گڈ فرائیڈے: صلیب پر چڑھنے سے نہیں ہوئی عیسیٰ مسیح کی موت، قبر ہندوستان میں!

عیسیٰ مسیح کی پیدائش، ان کی موت، دوبارہ زندہ ہونا اور پھر غائب ہو جانا، یہ اکثر لوگوں کی بحث کا موضوع بنتا رہا ہے۔ کچھ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ عیسیٰ مسیح نے زندگی کے کئی سال ہندوستان میں گزارے تھے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

آج گڈ فرائیڈے ہے اور عیسائی طبقہ کا ماننا ہے کہ اسی دن حضرت عیسیٰ مسیح کو صلیب پر چڑھایا گیا تھا۔ لیکن عیسیٰ مسیح کے تعلق سے کئی ایسی باتیں ہیں، جو بہت کم لوگوں کو ہی معلوم ہوں گی۔ مختلف تحقیقوں کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عیسیٰ مسیح کی موت صلیب پر چڑھانے سے نہیں ہوئی تھی، بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہی ہے۔ ہندی نیوز ویب سائٹ 'نیوز 18' پر اس سلسلے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح کی قبر سری نگر میں موجود ہے۔

عیسیٰ مسیح کی پیدائش، ان کی موت، دوبارہ زندہ ہونا اور پھر غائب ہو جانا، یہ اکثر لوگوں کی بحث کا موضوع بنتا رہا ہے۔ کچھ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عیسیٰ مسیح نے اپنی زندگی کے کئی سال ہندوستان میں گزارے تھے۔ خاص طور سے ان کا آخری وقت کشمیر میں گزرا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب اسرائیل میں عیسیٰ مسیح کو صلیب پر لٹکایا گیا تو وہ اس کے بعد بھی زندہ رہے تھے۔ لیکن حیرت انگیز طریقے سے وہ کہاں غائب ہو گئے، یہ آج بھی معمہ ہے۔ کچھ تاریخ دانوں اور محققین کا ماننا ہے کہ عیسیٰ مسیح کا غائب ہونے والا دور کشمیر میں گزرا تھا اور سری نگر کے روزابل زیارت گاہ کو عیسیٰ مسیح کی تقریباً دو ہزار سال قدیم قبر مانا جاتا ہے۔ کئی محققین نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ عیسیٰ مسیح کی موت صلیب پر چڑھانے سے نہیں ہوئی تھی۔ اس واقعہ میں وہ بچ گئے تھے اور پھر مشرق وسطیٰ ہوتے ہوئے ہندوستان آ گئے۔ ان کا باقی زندگی ہندوستان میں ہی گزرا۔ روزابل میں جس شخص کا مقبرہ ہے، اس کا نام یوزا اصف ہے۔ محققین کا ماننا ہے کہ یوزا اصف کوئی اور نہیں بلکہ عیسیٰ مسیح ہی ہیں۔

عیسیٰ مسیح کے ہندوستان آنے سے متعلق بی بی سی لندن نے 42 منٹ کی ایک ڈاکومنٹری 'جیسس اِن انڈیا' بنائی۔ سری لنکا میں تقریباً سوا گھنٹے کی ایک ڈاکیومنٹری بنائی گئی۔ 'جیسس واز اے بودھسٹ منک'۔ عیسیٰ مسیح کے ہندوستان آنے پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ کئی دہائیوں پہلے کشمیر کے مشہور و معروف مصنف عزیز کاشمیری نے اپنی کتاب 'کرائسٹ ان کشمیر' سے لوگوں کی توجہ کھینچی تھی۔ آندریس فیبر کیسر نے 'جیسس ڈائیڈ ان کشمیر' لکھی تو معروف مصنف ایڈورڈ ٹی مارٹن نے 'کنگ آف ٹریولرس: جیسس لاسٹ ائیر ان انڈیا' لکھی۔

سجین اوس نے بھی اسی موضوع پر ایک مشہور کتاب لکھی۔ جموں و کشمیر آرکیالوجی، ریسرچ اینڈ میوزیم میں آرکائیو محکمہ کے سابق ڈائریکٹر فدا حسین کی بھی اس موضوع میں دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی جب وہ لداخ گئے اور انھیں اس بارے میں بتایا گیا۔ تب انھوں نے ریاست میں اس تعلق سے پرانی کتابیں اور ثبوت تلاش کرنے شروع کیے۔ جو کچھ انھیں ملا، وہ اشارہ کرتا تھا کہ عیسیٰ مسیح کے ہندوستان آنے کی بات میں طاقت ہے۔ پہلگام کا علاقہ ڈی این اے بناوٹ کے مطابق مسلمان بنے یہودی نسل کے لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔

کئی محققین نے سری نگر میں موجود قبر عیسیٰ مسیح کے ہونے کی بات ثابت کرنے کی کوشش کی اور انھوں نے سامنے یہ سوال بھی رکھا کہ اگر ان کی موت صولی پر چڑھائے جانے کی وجہ سے یروشلم میں ہوئی تو ان کا مقبرہ 2500 کلو میٹر دور کشمیر میں کیسے ہو سکتا ہے۔ بائبل بھی عیسیٰ مسیح کو صلیب پر چڑھانے کے بعد ان کے 12 مرتبہ الگ الگ وقت پر لوگوں کے سامنے آ کر انسانی شکل میں زندہ ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔

بہر حال، عیسیٰ مسیح نے 13 سال سے 30 سال کی عمر تک کیا کچھ کیا، یہ ایک راز جیسا ہی ہے۔ بائبل میں ان کے ان سالوں کا کوئی تزکرہ نہیں ہے۔ 30 سال کی عمر میں انھوں نے یروشلم میں یوحنا سے تعلیم حاصل کی۔ حصول تعلیم کے بعد وہ لوگوں کو تعلیم دینے لگے۔ زیادہ تر دانشوروں کے مطابق سنہ 29ء کو عیسیٰ مسیح یروشلم پہنچے۔ وہیں ان کو سزا دینے کی سازش تیار کی گئی۔ جب انھیں صلیب پر لٹکایا گیا اس وقت ان کی عمر تقریباً 33 سال تھی۔ اس کے دو دن بعد ہی انھیں ان کی قبر کے پاس زندہ دیکھا گیا۔ پھر وہ کبھی یہودی ریاست میں نظر نہیں آئے۔ اس کے بعد کے وقت میں ان کے کشمیر میں ہونے کا تذکرہ ہے۔ عیسیٰ نے دمشق، سیریا کا رخ کرتے ہوئے سلک روٹ پکڑا۔ وہ ایران، فارس ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچے جہاں کشمیر میں وہ 80 سال کی عمر تک رہے۔

ہندو گرنتھ 'بھوشیہ پران' میں بھی تذکرہ ہے کہ عیسیٰ مسیح ہندوستان آئے تھے۔ انھوں نے کشان راجہ شالی واہن سے ملاقات کی تھی۔ مسلمانوں کا احمدیہ طبقہ بھی یقین کرتا ہے کہ روزابل میں موجود مقبرہ عیسیٰ یا جیسس کا ہی ہے۔ احمدیہ طبقہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد نے 1898 میں لکھی اپنی کتاب 'مسیحا ہندوستان میں'یہ لکھا کہ روزابل واقع مقبرہ عیسیٰ مسیح کا ہی ہے جن کی شادی کشمیر قیام کے دوران مرجان سے ہوئی۔ ان کے بچے بھی ہوئے۔

اس دعویٰ سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ سب سے پہلے روسی دانشور نے یہ بات کہی تھی۔ جرمن رائٹر ہولگرے کسینٹن نے اپنی کتاب 'جیسس لیوڈ ان انڈیا' میں اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ پہلی بار سنہ 1887 میں روسی دانشور، نکولائی الیکزاندووِچ نوتووِچ نے امکان ظاہر کیا تھا کہ شاید جیسس ہندوستان آئے تھے۔ نوتووچ کئی بار کشمیر آئے تھے۔ جوجی لا پاس کے نزدیک واقع ایک بودھ مٹھ میں وہ مہمان تھے، جہاں ایک فقیر نے انھیں ایک بودھیستو سنت کے بارے میں بتایا جس کا نام عیسیٰ تھا۔ نوتووِچ نے پایا کہ عیسیٰ اور جیسس کرائسٹ کی زندگی میں کمال کی یکسانیت ہے۔ نکولس نوتووِچ ایک روسی یہودی سفیر، سیاستداں اور صحافی تھے۔ انھوں نے بین الاقوامی طور پر پہلی بار یہ دعویٰ کیا تھا۔

اس تعلق سے حکومت ہند کے ذریعہ بنائی گئی تقریباً 53 منٹ کی ڈاکومنٹری 'جیسس ان کشمیر' قابل تعریف ہے۔ اس نے بہت ہی مدلل طریقے سے بتایا ہے کہ کس طرح سے عیسیٰ مسیح ہندوستان میں آ کر رہے۔ ان کی یہ رہائش لداخ اور کشمیر میں تھی۔ حالانکہ رومن کیتھولک چرچ اور ویٹکن اسے نہیں مانتے۔ یہ ڈاکیومنٹری اشارہ کرتی ہے کہ عیسیٰ مسیح اپنے خاص لوگوں کے ساتھ کشمیر آئے تھے۔ پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان کے ساتھ آئے یہودی یہیں کے باشندے ہو گئے۔ حکومت ہند کے فلم ڈپارٹمنٹ کی یہ ڈاکومنٹری مدلل طریقے سے ہندوستان میں عیسیٰ مسیح کے تعلق سے توجہ مبذول کرتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔