کشمیر 2002 کا گجرات بن سکتا ہے!

2002 کا گجرات اب کشمیر میں دہرایا جائے گا تاکہ کسان، دلت ،نوجوان اور تاجر سب اپنے اپنے مسائل بھول کر مودی ’ہندو انگ رکشک‘ کے نام پر ووٹ ڈال دیں

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

آخر کشمیر میں گونر راج نافذ ہو ہی گیا۔ کشمیر کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہاں اب ساتویں بار گونر راج نافذ ہوا ہے ، ویسے بھی کشمیر کے حالات نا گفتہ بہہ ہیں۔ وادی کشمیر پر جب سے بی جے پی کا سایہ پڑا ہے تب ہی سے وہاں قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے ۔ پہلے تو مفتی سعید اور محبوبہ مفتی نے کشمیریوں کو دھوکا دیا۔ کشمیریوں نے جو ووٹ مفتی سعید کی پارٹی کو بی جے پی کو روکنے کے لئے دیئے تھے ،مفتی صاحب نے اس ووٹ کا استعمال بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملاکر حکومت بنانے میں کیا۔ پھر کشمیریوں کو سبق یہ پڑھایا کہ کشمیر میں باڑھ سے جو نقصان ہوا اس کی مدد کے لئے مرکز کی مدد چاہیے اس لئے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانا ضروری ہے۔ لیکن کشمیریوں کو ملا کیا! گولیاں اور پیلٹ گن سے آنکھوں کا اندھا پن ! پھر برہان وانی کی موت کے بعد سے تو مرکزی سیکورٹی فورسیز کا قہر ٹوٹ پڑا۔ کبھی کشمیری انتہا پسند وں نے سیکورٹی کو مارا تو کبھی سیکورٹی نے نوجوان کشمیریوں کی جان لی۔ اس لامتناہی سلسلے نے کشمیر کو جہنم بنا دیا اور آخر مرکزکی جانب سے گورنر راج نافذ ہوگیا۔

لیکن کشمیر میں یہ نوبت آئی کیوں! پہلی ذمہ داری تو پاکستان کی ہے۔ پاکستان نے کشمیرکو جان بوجھ کر اپنا میدان جنگ بنا لیا ۔ دراصل سن 1971 میں بنگلا دیش کی جنگ ہار کر پاکستانی فوج کو یہ بات باخوبی سمجھ میں آگئی کہ وہ ہندوستان سے جنگ نہیں جیت سکتا ہے اس لئے 1980 کی دہائی میں کشمیریوں کے ہاتھوں میں بندوقیں تھمادی۔ مرکزی حکومت سے ناراض کشمیری یہ سمجھ بیٹھا کہ بس اس کا مسئلہ حل ہوتا چلا جائے گا۔ ادھر ہندوستانی فوج کشمیر میں الجھ گئی ادھر کشمیریوں کے ہاتھوں میں موت آگئی۔ جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے اور کسی طرح حل ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ہماری مختلف مرکزی حکومتوں نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے نام پر اس قدر غلطیاں کی کہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے پیچیدہ ہوتا چلا گیا اور اب جو صورت حال ہے وہ جگ ظاہر ہے۔

لیکن مودی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے کچھ عرصے بعد مسئلہ کشمیر نے ایک نیا موڑ لے لیاہے جو انتہائی سنگین رخ اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بر سراقتدار آتے ہی پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا ۔ انہوں نے حلف لیتے وقت اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو دہلی بلایا، پھر وہ ایک بار خود چند گھنٹوں کے لئے پاکستان گئے۔ لیکن اس کا جواب پاکستان نے پٹھان کوٹ ہوائی اڈے پر دہشت گردانہ حملے سے دیا۔ مودی نے اس کا جواب دہشت گردوں کے اڈوں پر حملے سے دیا اور بس پھر اس کے بعد سے حالات ناگفتہ بہہ ہوتے چلے گئے۔

اب کشمیر نہ صرف ایک ٹیڑھی کھیر ہے بلکہ آثار یہ ہیں کہ سنگھ مودی کی قیادت میں بی جےپی کشمیر کو ایشو بنا کر 2019 کا لوک سبھا چناؤ جیتنے کے لئے کمر بستہ ہو رہی ہے۔ وہ کیسے! یاد رکھیے کہ مودی ’’ہم بنام تم‘‘ کی چناوی حکمت عملی پر چناؤ جیتنےمیں بادشاہ ہیں ۔اس حکمت عملی میں’ ہم ہندو اور تم مسلمان‘ ہوتا ہے۔یعنی مودی بہت خوبصورتی سے چناوی کمپین کو’ ہندو-مسلم ‘ فرضی جنگ میں بدل دیتے ہیں ۔ مثلاً ، گجرات فسادات کا مودی نے چناؤ کے لئے جو فائدہ اٹھایا اس سے سب واقف ہیں ۔ گجرات میں مسلم نسل کشی کے بعد مودی’ ہندو ہیرو ‘ہی نہیں بلکہ ہندو محافظ کے روپ میں ابھر ے جس نے گجرات میں مسلمانوں کا سر کچل کر ہندوؤں کی ’رکشا‘ کی اور اسی لئے ’ہندو انگ رکشک‘کے لقب سے خود کو نواز لیا اور اس طرح اس ہندو ہیرو نے گجرات میں تین اسمبلی چناؤ جیتے۔

کشمیر کارڈ سن 2019 کے لوک سبھا چناؤ میں مودی کے لئے وہی کام کر سکتا ہے۔ مودی سن 2014 کے چناؤ ترقی کے کارڈ پر لڑے تھے جبکہ سنگھ زمین پر ہندوؤں کو یہ باور کروارہی تھی کہ ’’دبنگ ‘‘ مودی ہی مسلمانوں کو سبق سیکھا سکتے ہیں،اب مودی کا ترقی کا کارڈ بالکل دھوکا ثابت ہوا ہے۔ کسان خودکشی کررہا ہے ، دلت ہر جگہ پٹ رہا ہے، نوجوان کونوکری نصیب نہیں، تاجر کو نوٹ بندی نے تباہ کر دیا۔ اس لئے اب مودی کے پاس محض ’ہندو-مسلم ‘ کارڈ ہی بچا ہے یعنی عام انتخاب میں ہندو کو کچھ ایسا سبق پڑھایا جائے کہ وہ اپنی تمام مصیبتیں بھول جائے اور مسلم منافرت میں آنکھ بند کر مودی کو پھر اپنا ’انگ رکشک‘ سمجھ کر ووٹ دےدے۔

کشمیر اس حکمت عملی کے لئے بہترین آمجگاہ ہے۔ کشمیر میں اس وقت بغاوت ہے ، روز سیکڑوں لوگ حکومت ہند کے خلاف سڑکوں پر نکل کر آزادی کے نعرے لگاتے ہیں، ادھر سرحد پار سے پاکستان آئے دن گولی باری کرتا ہے، ہمارے فوجی مارے جارہے ہیں اس پورے تناظر میں ’ کشمیری مسلمان‘ مرکزی کرادر ہے ۔ ادھر اسلامی ریاست پاکستان ہمارے فوجی یعنی’ ہندو‘ ہندوستان پر حملہ کر رہاہے۔ بس کشمیر میں جس قدر مارکاٹ ہوگی ، اس طرح باقی ہندوستان میں مودی اور سنگھ اس کو ہندو-مسلم کا رنگ دیں گے۔ آخر سیکڑوں کیا ہزاروں کی موت کے بعدیہ نعرہ چلے گا کہ مودی نے سرکش مسلمانوں کا سر کچل دیا اور اس طرح مودی ’ہندو انگ رکشک‘ بن جائیں گے۔ اس طرح سن 2002 کا گجرات اب کشمیر میں دہرایا جائے گا تاکہ کسان، دلت ،نوجوان اور تاجر سب اپنے اپنے مسائل بھول کر مودی ’ہندو انگ رکشک‘ کے نام پر ووٹ ڈال دیں ، ساتھ میں رام مندر کی تعمیر شروع کرواکر اس حکمت عملی پربگھار لگا دی جائے گی۔

یہ ہے اس وقت مسئلہ کشمیر کا حل جو مودی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لئے استعمال کرنے کے کام آسکتاہے۔ میری دعا ہے کہ میرا مضمون غلط ثابت ہو ، کیونکہ اس آڑ میں بے حد خون بہے گااور سارا ہندوستان منافرت کی آگ میں جھلس اٹھے گا۔ مگر آثار پرخطر ہیں اور کشمیر جنت سے جہنم کی کگار پر ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔