عظمت و فلسفہ شہادت امام حسین

محرم سنہ 61 ھ میں کربلا کی زمین میں خانوادۂ رسول کا جذب ہونے والا پاکیزہ لہو دراصل شفق پر سرخی بن کر چھا گیا۔ اس معطر لہو کی مہک دو عالم میں پھیل گئی۔ صدیاں بیت گئیں لیکن حسین کا غم بدستور تازہ ہے۔

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں آرزوئے شہادت اپنے کمال پر تھی۔ آپ اللہ کے حضور دست بہ دعا رہتے اور فرماتے کہ میری شدید آرزو ہے کہ میں اللہ کی راہ میں شہید کردیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں۔ اسی طرح اللہ کی راہ میں جان ملتی رہے اور میں جان دیتا رہوں۔ گویا آقائے دوجہاں نے ظاہری حیات میں اپنی شہادت کی آرزو اتنی شدت سے کی اور اس کا اظہار کیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ جوہر شہادت حضور میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا تھا لیکن ظاہری شہادت ممکن نہ تھی، اگر کوئی بدبخت حضورکو شہید کردیتا تو ارشادِ خداوندی کی تکذیب ہوجاتی۔

اس آرزوئے شہادت کی ابتدا حضور کی زندگی میں غزوۂ احد میں ہوئی جب حضور پر سنگ زنی کی گئی۔ شہادت کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ دشمن اپنے ہتھیار سے حملہ آور ہو اور انسان زخمی ہوجائے اور اس کے جسم سے خون بہنے لگے اور آخری شکل یہ ہے کہ اس شہادت میں موت واقع ہوجائے۔ میدان احد میں دشمن نے حضورپر نیزے سے بھی حملہ کیا اور پتھروں سے بھی جس سے دندان مبارک شہید ہوئے اور رخسارِ مبارک سے خون بھی بہا۔ تو ہیئت شہادت کی چار شکلوں میں تین پوری ہوگئیں۔ دشمن کا حملہ، رخساروں کا زخمی ہونا اور خون بہنا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غشی کی حالت طاری ہوگئی جس سے دشمنوں کو یہ افواہ اڑانے کا موقع بھی ملا کہ حضور شہید ہوگئے۔ یہ محض افواہ ہی رہی اور اب صرف شہادت یعنی چوتھی شرط انتہائے شہادت کی باقی رہ گئی۔

عظمت و فلسفہ شہادت امام حسین

اس انتہائے شہادت کی تکمیل کے لئے حضرت امام حسین علیہ السلام کو منتخب کیا گیا۔ جو ظاہراً بھی شبیہ مصطفی بنائے گئے اور باطناً بھی شبیہ مصطفی ۔ احادیث مبارکہ میں کثرت سے مذکور ہے کہ حضور نے فرمایا کہ میں حسین کا مظہر ہوں اور حسین میرا مظہر ہے۔ آپ نے باطناً اور ظاہراً حسین سے مشابہت بیان فرمادی۔تاریخی کتب میں حضور کا یہ فرمان ملتا ہے کہ حسین مجھ سے ہے۔ اب جز اپنے کل اور بیٹا اپنے باپ سے ہوتا ہے مگر حضور کا یہ فرمان کہ میں حسین سے ہوں اس کا کیا معنی ہے اور مصطفی کیسے حسین ہوگئے ؟ حسین مجھ سے ہے اس کا معنی یہ ہے کہ حسین کے اندر جو کمال موجود ہے اس کا مظہر میں ہوں یعنی حسین کے اندر پائی جانے والی عظمت کا منبع میں ہوں۔ حسین کے اندر جو حسن و جمال کمال اور کرامت ہے اس کا مصدر اور سرچشمہ میں ہوں۔ میں حسین ہوں کا معنی یہ ہے کہ میری سیرت کا جو اظہار ہے اس کا کمال حسین سے ہے۔ جس طرح حسین نے مجھ سے کمال لیا ہے میری سیرت کے ایک باب کی تکمیل جو ابھی باقی ہے وہ حسین کی شہادت سے مکمل ہوگی اور اس طرح میری سیرت کا وہ باب بھی مکمل ہوجائے گا جوظاہری شہادت نہ ہونے کی وجہ سے تشنہ تکمیل ہے۔ گویا میری شہادت کا ظہور عملی صورت میں شہادتِ حسین سے ہوگا۔

اسی طرح شہادت حسین سے چاروں شرطیں پوری ہوگئیں اور آخری شکل جو وفات کی صورت میں ہونا باقی تھی وہ بھی مکمل ہوگئی۔ اللہ رب العزت نے ظاہراً و باطناً امام حسین کو شبیہ بنا کر جس شہادت کی ابتدا میدان احد سے کی اس کی تکمیل میدان کربلا میں کردی۔ شہادت حسین کا اعلان خود رسول اسلام نے اپنی زبان مبارک سے کردیا۔شہادت حسین کا جو باب کربلا کی زمین پر رقم ہوا اس سے سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ باب جو ابھی نا مکمل تھا تکمیل پذیر ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ شہادت امام حسین کو ابدالاباد تک موجود رہنے والی شہرت اور دوام نصیب ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں دوسروں کی شہادت ان کی اپنی شہادت ہے۔ امام حسین کی شہادت ان کی اپنی شہادت نہیں بلکہ خود مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت ہے۔

رسولِ اکرم کے اس دنیا سے رحلت کر جانے کے محض50سال کے اندر اندر آپ کے خون پسینے سے سینچے گئے دین خدا کے نوزائیدہ گلشن پر وحشیانہ حملے ہوئے اور تدریجاً دین اسلام پر ایسا برا وقت آن پڑا کہ اس کی ڈوبتی نبضوں کو سنبھالا دینے کے لئے نواسۂ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کو حتمی اور آخری اقدام کے طور پر اپنا، اپنے اہل و عیال اور اپنے رفقاءکا خون عطیہ کرنا پڑا۔ محرم سنہ 61 ھ میں کربلا کی زمین میں خانوادۂ رسول کا جذب ہونے والا پاکیزہ لہو دراصل شفق پرسرخی بن کر چھا گیا اور اس معطر لہو کی مہک دو عالم میں پھیل گئی۔ صدیاں بیت گئیں لیکن حسین کا غم بدستور تازہ ہے۔

یہ دراصل اس جنگ کا تسلسل ہے جو روزِ ازل سے رحمٰن و شیطان کے درمیان شروع ہوئی اور روز حشر تک جاری رہے گی۔ اس جنگ کا عروج 10 محرم الحرام 61ھ کو کربلا کے میدان میں ہوا، جب حق اور باطل ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئے ۔یہاں فتح و شکست کے معنی ہی بدل گئے۔ ایسا عجب معرکہ ہوا کہ ہر قسم کا اسلحہ اپنی بھرپور قوت دکھا کر بھی شکست خوردہ رہا اور بہتا ہوا لہو شمشیر پر غالب آگیا۔یہ ایسی جنگ تھی جس کے بظاہر فاتحین اپنے مفتوحین کے سروں سے سجے پرچم اٹھا کر اپنی فتح کا اعلان کرنے چلے لیکن انہی مقدس سروں کے وارث کچھ بے ردا سروں والی عفت مآب ہستیوں نے فتح کا اصل معنی سارے جہان کو کچھ اس انداز میں سمجھانا شروع کیا کہ دنیا کو یزیدیت کا اصل چہرہ دکھائی دینے لگا اور جس کی قسمت یاور رہی، وہ حسین علیہ السلام کا عزادار بنتا چلا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Sep 2018, 7:33 AM