابھی ہماچل کے صوبائی چناؤ میں بھی بی جے پی مودی کے نام پر ووٹ مانگ رہی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ اس اتوار کو دہلی میونسپل الیکشن میں بی جے پی مودی کے نام پر ہی ووٹ مانگ رہی ہے۔ یعنی لوگوں میں بی جے پی اور اس کی ہندوتوا سیاست سے دلچسپی گھٹ رہی ہے۔ ہاں، مودی صاحب کی ذاتی ساکھ اب بھی برقرار ہے۔


دوسری بات جس کا گجرات چناؤ میں شور تھا، وہ یہ تھا کہ وہاں کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نمبر دو مقام پر ہے اور وہاں کانگریس کو عآپ سے گہرا جھٹکا لگنے والا ہے۔ گجراتیوں سے پہلے راؤنڈ کی پولنگ کے بعد بات کرنے سے یہ اندازہ ہوا کہ اس چناؤ میں بھی گجرات میں کانگریس پرٹی ہی نمبر ٹو پارٹی ہے۔ عآپ گجرات میں اپنی جگہ نہیں بنا پا رہی ہے۔ تیسری اہم بات جو کھل کر سامنے آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ گجراتی مسلمانوں نے ہمیشہ کی طرح بڑی تعداد میں جم کر کانگریس کو ہی ووٹ ڈالا ہے۔ دہلی میونسپل چناؤ میں بھی مسلم ووٹر کا رجحان کانگریس کی طرف ہے۔ یعنی مسلم ووٹر کانگریس کو ہی بی جے پی کا نعم البدل مان رہی ہے۔ عام مسلمانوں میں راہل گاندھی کے تئیں بہت احترام ہے۔ عموماً مسلم ووٹر یہی کہتا ہے کہ راہل گاندھی اکیلے ایسے لیڈر ہیں جو کھل کر بغیر کسی ڈر کے آر ایس ایس اور نریندر مودی سے لڑ رہے ہیں۔ اس کا فائدہ کانگریس پارٹی کو پارلیمانی چناؤ میں ہو سکتا ہے۔

یوں تو ابھی سے کچھ قطعی طور پر کہنا مشکل ہے، لیکن سڑکوں پر جو عوامی موڈ ہے اس سے یہ نظر آنے لگا ہے کہ پچھلے تقریباً آٹھ برسوں میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے جو عروج حاصل کیا وہ اپنی انتہا کو پہنچ کر اب گھٹنا شروع ہو گیا۔ سیاسی مبصرین کی زبان میں بی جے پی ملک میں پیک (بلندی) حاصل کر چکی اور اب وہ ابھی جہاں ہے وہاں سے اس کی تنزلی ہی ہوگی۔ عوام کو کانگریس کا دور یاد آ رہا ہے۔ پھر یہ بھی بات ہے کہ مسلم ووٹر کی دلچسپی کانگریس میں ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

--


الوداع بابائے ٹی وی صحافت پرنئے رائے!

لیجیے، ہندوستان کا واحد لبرل ٹی وی چینل ’این ڈی ٹی وی‘ کی ٹیم بھی اب بی جے پی کے گنگان کو تیار ہے۔ اس چینل کو قائم کرنے والے پرنئے رائے اور ان کی اہلیہ رادھیکا رائے نے این ڈی ٹی وی بورڈ سے استعفیٰ دے دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں، این ڈی ٹی وی کے مشہور و معروف ہندی اینکر رویش کمار بھی وہاں سے مستعفی ہو گئے۔ یعنی ہندوستان میں کم از کم ٹی وی نیوز چینل کی دنیا سے لبرل صحافت کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ ملک کی صحافت اور سیاست دونوں کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے۔ یعنی ان دنوں جیسے سیاست میں بی جے پی کا ڈنکا بج رہا ہے، ویسے ہی اب صحافت میں بھی بی جے پی کی پکڑ اور مضبوط ہو گئی۔

لیکن پرنئے اور رویش کمار کے ایک بڑے چینل سے چلے جانے سے ہندوستان میں معیاری سیاست کا بڑا دھکا لگا۔ سچ تو یہ ہے کہ پرنئے رائے نے پہلے انگریزی اور پھر ہندی چینل شروع کر ملک میں ٹی وی نیوز چینل کی داغ بیل رکھی اور ملک کو غیر سرکاری الیکٹرانک نیوز عطا کی۔ آج ہندوستان کی شاید ہی کوئی زبان ہو جس میں درجنوں چینل نہ چل رہے ہوں۔ اس کا سہرا پرنئے رائے کو جاتا ہے۔ دراصل پرنئے رائے بابائے ٹی وی صحافت ہیں۔ انھوں نے سنہ 1990 کی دہائی سے اب تک جس طرح این ڈی ٹی وی چلایا وہ یاد کیا جائے گا۔ رویش کمار جیسے بے باک صحافی کو این ڈی ٹی وی کا پلیٹ فارم اس مودی دور میں دینا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ اس کے لیے کلیجہ چاہیے، اور پرنئے رائے میں وہ ہمت اور جرأت تھی۔ حالانکہ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ این ڈی ٹی وی پر اڈانی گروپ کا قبضہ ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ پرنئے رائے نے تمام تر دباؤ کے بعد بھی رویش کمار کو اپنے چینل پر کھلی چھوٹ دی اور یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ رویش اب ہندوستانی صحافت کا ایک بلند و بالا نام ہیں۔ اس بات کا سہرا این ڈی ٹی وی کو ہی جاتا ہے۔ رویش تو جلد ہی اپنے یوٹیوب چینل پر نظر آئیں گے، لیکن پرنئے رائے جیسا قدآور بابائے ٹی وی نیوز کے لیے اب اس ملک میں صحافت کے دروازے کم و بیش ختم ہی سمجھیے۔ لیکن پرنئے کو ٹی وی صحافت کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ایسے شاندار صحافی کو میرا سلام۔ الوداع پرنئے رائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Dec 2022, 10:11 AM