’گرین پٹاخے‘ محض ایک دھوکہ، ایک بار پھر دہلی-این سی آر میں دیوالی پر نظر آئے گا دھواں ہی دھواں!

گرین پٹاخوں میں عام پٹاخوں والے کیمیکلز کی مقدار کم ہوتی ہے، یا ان میں کم مضر مرکبات کا استعمال ہوتا ہے، لیکن آلودگی تو ان سے بھی پھیلتی ہی ہے۔

پٹاخے، تصویر آئی اے این ایس
i
user

پنکج چترویدی

سپریم کورٹ نے دہلی-این سی آر میں اس بار دیوالی کے دوران 5 دنوں کے لیے گرین پٹاخوں سے آتش بازی کی اجازت دے دی ہے۔ یہ ’گُڑ کھا کر گلگلے سے پرہیز‘ کرنے سے زیادہ کچھ نہیں۔ گرین پٹاخے روایتی پٹاخوں سے کچھ ہی کم نقصاندہ ہیں۔ یہ صرف نمائش والی بہتری ہے، مسئلہ کا حقیقی حل نہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انتظامیہ رسمی جانچ پڑتال ہی کر پاتی ہے اور گرین پٹاخوں کے نام پر اکثر لیبل لگا کر روایتی پٹاخے ہی فروخت کیے جاتے ہیں۔ کئی علاقوں میں ابھی سے عام پٹاخے فروخت ہونے کی خبریں میڈیا میں آ رہی ہیں۔

ویسے دیوالی پر پٹاخہ جلانے اور آتش بازی کرنے کی بات کو روایت اور ثقافت سے جوڑنے والے لوگ بھی یہ نہیں بتا پاتے کہ آخر اس کی شروعات کب ہوئی تھی۔ کسی کے بھی استقبال میں دیے سجانے اور لمبے لمبے بانسوں پر قندیل جلانے کے ذکر تو ملتے ہیں، لیکن آتش بازی کے ثبوت نہیں ملتے۔ پھر بھی، اسے ثقافت سے جوڑ دیا گیا ہے۔


صرف نام کے ہوتے ہیں گرین پٹاخے

گرین پٹاخے محض نام کے ہی ’گرین‘ یعنی سبز ہوتے ہیں۔ عام پٹاخوں میں بیریم نائٹریٹ، سلفر، ایلومینیم اور پوٹیاشیم نائٹریٹ جیسے کیمیکلز ہوتے ہیں جو جلنے پر زہریلی گیسیں چھوڑتے ہیں۔ گرین پٹاخوں میں انہی کیمیکلز کی مقدار کم رکھی جاتی ہے یا کچھ جگہ ان کی جگہ کم نقصاندہ مرکبات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ انہیں حکومت ہند کے سائنسی ادارے سی ایس آئی آر (سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کونسل) اور نیری (نیشنل انوائرمنٹل انجینئرنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ) نے تیار کیا ہے تاکہ روایتی پٹاخوں کے مقابلے میں 30 فیصد تک کم آلودگی ہو۔

گرین پٹاخے 3 قسم کے تیار کیے گئے: پہلا ہے ’سواس‘ یا ’سیف واٹر ریلیزر‘۔ یہ جلنے پر پانی کی بھاپ چھوڑتے ہیں جو دھول کے ذرات کو دبانے میں مدد کرتی ہے۔ اس میں سلفر اور پوٹا‌شیم نائٹریٹ کا استعمال نہیں ہوتا۔ دوسرا ہے ’اسٹار‘، جسے ’سیف تھرمائیٹ کریکر‘ کہا جاتا ہے۔ ان میں پوٹا‌شیم نائٹریٹ اور سلفر نہیں ہوتا۔ یہ کم شور کے ساتھ ’پی ایم‘ ذرات کو کم خارج کرتے ہیں۔ تیسرا ہے ’سفل‘ یعنی ’سیف منیمم ایلومینیم‘، جس میں روایتی پٹاخوں میں استعمال ہونے والے ایلومینیم کی مقدار بہت کم رکھی جاتی ہے، یا اس کی جگہ میگنیشیم جیسے متبادل کا استعمال ہوتا ہے۔


پالیسی بنی، نگرانی نہیں ہوئی

چونکہ اس طرح کے پٹاخے بنانا کچھ مہنگا ہوتا ہے، اس لیے بیشتر بازار میں صرف لیبل لگا کر روایتی پٹاخے ہی فروخت کیے جاتے ہیں۔ 2018 میں سپریم کورٹ نے روایتی پٹاخوں پر پابندی لگا کر صرف گرین پٹاخوں کی اجازت دی تھی۔ تب سے یہ پٹاخے بازار میں فروخت ہو رہے ہیں۔ لیکن سی ایس آئی آر اور نیری کی رپورٹ کے مطابق 2023 میں فروخت ہونے والے تقریباً 70 فیصد گرین پٹاخے اصلی نہیں تھے۔ یعنی پالیسی بنی، لیکن نگرانی نہیں ہوئی۔

گرین پٹاخوں میں چاہے بیریم نہ ہو، لیکن امونیم اور ایلومینیم مرکبات کے جلنے سے نکلنے والے باریک ذرات بدستور موجود رہتے ہیں۔ یہ ذرات جسم میں جا کر پھیپھڑوں میں سوزش، سر درد اور سانس لینے میں دشواری جیسی تکالیف پیدا کرتے ہیں۔ گرین پٹاخوں میں پوٹا‌شیم نائٹریٹ، امونیم نائٹریٹ اور ایلومینیم پاؤڈر کا استعمال ہوتا ہے، اور ان کے جلنے سے بھی نائٹروجن آکسائیڈ اور ایلومینیم آکسائیڈ پیدا ہوتے ہیں جو پھیپھڑوں، آنکھوں اور جلد کے لیے نقصان دہ ہیں۔ امونیم نائٹریٹ کئی ملکوں میں دھماکہ خیز مواد کے طور پر ممنوع ہے۔


گرین پٹاخے بھی بڑھاتے ہیں فضائی اور صوتی آلودگی

پٹاخے ہوں یا کوئی بھی جلنے کا عمل، اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسوں کا اخراج ہوتا ہی ہے۔ گرین پٹاخوں میں بھی جلنے کے لیے استعمال ہونے والے مواد سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹرس آکسائیڈ جیسی گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں۔ ہاں، یہ روایتی پٹاخوں سے تقریباً 30 فیصد کم ہے۔

دہلی، چنئی اور حیدرآباد میں گزشتہ چند برسوں میں کیے گئے تجربات میں پایا گیا کہ گرین پٹاخے بھی ’پی ایم 2.5‘ اور ’پی ایم 10‘ ذرات کی سطح 20 سے 25 فیصد تک بڑھا دیتے ہیں۔ دیوالی کی شب اور اگلے دن شہروں کی فضا میں دھول، دھواں اور گیسیں ویسی ہی گھٹن پیدا کرتی ہیں جیسی عام پٹاخوں سے ہوتی ہے۔ گرین پٹاخوں سے نکلنے والا دھواں بھی پھیپھڑوں اور آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ چاہے گرین پٹاخے آلودگی میں کچھ کمی لاتے ہوں، لیکن شور کی شدت کم نہیں ہوتی۔ ان کا شور 110 سے 125 ڈیسی بل تک درج کیا گیا ہے، جبکہ قانونی حد 90 ڈیسی بل ہے۔ بچوں اور بزرگوں کے لیے یہ شور بھی اتنا ہی نقصاندہ ہے جتنا پرانے پٹاخوں کا تھا۔


متضاد ہے گرین پٹاخوں کا تصور

کئی ماحولیاتی ماہرین نے ’گرین کریکرز‘ کے تصور کو ہی متضاد قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گرین پٹاخوں سے آلودگی کم تو ہوتی ہے، لیکن اگر انہیں بڑی مقدار میں جلایا جائے تو ہوا کے معیار پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ چاہے گرین پٹاخے کچھ زہریلی گیسوں کا اخراج کم کرتے ہوں، پھر بھی یہ انتہائی باریک مضر ذرات اور گیسیں چھوڑتے ہیں جو انہیں ’محفوظ‘ کے بجائے صرف ’کم نقصان دہ‘ بناتے ہیں۔ نیری کے نمونوں کی کیمیائی جانچ میں پایا گیا کہ گرین پٹاخوں سے نکلنے والے دھوئیں میں سوڈیم، ایلومینیم، میگنیشیم، اسٹرونشیم اور کاپر آکسائیڈ جیسے ذرات موجود ہیں۔ یہ ذرات سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں جا کر آکسیڈیٹیو اسٹریس اور ڈی این اے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔

ایک کلو گرین پٹاخے کے جلنے سے تقریباً ڈیڑھ کلو کاربن ڈائی آکسائیڈ، 200 گرام نائٹرس آکسائیڈ اور امونیا و کلورائیڈ گیسیں خارج ہوتی ہیں، جو فضا میں جا کر ایسڈ رین (تیزابی بارش) کا امکان بڑھاتی ہیں۔ یعنی ’گرین‘ ہونے کے باوجود یہ گیسیں آب و ہوا کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس لیے گرین پٹاخے دکھاوے کی بہتری ہیں، اصلی حل نہیں۔


گزشتہ سال عبور کر گیا تھا آلودگی کا ’ایمرجنسی لیول‘

گزشتہ سال ہی لاکھ پابندیوں کے باوجود دہلی میں 31 اکتوبر، یعنی دیوالی کے دن شام 6 بجے ایئر کوالٹی انڈیکس 300 سے تجاوز کر گیا تھا۔ رات دس بجے یہ 330 اور نصف شب کو مختلف مقامات پر 550 سے 806 تک پہنچ گیا۔ غازی آباد شہر میں یہ 893 اور غازی آباد کے علاقہ ویشالی میں 911 تھا، جسے ’ہنگامی حالت‘ کہا جاتا ہے۔ لوکل سرکل نامی ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم نے اسی وقت 21 ہزار لوگوں کے سروے کے بعد اعداد و شمار جاری کیے تھے کہ اس رات دہلی-این سی آر میں 69 فیصد لوگوں کو گلے میں خراش یا کھانسی کی شکایت ہوئی، جبکہ 62 فیصد لوگوں نے آنکھوں میں جلن کی شکایت کی۔ سانس لینے میں دشواری یا دمہ کے کیسز 34 فیصد سے تجاوز کر گئے تھے۔

ایمز کے سابق پھیپھڑا ماہر، پی ایس آر آئی انسٹی ٹیوٹ آف پلمنری، کرٹیکل کیئر اینڈ سلیپ میڈیسن کے چیئرمین اور گلوبل ایئر پولیوشن اینڈ ہیلتھ ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ کے رکن پروفیسر (ڈاکٹر) جی. سی. کھلنانی کے مطابق ایک آتش بازی سے تقریباً 450 سگریٹ کے برابر دھواں نکلتا ہے۔ 3 منٹ تک جلنے والی سانپ والی گولی 64500 ’پی ایم 2.5‘ خارج کرتی ہے، 6 منٹ جلنے والی ایک ہزار پٹاخوں کی لڑی سے 38450 ’پی ایم 2.5‘ ذرات نکلتے ہیں۔ سب سے مقبول پھلجھڑی 2 منٹ میں روشنی دے کر 10,390 باریک زہریلے ذرات خارج کرتی ہے۔

کیا روایت اور تہوار کے نام پر اپنے ہی سماج کو اس طرح بیمار کرنا کسی کا مقصد ہو سکتا ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔