سرکاری مشینری پنڈت نہرو کو تاریخ کا ویلن ثابت کرنے میں مصروف، میڈیا بھی کھڑا کر رہا جھوٹ کا پلندہ... پرشوتم اگروال

پنڈت نہرو نے کسی بھی طرح کی فرقہ واریت (ہندو، مسلم، سکھ عیسائی) کی مخالفت صرف ’سیکولرزم‘ کی بنیاد پر نہیں کی، بلکہ ’انڈین نیشنلزم‘ کے نظریاتی بنیاد پر انھوں نے فرقہ واریت کا سختی کے ساتھ سامنا کیا۔

پنڈت نہرو، تصویر آئی اے این ایس
پنڈت نہرو، تصویر آئی اے این ایس
user

پرشوتم اگروال

تمام تجزیہ کار بھی 2014 کے انتخابات کی اہمیت کو سمجھ سکنے میں ناکام رہے تھے۔ یہ صرف اقتدار کی تبدیلی نہیں تھی، یہ وزیر اعظم مودی کے ہی الفاظ میں آر ایس ایس کی پانچ نسلوں کے ذریعہ کی گئی سخت محنت کا نتیجہ تھا۔ تب سے ساری سرکاری مشینری، اداروں اور بغیر ریڑھ کی میڈیا کو اس کام میں لگا دیا گیا ہے جس کا طریقہ ہے آئینی اداروں کو بے وقار کرنا، ہر طرح کے احتجاج کو دبانا یا زبردستی خاموش کر دینا اور الیکٹرانک و سوشل میڈیا کے ذریعہ سے جھوٹ کی بارش کرنا، اور ان سارے کاموں کا ایک ضروری حصہ نہرو کو تاریخ کا ویلن ثابت کرنا ہے۔

2014 کے عام انتخاب کے نتائج نے بی جے پی کو اپنے دم پر مکمل اکثریت دی۔ ہندوتوا کے بانی ونایک دامودر ساورکر کے الفاظ میں یہ ’مجموعی سیاست کے ہندوکاری‘ کے سفر کا ایک اہم اسٹاپیج یعنی ٹھہراؤ تھا۔ ساورکر ’ہندوتوا‘ اور ’ہندواِزم‘ (ہندو مذہب) میں فرق کرتے تھے۔ ان کے مطابق ہندوتوا کا مطلب ہندو مذہب نہیں ہے کیونکہ ہندو مذہب یا ہندواِزم تو ’ایک محدود، کند اور پنتھ نما‘ لفظ ہے۔ ساورکر کا مقصد لوگوں کو زیادہ مذہبی یا زیادہ وطن پرست بنانا نہیں بلکہ ہندو وطن پرست بنانا تھا۔ آر ایس ایس اور پوری آر ایس ایس فیملی گزشتہ ’پانچ نسلوں‘ سے اسی کام میں لگی رہی ہے۔ ان کا اصل ہدف نہ ہندو مذہب ہے، نہ نیشنلزم، ان کا مقصد ساری سرکاری مشینری کو ہندوتوا نظریات کی بالادستی والے ہندوستان کی تعمیر میں لگانا ہے جو کہ لازمی طور پر ایک جمہوری ہندوستانی نیشنلزم کے نظریات کے خلاف ہے۔ نہرو اس ہدف کو حاصل کرنے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں کیونکہ ان کی ’بھارت ماتا‘ آر ایس ایس فیملی کی بالادستی والی ’بھارت ماتا‘ کی سوچ کے سامنے بہت بڑا چیلنج ہے۔


ہماری تحریک آزادی اس معنی میں اہم تھی کیونکہ اس نے حب الوطنی، سرمایہ دارانہ نظام مخالف جذبات کی بنیاد پر ایک جمہوری، مجموعی نیشنلزم کی تعمیر کی۔ مشہور سماجی مصلح اور مجاہد آزادی دادا دھرمادھیکاری نے اس نیشنلزم کو ’انسانی ہندوستانیت‘ یا ’رحم دل ہندوستانی نیشنلزم‘ کہا تھا۔ مخالفین اور فرقہ وارانہ طاقتوں نے اس مجموعی نیشنلزم کی ہمیشہ مخالفت کی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ نہرو اور ہماری تحریک آزادی کے دیگر لیڈروں نے فرقہ پرستی کے برعکس اپنے مجموعی نیشنلزم کو رکھا- فرقہ واریت، چاہے ہندو فرقہ واریت ہو یا مسلم فرقہ وواریت ہو، یا کوئی بھی دیگر۔ وہ نیشنلزم سے ہٹے نہیں بلکہ لوگوں کو انسانی ہندوستانیت کی شکل میں نیشنلزم کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ ہندوتوادیوں کے ذریعہ سب سے زیادہ نہرو کو ہی بھلا برا کہا گیا ہے کیونکہ یہ نہرو ہی تھے جن کے پاس ایک تاریخی موقع اور ذمہ داری تھی، جس کو انھوں نے بہت کامیابی کے ساتھ نبھائی بھی کہ انھوں نے ہندوستانی عوام کے اندر کی حب الوطنی کے جذبہ کو انسانی ہندوستانیت میں تبدیل کر کے ایک جدید ہندوستانی نیشنلزم کو ادارہ کی شکل دی- ایسا ہندوستانی نیشنلزم جو کہ مستقبل کو روشن کرنے والا اور جدید تو تھا ہی، ساتھ ہی ساتھ جس کی ہندوستانی روایت اور وراثت میں گہری جڑیں بھی تھیں۔ ایک ایسا نیشنلزم جو کہ سب کو ساتھ لے کر چلنے والا مثبت، قومی مفادات کو بالاتر رکھنے والا اور قابل فخر بھی تھا۔ نہرو نے اس وقت کے ان سبھی ملکی و غیر ملکی سیاسی پنڈتوں کی مایوس کن پیشین گوئیوں کو بے معنی ثابت کر دیا جو سمجھتے تھے کہ ہندوستان ایک ملک کبھی بن ہی نہیں سکتا۔

ہندوتوادیوں کے نظریہ میں نہرو کا اصل جرم یہ تھا کہ انھوں نے مضبوط عزائم کے ساتھ روشن خیال نیشنلزم کے نظریہ کو عملی شکل دی۔ ہندوتوا کے پیروکار اچھی طرح جانتے ہیں کہ بغیر نہرو کی یادوں اور شبیہ کو مٹائے، بغیر نہرو کی عظیم شخصیت کا قد گرائے، بغیر ہندوستانی عوام کے دماغ پر نہرو کے نقش کو ہٹائے وہ اپنے ہندوتوادی پروجیکٹ میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔


یہ بالکل صاف کہنے کی ضرورت ہے کہ نہرو کو بھلا برا کہنے والے ٹرولس اور ان کے سیاسی آقاؤں کے لیے معاملہ صرف ایک شخص کی شکل میں نہرو کو ’مٹانے‘ بھر کا نہیں ہے۔ واقعی میں جو آئیڈیا آف انڈیا نہرو نے ملک کو دیا، اسے تباہ کرنا ان کا اصل مقصد ہے۔ سبھی جمہوریت پسند شہریوں کو یہ سوال خود سے پوچھنا ہوگا کہ ملک کی مجموعی، روشن خیال اور صحیح معنوں میں جدید سوچ، جسے ’نہرووین آئیڈیا آف انڈیا‘ کہا جاتا ہے، بچا کر رکھنے اور زیادہ مضبوط کرنے لائق ہے یا نہیں؟

2017 کے آخر میں بی جے پی آئی ٹی سیل کے چیف امت مالویہ نے ایک ٹوئٹ کر کے کچھ تصویریں جاری کیں جن میں جواہر لال نہرو الگ الگ خواتین کے ساتھ تصویر میں تھے تاکہ انھیں عیاش دکھایا جا سکے۔ ان 9 تصویروں میں سے تین میں نہرو اپنی بہن وجئے لکشمی پنڈت کو گلے لگائے ہوئے ہیں اور ان کی بھانجی نین تارا انھیں گال پر چوم رہی ہیں۔ چوتھی تصویر میں وہ اپنی خاندانی دوست مرنالنی سارابھائی کو ان کے کلاسیکل ڈانس پرفارمنس کے بعد مبارکباد دے رہے ہیں۔ باقی تصویروں میں وہ عوامی سطح پر لوگوں اور سرکاری مہمانوں، مثلاً جیکی کینیڈی اور ماؤنٹ بیٹن کی چھوٹی بیٹی پامیلا کے ساتھ ہیں۔


آر ایس ایس، بی جے پی اور ان کے نظریاتی قریبیوں نے اِدھر یہ محسوس کیا کہ وہ گاندھی، پٹیل، بوس اور امبیڈکر کو عوامی طور پر بھلا برا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ان کو گرا ہوا بتا سکتے ہیں، اس لیے ان لوگوں نے انھیں ہتھیانے کی کوشش شروع کی۔ لیکن نہرو ہندو جنوب پتھ کے لیے بحران بنے ہوئے ہیں۔ اپنی موت کے 50 سال بعد بھی انھیں نہرو کے ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کیونکہ نہرو مدلل اور جدیدیت پسند تھے اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستانی روایت اور ثقافت میں پوری طرح موجود تھے۔ اسی لیے عوام کے درمیان ان کا اثر مشتبہ ہے۔ نام نہاد ’ملحد‘ اور ’مغربی راستے کے حمایتی‘ (حالانکہ ان کے حامی اور مخالفین دونوں ان باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں) ہونے کے باوجود ان کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ وہ پشتہ اور بڑے کارخانوں کو ’جدید ہندوستان کے مندر‘ کہہ سکتے تھے اور اس سے کسی کے بھی جذبات مجروح نہیں ہوتے تھے۔ وہ کھلے عام ہندو اور مسلم شدت پسندوں کے خطرات کے بارے میں بول سکتے تھے اور پھر بھی تمام طبقات و برادری میں مقبول رہ سکتے تھے۔

اگرچہ نہرو کے بارے میں یہی سوچ ہے کہ وہ مذہب اور مذہبی رجحانات کے تئیں دور ہی رہے اور اس بات پر ہمیشہ زور دیتے رہے کہ ’ملک کو مذہبی جذبات کی جگہ سیاسی اصولوں کی بنیاد پر چلنا چاہیے‘، پھر بھی نہرو کو اپنے مذہبی ملکی باشندوں کا خوب بھروسہ اور احترام ملا۔ آج بھی وہ عقیدت اور اچھی یادوں کے ذرائع بنے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جیسے جیسے ہندوستان میں نوجوان نسل کی تعداد بڑھی ہے اور تحریک آزادی و آزادی کے بعد کی شروعاتی دہائیوں کی یادیں دھندلی ہوئی ہیں، تو ایسے ماحول میں نہرو سے نفرت کی مہم اس حد تک کامیاب بھی ہوئی ہے کہ عام لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ نہرو کو ہندوستانی ثقافت کی جانکاری نہیں تھی، یا ان کے ذہن میں ہندو مذہب کے تئیں حقارت تھی، یا یہ کہ وہ عام طور سے مذہب کے خلاف تھے۔


نہرو ’ڈسکوری آف انڈیا‘ (1945) میں مذہب کے بارے میں اپنی سمجھ کو تفصیل سے پیش کرتے ہیں جو انھوں نے اپنی خود نوشت (1936) میں گاندھی جی کے چھوا چھوت کے خلاف ہڑتال کے ضمن میں ظاہر کیا تھا۔ وہ ان اندھی تقلید والی رسموں اور ’بنیادی عقائد‘ اور ’غیر دانشمندانہ عقائد‘ کے بارے میں عدم دلچسپی والے انداز میں لکھتے ہیں جو کہ اکثر مذہب کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی نشان زد کرتے ہیں کہ ’’مذہب نے انسانی فطرت کی کچھ گہری ضرورتوں کو پورا کیا ہے اور ساری دنیا میں، بہت زیادہ کثرت سے، لوگ بغیر مذہبی عقیدے کے رہ نہیں سکتے۔ اس نے بہت سے اونچے درجہ کے مردوں اور عورتوں کو پیدا کیا ہے اور ساتھ ہی تنگ نظر اور ظالم لوگوں کو بھی۔ اس نے انسانی زندگی کو کچھ زندگی کے اقدار دیئے ہیں اور اگرچہ ان اقدار میں سے کچھ آج کے زمانے پر نافذ نہیں ہیں بلکہ اس کے لیے نقصان دہ بھی ہیں۔ دوسری ایسی بھی باتیں ہیں جو اخلاقی اور اچھے سلوک کے لیے بنیادی عنصر ہیں۔‘‘ (دی ڈسکوری آف انڈیا، صفحہ 13)

مذہب کی ایسی گہری سمجھ کی بنیاد اس نظریہ میں ہے کہ ’زندگی وہاں تک محدود نہیں جہاں تک ہم خود کو نظر آنے والے وقت اور تعطیل میں دیکھ پاتے ہیں۔ زندگی اس اَن دیکھی دنیا کو لگاتار چھوتی چلتی ہے جس میں شاید زیادہ ٹکاؤ یا اتنے ہی متبادل عنصر موجود ہیں۔ کوئی بھی بانظریہ انسان اس اَن دیکھی دنیا کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ اس نظریہ کے ساتھ ساتھ نہرو زندگی میں رازوں اور ’انجانی گہرائیوں‘ کو بھی محسوس کرتے ہیں، یہ مانتے ہوئے کہ انھیں سمجھا سائنسی طریقے سے ہی جا سکتا ہے۔


ہندوتوادیوں کے برعکس نہرو ہندوستانی ثقافت اور روایات کی ایک سچی اور پختہ سمجھداری بھری سوچ سے بھرے ہوئے تھے۔ مذہبی شناختوں کے سیاسی استعمال کو نہرو بالکل برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ انھوں نے سیاسی اقتدار کے لیے مذہب کے استعمال کی، یعنی فرقہ وارانہ سیاست کی ہمیشہ مخالفت کی۔ یہ یاد رکھنا بے حد ضروری ہے کہ نہرو نے کسی بھی طرح کی فرقہ واریت (ہندو، مسلم، سکھ عیسائی) کی مخالفت صرف ’سیکولرزم‘ کی بنیاد پر نہیں کی، بلکہ ’انڈین نیشنلزم‘ کے نظریاتی بنیاد پر انھوں نے فرقہ واریت کا سختی کے ساتھ سامنا کیا۔ ہندوستانی نیشنلزم، جو کہ تنوع کو قبول کرتا تھا اور جذباتیت کا پسارا نہیں تھا۔ نہرو عالمی سیاست پر گہری نگاہ رکھتے تھے، ساتھ ہی اخلاقی قدروں کے تئیں بھرپور عقیدہ والی انسانیت ان کی سوچ میں گہرائی کے ساتھ موجود تھی۔ اسی لیے اپنے دیگر بہت سے ہم عصر لوگوں کے مقابلے ہٹلر اور مسولنی کے نیشنلزم کی جذباتی تکڑم بازی کو سمجھ سکے اور انھوں نے یہ بھی سمجھ لیا کہ ہندوستانی سیاست میں ہر طرح کی فرقہ واریت ہٹلر، مسولنی کی سیاست کا محض ’ہندوستانی ایڈیشن‘ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے 6 سال قبل ہی نہرو اپنی بیٹی اندرا کو ’عجیب ناتسی وادی نظریہ‘ کے بارے میں بتا رہے تھے، جو کہ کسی بھی طرح سے نہ صرف جرمن مہارت کو قائم کرنے میں لگا ہوا تھا بلکہ جن ذاتوں کو ادنیٰ مانتی تھی، ان کو تباہ کرنے میں یقین کر رہی تھی۔ انھوں نے اندرا گاندھی کو یہ بھی بتایا کہ ناتسی سمجھتے ہیں کہ ’صاف دلیل‘ اور تعصب سے پاک سائنس کے زمانے لد چکے ہیں۔ (31 جولائی، 1933 کا خط، گلمپسیز آف ورلڈ ہسٹری)

نہرو نے یہ بات بار بار نوٹ کی کہ صرف ہندو ہی نہیں، مسلم فرقہ واریت بھی ہٹلر کی تعریف کرتی تھی۔ دونوں فرقہ واریتیں جمہوری نیشنلزم سے نفرت محسوس کرنے میں ایک دوسرے کی ساتھی تھیں (جو کہ آج بھی ہیں)۔ بس دونوں میں ایک فرق تھا (یہ جاننا آج بھی ضروری ہے جیسے کہ تب تھا) جسے نہرو نے بہت صاف گوئی سے ظاہر کیا ہے: ’’مسلم تنظیموں کی فرقہ وارانہ شکل ہر ایک پر ظاہر ہے، سب کو دکھائی دیتا ہے۔ ہندو مہاسبھا کی فرقہ واریت اتنی واضح دکھائی نہیں دیتی کیونکہ وہ نیشنلزم کا چوغہ اوڑھے رہتی ہے۔‘‘ (این آٹوبایوگرافی، پینگوئن انڈیا، صفحہ 484)


نہرو میں ہندوستانی ہونے کو لے کر کسی بھی طرح کی احساس کمتری نہیں تھی۔ ان کے لیے ہماری عظیم تہذیب کی کہانی یکسر زوال کی داستان نہیں ہے۔ وہ اس داستان کو کسی قدیم اسکرپٹ کے صفحات کی شکل میں باندھتے ہیں۔ اس صفحہ پر کئی عبارتیں درج ہیں لیکن کوئی بھی عبارت پہلے سے موجود عبارتوں کو پوری طرح مٹا نہیں پائی ہے۔ پرانی سے پرانی عبارت کے کچھ نہ کچھ نشان اس صفحہ پر آج تک موجود ہیں۔ نہرو کے اپنے الفاظ میں:

’’(ہندوستان کی) اتنی وسعت سے یا اس کے تنوع سے میں نہیں گھبراتا تھا، لیکن اس کی روح کی گہرائی ایسی تھی جس کی حقیقت میں نہیں جان سکتا تھا، اگرچہ کبھی کبھی اس کی جھلک مجھے مل جاتی تھی۔ یہ جھلک کسی قدیم مینسکرپٹ جیسی تھی، جس پر غور و فکر کی تہیں، ایک پر ایک جمی ہوئی تھیں، اور پھر بھی کسی بعد کی تہہ نے پہلے سے اندازہ کیے ہوئے مضمون کو پوری طرح سے مٹایا نہیں تھا۔ ان کا ہمیں اندازہ ہو چاہے نہ ہو، یہ سب ایک ساتھ ہمارے شعور اور بے شعور دماغ میں موجود ہیں، اور ہی سب مل کر ہندوستان کے پیچیدہ اور تفریق بھری شخصیت کی تعمیر کرتی ہیں۔‘‘ (دی ڈسکوری آف انڈیا، صفحہ 51)


ہندوستانیوں کو ہندوستان کی قومی تحریک کے سیاسی اور دانشورانہ قیادت کے تئیں ضروری تنقید کرتے ہوئے بھی شکرگزار ہونا چاہیے۔ ہندوستانی تحریک آزاد محض سیاسی تحریک نہیں تھی، اس کا ایک واضح اخلاقی پہلو بھی تھا۔ جس کی وجہ سے اس نے پورے حوصلے کے ساتھ اپنے سماج کی خامیوں کو بھی پہچانا۔ چھوا چھوت، عورتوں سے نفرت جیسی برائیوں اور تمام کٹرپسندیوں کو دور کرنے کی کوشش کی۔ آزادی کے سپاہیوں اور ہندوستانی جمہوریہ قائم کرنے والے، آئین کے معماروں نے ہندوستان کی حقیقی ثقافتی یادوں کا احترام کرنے کے ساتھ ہی اسے رجعت پسندانہ سیاست کا مہرہ بنانے کی کوششوں کی مخالفت بھی کی۔ نہرو میں بلاشبہ ثقافتی تسلسل کی سمجھ ہے اور اس وجہ سے جو لیفٹ-لبرل انھیں ہندوتوا کے ایجنڈے سے جوڑ دیتے ہیں، وہ شاید نہیں سمجھیں گے لیکن باقی سبھی سمجھدار شہریوں کو یہ جاننا ہی ہوگا کہ کوئی بھی سیاسی طبقہ ثقافتی یادداشتوں یا ماضی کے تئیں مکمل مایوس کن رویہ کے ساتھ نہیں جا سکتا۔ کوئی بھی ترقی پذیر ملک اپنی ثقافت اور وراثت کے ساتھ حوصلہ سے بھرے، مدلل بیداری کا رشتہ بنائے بغیر نہیں چل سکتا۔ نہرو کی کوشش ایسا ہی رشتہ بنانے کی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔