جی ڈی پی: یہ اعداد و شمار معیشت کی حقیقی تصویر پیش نہیں کرتے... ارون کمار

مرکزی حکومت نے شرح ترقی کے جو شاندار اعداد و شمار جاری کیے ہیں، انھیں نکالنے کے لیے اختیار کیے گئے طریقہ میں موٹے طور پر غیر منظم سیکٹر کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

جی ڈی پی، تصویر آئی اے این ایس
i
user

ارون کمار

حکومت ہند کی وزارت برائے شماریات و پروگرام نفاذ نے گزشتہ دنوں ایک پریس نوٹ جاری کر بتایا کہ اس سال کی پہلی سہ ماہی (اپریل-جون 2025) میں ملک کی ترقی کی شرح میں اچھال آیا ہے اور یہ 7.8 فیصد پر رہی ہے۔ پچھلے سال اسی سہ ماہی میں ترقی کی شرح 6.5 فیصد تھی۔ اس سے پہلے کی سہ ماہی، یعنی 25-2024 کی تیسری سہ ماہی دسمبر-مارچ میں 7.4 فیصد تھی۔ اس غیر متوقع طور پر بلند ترقی کی شرح کے اندازے میں کچھ اہم اشاریے لگتا ہے چھوٹ گئے ہیں۔

ترقی کی شرح میں یہ غیر متوقع اضافہ بنیادی طور پر تیسرے درجہ کے شعبہ کی ترقی کی رفتار میں تیزی کی وجہ سے درج ہوئی ہے۔ پچھلے سال کے 6.8 فیصد کے مقابلے اس شعبہ میں اس سہ ماہی 9.3 فیصد کی ترقی دکھائی گئی ہے۔ لیکن دوسرے درجہ کے شعبے کی ترقی کی شرح 8.6 فیصد سے گھٹ کر 7.0 فیصد رہ گئی ہے، جبکہ ابتدائی شعبہ یعنی پہلے درجہ کے شعبہ کی ترقی کی شرح پچھلے سال کے 2.2 فیصد کے مقابلے 2.8 فیصد رہی ہے۔


ابتدائی اور دوسرے درجہ کے شعبوں میں ترقی یا تو کم ہوئی ہے یا پھر 25-2024 کی پہلی سہ ماہی کے ہی برابر رہی ہے۔ کان کنی اور کھدائی کی ترقی کی شرح میں زبردست گراوٹ آئی ہے جو 6.6 فیصد سے گھٹ کر مائنس 3.1 فیصد درج ہوئی ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ اس شعبے میں 9.7 فیصد کا بدلاؤ ہوا ہے۔ بجلی، گیس، پانی کی فراہمی اور دیگر ضروری خدمات کے شعبہ میں نصف فیصد کی ترقی نظر آ رہی ہے جبکہ پچھلے سال ان شعبوں کی ترقی 10.2 فیصد تھی۔ یعنی ان خدمات میں ترقی کی شرح میں 9.7 فیصد کی گراوٹ ہوئی ہے۔ اسی طرح پیداوار کے شعبہ یعنی مینوفیکچرنگ سیکٹر کی ترقی مستحکم رہی ہے، جبکہ تعمیرات یعنی کنسٹرکشن شعبہ میں ترقی 10.1 فیصد سے گر کر 7.6 فیصد پر آ گئی ہے۔

مختلف شعبوں کی ترقی کی شرحوں میں کافی فرق درج ہوا ہے۔ لیکن تیسرے درجہ کے شعبہ میں تیز ترقی کا سبب کیا ہے؟ اس کا جواب جاننے کے لیے اختیار کردہ پالیسی کو سمجھنا اور اس کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ سرکاری دستاویز کہتی ہے کہ ’’جی ڈی پی کے سہ ماہی اندازے بینچ مارک-اشاریہ پالیسی کا استعمال کر کے مرتب کیے جاتے ہیں، یعنی پچھلے مالی سال (25-2024) کی اسی سہ ماہی کے لیے دستیاب اندازوں کو شعبوں کے مظاہرے کو دکھانے والے متعلقہ اشاریوں کا استعمال کر کے نکالا جاتا ہے۔‘‘ اسی دستاویز میں آگے کہا گیا ہے کہ ’’اندازے کے لیے استعمال کیے گئے اہم اشاریوں میں دکھائی گئی سال بہ سال ترقی کی شرح (فیصد میں) ساتھ میں لگے ضمیمہ-بی میں دی گئی ہے۔‘‘ لیکن ضمیمہ میں دیے گئے اعداد و شمار 25-2024 کے مقابلے معیشت میں مندی کا اشارہ دیتے ہیں۔ فہرست بند کل 22 مدوں میں سے صرف 5 میں پچھلے سال کے مقابلے ترقی دکھائی دیتی ہے۔ یہ ہیں– سیمنٹ پیداوار، بڑے بندرگاہوں پر مال برداری، ریونیو اخراجات یعنی سرکاری خرچ، سود کے طور پر کم ادائیگی اور سبسڈی (مرکزی حکومت)، برآمد گھٹا کر درآمد اور سرمایہ جاتی سامان یعنی کیپیٹل گُڈز۔


وہیں، 7 مدوں میں نمایاں گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ یہ ہیں– کوئلہ پیداوار، اسٹیل کی صارفیت، پرائیویٹ گاڑیوں کی فروخت، ہوائی اڈوں پر مال برداری، ریلوے مسافر کلومیٹر، صنعتی پیداوار اشاریہ (آئی آئی پی) کانکنی اور بجلی کی پیداوار اشاریہ۔ باقی 10 مدوں میں ترقی میں معمولی گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ اعداد و شمار صارفیت اور تیسرے درجے کے شعبے میں ترقی میں گراوٹ کا بھی اشارہ دیتے ہیں۔ آخر میں، دیکھیں تو حال ہی میں جاری IIP یعنی صنعتی پیداوار کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 26-2025 کی پہلی سہ ماہی میں اس میں مشکل سے 2 فیصد کی ترقی ہوئی۔ اس لیے دوسرے درجہ کے شعبہ کی ترقی میں بھی تیزی نہیں آ پائی ہوگی۔

مجموعی طور پر، اگر اندازے میں استعمال کی گئی پالیسی کو جیسا کہا جا رہا ہے ویسا ہی مان لیا جائے، تو بھی 26-2025 کی پہلی سہ ماہی میں ترقی کی شرح 25-2024 کے مقابلے نہیں بڑھی ہوگی۔ جی ڈی پی کے اعداد و شمار کا اندازہ کرنے کے لیے جو طریقۂ کار اختیار کیا گیا ہے، اس میں ایک بڑا مسئلہ ہے غیر منظم شعبہ کے اعداد و شمار کی غیر موجودگی۔ اس اندازے میں منظم شعبہ کے تھوڑے بہت اعداد و شمار کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔


لاپتہ اعداد و شمار

مثال کے طور پر صنعتوں کے لیے اعداد و شمار ’فہرست بند کمپنیوں کے دستیاب سہ ماہی مالی نتائج کے بنیاد پر ان کے مالی مظاہرے‘ اور آئی آئی پی پر مبنی ہوتے ہیں۔ لیکن اس میں صرف کچھ سو کمپنیوں کے دستیاب اعداد و شمار کو ہی لیا گیا ہے اور دوسرا آئی آئی پی میں چھوٹے شعبوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے، جبکہ ان کی تعداد آئی آئی پی میں شامل بڑی اور درمیانی اکائیوں سے ہزار گنا زیادہ ہے اور جو ایم ایس ایم ای شعبہ کے 97.5 فیصد روزگار فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے یہ تصور ہی غلط ہے کہ غیر منظم شعبہ کو منظم شعبہ کے کچھ دستیاب اعداد و شمار کے بنیاد پر سمجھا جا سکتا ہے۔

ایک مثال کے ذریعے اسے اور اچھے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ تجارت، ہوٹل، نقل و حمل، مواصلات اور نشریات سے جڑی خدمات سے منسلک شعبے کی ترقی کی شرح 5.4 فیصد سے بڑھ کر 8.6 فیصد ہو گئی ہے۔ اس شعبے کا مجموعی قدر افزائی (جی وی اے) میں حصہ 16.75 فیصد ہے اور اس میں منظم اور غیر منظم دونوں شعبے شامل ہیں۔ تاہم، اس کے اعداد و شمار صرف منظم شعبے، مثلاً ای-کامرس، کے لیے ہی دستیاب ہیں، جو تقریباً 25 فیصد کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔


ایسی مضبوط ترقی تو تبھی نظر آئے گی جب غیر منظم تجارت، یعنی آس پاس کی خوردہ دکانوں وغیرہ کی فروخت کم ہوئی ہو۔ اس لیے، مجموعی گھریلو پیداوار کے اس جزو کے لیے جتنی زیادہ ترقی دکھائی جائے گی، غیر منظم شعبے میں اتنی ہی زیادہ گراوٹ ہوگی۔

خلاصہ یہ کہ جی ڈی پی کے گھٹتے ہوئے جزو کے ساتھ تیزی سے بڑھتے ہوئے جزو کا بھی تعلق ہوتا ہے، جس سے جی ڈی پی کا کہیں زیادہ اندازہ لگایا جاتا ہے۔ یہ طریقہ تیسرے درجہ کے دیگر اہم اجزا اور مینوفیکچرنگ شعبہ پر بھی نافذ ہوگا۔ اس کے علاوہ جی ڈی پی کا زیادہ اندازہ دیگر خرچ والے اجزا، مثلاً ذاتی آخری صارفیت اور سرمایہ کاری یعنی عام لوگوں کے خرچ کرنے اور ذاتی شعبہ کے سرمایہ کاری کرنے کو بھی متاثر کرے گا۔


ہندوستانی ریزرو بینک نے صلاحیت کے استعمال اور صارف اعتماد کے جو اعداد و شمار جاری کیے تھے، وہ تو کسی بھی تیز ترقی کا اشارہ نہیں دیتے ہیں۔ چونکہ یہ منظم شعبے کے سروے پر مبنی ہیں، اس لیے یہ اشارہ دیتے ہیں کہ سرمایہ تشکیل یا نجی کھپت میں کوئی تیز ترقی نہیں ہو سکتی، جیسا کہ سرکاری جی ڈی پی اعداد و شمار دکھاتے ہیں۔

تو سوال ہے کہ کیا اب جی ڈی پی کا اندازہ لگانے میں ہونے والی غلطیاں یا کوتاہیاں بڑھ گئی ہیں؟ اگر یہ مفروضہ صحیح ہے کہ منظم شعبے کی ترقی کی شرح جتنی زیادہ ہوگی، جی ڈی پی کے اندازے میں غلطی یا خامی اتنی ہی زیادہ ہوگی، تو واقعی خامی بڑھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوٹ بندی کے بعد سے ’خامیوں‘ میں تیز تبدیلی آئی ہے اور اوپر بتائے گئے زیادہ تکرار والے اعداد و شمار اور اندازہ شدہ ترقی کی شرح کے بیچ کا فرق بھی بڑھا ہے۔


بنیادی بات یہ ہے کہ کووِڈ وبا، جی ایس ٹی کو خامیوں کے ساتھ نافذ کرنے کا طریقہ اور نوٹ بندی کے بعد جی ڈی پی کے اندازے کی پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی غیر منظم شعبے سے اور زیادہ اعداد و شمار جمع کرنے کی بھی ضرورت ہے، تاکہ وہ منظم شعبے کی محض پروکسی نہ بن کر رہ جائیں۔ جب تک ان دو عدم توازنات کو درست نہیں کیا جاتا، تب تک ملک میں ناکافی روزگار پیدا کرنے اور مسلسل غربت کی زمینی حقیقت کو دیکھتے ہوئے جی ڈی پی کے بلند اعداد و شمار پر شبہ قائم رہے گا۔

(یہ مضمون پہلے ’دی وائر‘ انگریزی میں شائع ہوا۔ پروفیسر ارون کمار جے این یو میں اکنامکس کے ریٹائرڈ پروفیسر ہیں۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔