عالمی انصاف و سلامتی کو بڑھتے چیلنجز کا سامنا
چھوٹے ہتھیاروں کے پھیلاؤ نے عالمی انصاف و سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا، عالمی عدالت کی آزادی کا تحفظ اور غیر قانونی اسلحے کی روک تھام ضروری ہے تاکہ تشدد، دہشت گردی اور عدم استحکام کا مقابلہ کیا جا سکے

دنیا اس وقت دو ایسے بڑے بحرانوں سے گزر رہی ہے جن کا براہِ راست تعلق عالمی امن، انصاف اور انسانیت کے مستقبل سے ہے۔ ایک طرف عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو دباؤ، دھمکیوں اور پابندیوں کا سامنا ہے، جو بین الاقوامی قانون اور انصاف کے تصور کو کمزور کر رہے ہیں۔ دوسری طرف چھوٹے اور ہلکے ہتھیاروں کا بے قابو پھیلاؤ دنیا بھر میں تشدد، دہشت گردی، مسلح تنازعات اور عدم استحکام کو بڑھا رہا ہے۔ ان دونوں مسائل نے عالمی نظام کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں مشترکہ حکمتِ عملی، مضبوط سیاسی عزم اور عملی تعاون کے بغیر پائیدار امن کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔
عالمی فوجداری عدالت پر دباؤ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی فوجداری عدالت کی سالانہ رپورٹ پر بحث کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر اینالینا بیئربوک نے واضح الفاظ میں کہا کہ عدالت کے خلاف پابندیاں اور جابرانہ اقدامات بین الاقوامی قانون کی روح پر حملے کے مترادف ہیں۔ ان کے مطابق آئی سی سی کا قیام اس اصول پر ہوا تھا کہ انصاف ایک عالمی ذمہ داری ہے، اور کوئی جرم، چاہے وہ جنگی ہو یا انسانیت کے خلاف، سزا کے بغیر نہیں رہنا چاہیے۔ مگر آج یہی ادارہ خود جبر اور سیاسی مداخلت کا نشانہ بن رہا ہے۔
بیئربوک نے اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا کہ امریکہ کی جانب سے رواں سال عدالت کے ججوں اور استغاثہ پر لگائی جانے والی پابندیاں ایک سنگین مثال ہیں۔ یہ پابندیاں اس وقت عائد کی گئیں جب عدالت نے غزہ میں مبینہ جنگی جرائم کے سلسلے میں اسرائیلی وزیرِاعظم اور اُس وقت کے وزیرِ دفاع کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کیے تھے۔ ان پابندیوں میں عدالتی اہلکاروں کی مالی رسائی بند کرنا، امریکہ میں ان کے اثاثے منجمد کرنا اور سفر پر پابندیاں شامل ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ محض سفارتی عدمِ اتفاق نہیں بلکہ انصاف کے پورے نظام پر حملہ ہے۔ عدالت کے اہلکاروں کو نہ صرف سیاسی دباؤ کا سامنا ہے بلکہ عدالت پر سائبر حملے بھی کیے گئے ہیں جن کا مقصد اس کے ریکارڈ، ساکھ اور آزادانہ فیصلوں کو متاثر کرنا ہے۔ یہ منظم کاوشیں عالمی اداروں پر اعتماد کو کمزور کر رہی ہیں اور قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
عدالت کی آزادی کے لیے تعاون ناگزیر
جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد میں تمام ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ آئی سی سی کے ججوں اور اہلکاروں کو دھمکیوں، حملوں یا دباؤ کے بغیر اپنے فرائض ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ عدالت کی صدر جج توموکو آکانے نے بھی مندوبین کو بتایا کہ عدالت کا مشن ابھی ختم نہیں ہوا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں انسانیت سوز مظالم اور جرائم آج بھی جاری ہیں، جن پر قانونی کارروائی اسی وقت ممکن ہے جب عدالت آزاد ہو اور رکن ممالک مکمل تعاون کریں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عدالت کے پاس سوڈان، افغانستان اور اسرائیل سے متعلق اہم مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ مگر عالمی ادارے کے پاس اپنی پولیس یا نفاذی قوت نہیں ہوتی؛ اس کے وارنٹس پر عمل درآمد صرف رکن ممالک ہی کر سکتے ہیں۔ اگر یہ تعاون کمزور پڑ گیا تو عالمی انصاف کا پورا ڈھانچہ ہل کر رہ جائے گا۔
متاثرین کی شرکت اور انصاف کی بحالی کے مقصد سے قائم آئی سی سی کے ٹرسٹ فنڈ کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس 18 ہزار سے زیادہ متاثرین عدالت میں پیش ہونے والے مقدمات کا حصہ بنے، جبکہ یوگنڈا میں 50 ہزار متاثرین کو مالی معاوضہ دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کے لیے ہرجانہ عدالتی انصاف کا لازمی جزو ہے، کیونکہ انصاف صرف مجرم کو سزا دینے کا نام نہیں بلکہ متاثرہ فرد کے زخموں پر مرہم رکھنے کا عمل بھی ہے۔
چھوٹے ہتھیار عدمِ استحکام کی جڑ
عالمی عدالت کو درپیش خطرات کے ساتھ ساتھ دنیا ایک اور سنگین مسئلے سے دوچار ہے—چھوٹے اور ہلکے ہتھیاروں کا پھیلاؤ۔ سلامتی کونسل میں تخفیفِ اسلحہ کے نائب اعلیٰ نمائندے ادیدی ایبو نے بتایا کہ دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ ہتھیار موجود ہیں، جن میں سے بڑی تعداد چھوٹے اور آسانی سے قابلِ منتقلی ہتھیاروں کی ہے۔ ایسے ہتھیار مسلح گروہوں، دہشت گرد تنظیموں، منظم جرائم پیشہ نیٹ ورکس اور غیر قانونی منڈیوں کے ہاتھوں میں تیزی سے پہنچ رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ٹیکنالوجی نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ آج تھری ڈی پرنٹرز کے ذریعے اسلحے کی تیاری ممکن ہو گئی ہے، جس سے غیر قانونی ہتھیاروں کی پیداوار یورپ، لاطینی امریکہ اور غرب الہند کے غیر قانونی بازاروں میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ صورتحال عالمی امن کے لیے ایک نیا اور خطرناک چیلنج ہے۔
چھوٹے ہتھیاروں کے تباہ کن اثرات
ادیدی ایبو کے مطابق غیر قانونی چھوٹے ہتھیار تین سطحوں پر عالمی معاشروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پہلا، تشدد اور دہشت گردی میں اضافہ — چھوٹے ہتھیار دہشت گردی، مسلح جھڑپوں اور منظم جرائم کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے ہتھیار ہیں۔ ان کی دستیابی جتنی آسان ہو گی، تشدد کی شدت بھی اتنی زیادہ ہو گی۔ دوسرا، انسانی جانوں کا نقصان — بعض جنگ زدہ علاقوں میں 30 فیصد شہری ہلاکتیں چھوٹے ہتھیاروں کے ذریعے ہوتی ہیں۔ جنسی تشدد کے 88 فیصد واقعات بھی انہی ہتھیاروں کے ذریعے انجام پاتے ہیں، جو اسلحے کے سماجی تباہ کُن اثرات کو اجاگر کرتا ہے۔ تیسرا، سماجی و معاشی ترقی میں رکاوٹ — یہ ہتھیار تعلیم، صحت اور معاشی ڈھانچے کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں۔ پائیدار ترقی کی عالمی کوششیں بھی اسی عدمِ تحفظ اور تشدد کے ماحول میں بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔
اسلحے سازی سے تلفی تک جامع نظام کی ضرورت
ایبو نے بتایا کہ عالمی برادری نے گولہ بارود کے انتظام کے لیے بین الاقوامی طریقہ کار کی منظوری جیسے اہم اقدامات کیے ہیں، مگر اب بھی بہت کچھ باقی ہے۔ انہوں نے اسلحے کی تیاری سے لے کر اس کے استعمال اور تلفی تک جامع نظام قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس کے علاوہ ہتھیاروں کی مسلسل نگرانی، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، کسٹمز اور سرحدی فورسز کی تربیت اور علاقائی تعاون کو مزید مضبوط کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے خصوصی طور پر اس بات پر زور دیا کہ اسلحے کے کنٹرول کی پالیسیوں میں خواتین اور نوجوانوں کی شمولیت ناگزیر ہے، کیونکہ ہر سال قتل ہونے والوں میں 37 فیصد نوجوان ہوتے ہیں اور خواتین اکثر ایسے تشدد کا سب سے زیادہ نشانہ بنتی ہیں۔
امن کے بغیر انصاف ناممکن
آئی سی سی پر حملے ہوں یا چھوٹے ہتھیاروں کا پھیلاؤ، یہ دونوں مسائل ایک ہی سچ پر روشنی ڈالتے ہیں: جب عالمی ادارے کمزور پڑتے ہیں تو جرائم، تشدد اور بدامنی بڑھتی ہے۔ انصاف کے بغیر امن ممکن نہیں، اور امن کے بغیر انصاف کے فیصلوں کا نفاذ ناممکن ہے۔ اس لیے عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ آئی سی سی کی آزادی کو یقینی بنائے، عدالتی اہلکاروں پر سیاسی دباؤ کی شدید مذمت کرے، غیر قانونی اسلحے کی پیداوار اور اسمگلنگ کے خلاف سخت کارروائی کرے، ہتھیاروں کی نگرانی اور ضابطے کے نظام کو بہتر بنائے، اور نوجوانوں، خواتین اور سول سوسائٹی کو امن و سلامتی کے عمل میں مؤثر کردار دے۔ دنیا اس وقت جس نازک دوراہے پر کھڑی ہے، وہاں عالمی تعاون ہی واحد راستہ ہے جو انسانیت کو ایک زیادہ منصفانہ، پرامن اور محفوظ مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔