صنفی مساوات کو درپیش عالمی چیلنجز کا مقابلہ
دنیا کے ایک چوتھائی ممالک میں صنفی مساوات میں کمی آ رہی ہے۔ افغانستان اور یمن جیسے ممالک میں خواتین کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ عالمی سطح پر کاوشوں کے باوجود صورتحال میں بہتری سست ہے

علامتی تصویر / اے آئی
صنفی مساوات کو فروغ دینے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی 'یو این ویمن' یا 'خواتین کے لیے، خواتین کا ادارہ' 15 سال مکمل کر چکا ہے۔ باوجود اس کے دنیا بھر کے ایک چوتھائی ممالک میں صنفی مساوات میں کمی آ رہی ہے۔ ایک افغان خاتون فریبہ نے 2021 میں یونیورسٹی میں ڈگری کی تعلیم کا آغاز کیا تھا جب طالبان دوبارہ اقتدار میں آگئے اور انہوں نے خواتین اور لڑکیوں کو ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر پابندی لگا دی۔ یہ طالبان کی جانب سے افغان خواتین اور لڑکیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے اقدامات میں سے ایک تھا اور آج یمن کے بعد افغانستان صنفی فرق کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ فریبہ (شناخت مخفی رکھنے کے لیے تبدیل کیا گیا نام) کہتی ہے کہ "کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ان تاریک حالات میں پرامید کیسے رہوں۔" افغانستان واحد ملک نہیں ہے جہاں صنفی مساوات ختم ہو رہی ہے بلکہ دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کو چیلنجز کا سامنا ہے جن کا مقابلہ یو این ویمن اپنی 15 ویں سالگرہ کے موقع پر کر رہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں ایجنسی کا مینڈیٹ اور اس کا کام پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔ ایجنسی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باہوس کے مطابق، ’’یہ پیچھے ہٹنے کا لمحہ نہیں ہے۔ یہ آگے بڑھنے کا لمحہ ہے۔‘‘
خطرات کے درمیان پیش رفت
یو این ویمن کا قیام جولائی 2010 میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت 80 ممالک میں خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے لیے ایجنسی کام کر رہی ہے تاکہ وہ اپنی مکمل صلاحیتوں کو حاصل کر سکیں۔ لڑکیوں کی تعلیم اور انہیں قانونی حقوق دلانے کے معاملے میں کڑی محنت سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کے باوجود، صنفی مساوات کے لیے فنڈنگ ختم ہو رہی ہے اور ہدف کی جانب پیش رفت انتہائی سست ہے۔ اس وقت 10 فیصد خواتین اور لڑکیاں انتہائی غربت کی زندگی گزارر ہی ہیں۔ اس غربت کو موجودہ شرح سے کیے جانے والے اقدامات کے ذریعے ختم کرنے میں مزید 137 سال درکار ہوں گے۔ پچھلی دہائی میں مسلح تنازعات کا شکار علاقوں اور ان کے قریب رہنے والی خواتین کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔ ایسی خواتین کو صنفی بنیاد پر تشدد کے خطرات، غذائی عدم تحفظ اور خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ مزید برآں، 103 ممالک میں کبھی کوئی خاتون سربراہ مملکت نہیں رہی، اور اعلیٰ حکومتی قیادت میں صنفی مساوات مزید 130 سال تک حاصل نہیں ہو سکے گی۔ حالانکہ ڈیجیٹل انقلاب اور مصنوعی ذہانت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، لیکن صنفی ڈیجیٹل تقسیم وسیع ہوتی جا رہی ہے، جس کے باعث خواتین اور لڑکیوں کو ان آلات تک رسائی مشکل ہو رہی ہے جن کے ذریعے مستقبل تعمیر ہو گا۔ تاہم، اس طرح کے تاریک حالات کے باوجود، یا شاید ان کی وجہ سے، یو این ویمن "صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کا پاور ہاؤس" بنی ہوئی ہے۔
قیام امن میں خواتین کا کردار
60 کروڑ سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں مسلح تنازعات کا شکار علاقوں میں یا ان سے 50 کلومیٹر کے اندر رہتی ہیں۔ یہ صورتحال انہیں امن قائم کرنے کے کسی بھی عمل میں کلیدی اسٹیک ہولڈر بناتی ہے۔ حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ امن کے لیے کی جانے والی کوششیں خواتین کی شمولیت کے نتیجے میں مزید پائیدار ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود 2020 سے 2023 کے درمیان کیے گئے امن مذاکرات میں سے 80 فیصد میں خواتین شامل نہیں تھیں۔ تاہم، کچھ ممالک میں، امن سے متعلق سرگرمیوں میں صنفی شمولیت اور برابری کی طرف امید افزا تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر یوکرین میں ڈیمائننگ یا بارودی سرنگوں کی صفائی ، ایک ایسا پیشہ جسے تاریخی طور پر مردوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا تھا، کی جانب اب خواتین زیادہ متوجہ ہو رہی ہیں۔ مائننگ ٹیم کی سربراہ ٹیٹیانا روبانکا کے مطابق، پہلے جو لگتا تھا کہ 'خواتین کا کام نہیں ہے' ،وہ اب آپ کا مشن بن سکتا ہے۔ یہ بات خاص طور پر یوکرین کے حوالے سے اہم ہے، جہاں اقوام متحدہ کی مائن ایکشن سروس کا اندازہ ہے کہ کم از کم 20 فیصد زمین غیر پھٹے بارودی مواد سے آلودہ ہے۔
ایک اجتماعی آواز
واضح ثبوت کے باوجود کہ حکومتی کام میں کوٹہ سے صنفی مساوات کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے، خواتین کو پالیسی سازی کے بہت سے مراحل سے باہر رکھا جاتا ہے۔ اس حقیقت کی وجہ سے، یو این ویمن خواتین کے ذریعے اور ان کے لیے اجتماعی اقدامات کی حمایت میں کام کرتی ہے جن کی آوازیں متحدہ حیثیت میں زیادہ پراثر ہوتی ہیں۔ بحرالکاہل میں، بازاروں میں دکانداروں کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے، لیکن بازار جن میونسپل کونسلز کے زیر انتظام چلائے جاتے ہیں وہ زیادہ تر مرد ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ماضی قریب میں ان خواتین کے مسائل نظرانداز ہو جاتے تھے۔ 2014 میں شروع کیے گئے یو این ویمن پروجیکٹ کے تعاون سے، 50 ہزار سے زیادہ خواتین نے اپنی انجمنیں تشکیل دی ہیں جو انہیں اجتماعی طور پر سودے بازی کرنے اور دیرپا تبدیلیاں حاصل کرنے کے قابل بناتی ہیں۔
پر امید رہنے کا عزم
افغانستان میں، 80 سے زیادہ ایسے احکامات ہیں جو خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کو کم کرتے ہیں، یا 80 ایسے طریقے ہیں جن میں ان کی صلاحیتوں کو محدود کیا جا رہا ہے اور ایسے 80 اسباب ہیں جو انہیں امید سے محروم کرتے ہیں۔ انیتا نامی خاتون طالبان کے آنے سے پہلے مصورہ اور استاد کی حیثیت سے کام کرتی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "میری زندگی میں قوس قزح کے رنگ مدھم پڑ گئے ہیں، اور اب مجھے پینٹ کرنے کے لیے کوئی رنگ نظر نہیں آتا"۔ لیکن پھر بھی، وہ امید کھونے سے انکار کرتی ہیں۔ وہ نچلی سطح پر ایسی مقامی تنظیمیں قائم کر رہی ہیں جو خواتین کی قیادت کو فروغ دینے کے لیے کام کرتی ہیں اور انھیں ایک ایسے وقت کے لیے تیار کر رہی ہیں جب وہ دوبارہ اپنے بنیادی حقوق سے کام لے سکیں۔ فی الحال، عالمی سطح پر صنفی مساوات کے لیے فنانسنگ میں 420 ارب ڈالر کی کمی ہے، جس سے یو این ویمن کا کام مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن، 15 سال کے بعد، ایجنسی کا اصرار ہے کہ وہ صنفی مساوات کے لیے پرعزم ہے۔ انیتا اپنے پیغام میں کہتی ہیں کہ خواتین زندگی کے اتار چڑھاؤ، نشیب و فراز میں کبھی امید نہ ہاریں اور بہتری کے لیے جدوجہد جاری رکھیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔