غزہ صرف محاصرہ نہیں، انسانی شکار ہے
غزہ میں اسرائیلی محاصرہ قحط، بھوک اور قتل عام میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بچے، عورتیں اور بزرگ خوراک کی تلاش میں شہید ہو رہے ہیں۔ مسلم ممالک کی خاموشی مجرمانہ ہے، انہیں فوری اسلامی کردار ادا کرنا چاہیے

غزہ میں تباہی کا منظر / یو این آئی
انبیاءؑ کی سرزمین فلسطین کے غزہ کی پٹی میں مظلوم عوام ان دنوں انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہیں، خاص طور پر خوراک کی شدید قلت کی وجہ سے وہاں بڑے پیمانے پر قحط جاری ہے جس سے بچے، بیمار اور بوڑھے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر قحط کی ہولناک تصاویر، جو میڈیا کے ذریعے نشر کی جا رہی ہیں، کسی بھی با ضمیر انسان کو سکون سے کھانے پینے کی اجازت نہیں دیتیں۔ جس طرح امیرالمومنین علی ابن ابی طالبؑ نے اسلامی سرزمین میں ایک عورت پر حملے کے بارے میں کہا تھا کہ اگر اس واقعے کے بعد کوئی مسلمان غم سے مر جائے تو اس پر کوئی الزام نہیں ہے، بلکہ میرے خیال میں وہ ایسی موت کا مستحق ہے۔
غزہ میں بھوک مری اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے اور لوگوں کو خوراک کی بے حد کمی کا سامنا ہے جس سے یقیناً بچے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ غزہ کی سڑکوں پر چلتے چلتے بے ہوش ہونا اور گر جانا ایک عام سی بات بن گئی ہے اور ہر کوئی کھانے کے لیے ایک لقمہ روٹی کی تلاش میں ہے لیکن جب فلسطینی خوراک کی تلاش میں نکلتے ہیں تو ان کا جواب گولیاں اور قتل ہوتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے اعلان کیا ہے کہ گزشتہ مئی سے اب تک ایک ہزار سے زائد فلسطینیوں کو قابض فوج نے غزہ میں خوراک کے حصول کی کوشش میں قطاروں میں کھڑے ہونے کے دوران شہید کیا ہے، ان میں سے زیادہ تر کو امداد کی تقسیم کے مراکز کے قریب شہید کیا گیا۔
امریکی فوجیوں نے غزہ میں امدادی تقسیم کے مراکز پر فلسطینیوں کو نشانہ بنایا تاکہ انہیں وہاں سے جانے پر مجبور کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو ان علاقوں میں جانے پر مجبور کیا جاتا ہے جہاں صہیونی فوجی تعینات ہیں، لہٰذا وہ ان درندوں کے ہاتھوں یا تو شہید یا زخمی ہو جاتے ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کے لیے روٹی جیسی چیز بنانے کے لیے خشک اناج، جانوروں کے چارے اور یہاں تک کہ گھاس کو پیستی ہیں۔ اسرائیلی فوج غزہ کے بھوکے لوگوں کو خوراک کے حصول کے لیے کئی کلومیٹر پیدل چلنے پر مجبور کرتی ہے لیکن کھانے کے بجائے وہ اسرائیلی فوج کی بندوق کی گولیاں کھا رہے ہیں۔ یہ اب صرف ایک محاصرہ نہیں، ایک انسانی شکار ہے۔
غزہ میں لوگوں بالخصوص بچوں کی صورتحال انتہائی غیر انسانی اور تباہ کن ہے۔ یہاں تک کہ یہ کہنا کہ ان کی صرف ہڈیاں اور کھال بچی ہیں، موجودہ صورتحال کی درست وضاحت نہیں ہو سکتی۔ غاصب صیہونی گروہ اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے، جس کے نتیجے میں کوئی خوراک، دوا، ایندھن یا امداد اندر نہیں جانے دی جا رہی۔ نتیجتاً پورے علاقے میں قحط، بھوک، پیاس اور بیماریوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ اسرائیل کی قاتل فوج غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے مقامات پر جمع بھوکے فلسطینیوں کو اس وقت نشانہ بناتی ہے جب وہ ایک چھوٹی سی آٹے کی تھیلی یا تھوڑا سا پینے کا پانی حاصل کر کے اپنے پیاروں کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔
ان مناظر کو غاصب اسرائیلی حکومت اور اسرائیل کا میڈیا لوگوں کی انٹرٹینمنٹ کے لیے پیش کرتا ہے۔ صہیونی گینگ جو اپنے آپ کو فوج کہتی ہے، بچوں کو قتل کرنے کی ویڈیوز اس انداز میں جاری کرتی ہے جیسے وہ کھیل اور تفریح کا سامان ہوں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بچوں کے حقوق، انسانی حقوق اور وہ تمام نعرے جو مغرب گلے پھاڑ پھاڑ کر بلند کرتا ہے، وہ سب کہاں چھپ گئے ہیں؟ کیا انسانیت کا معیار صرف مخصوص قوموں کے لیے ہے؟ بہرحال غزہ کی موجودہ صورتحال یہی ہے۔ بھوک اور پیاس سے بچے مر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ غزہ میں آج نہیں بلکہ گزشتہ چند ماہ سے جاری ہے۔ اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے۔
مظلوم فلسطینیوں کو قتل کرنے والی صرف اسرائیلی فوج ہی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ یہی غاصب فوج جب ان لوگوں کو قتل کرنے کے بعد جو منرل واٹر پینے کے لیے استعمال کرتی ہے وہ ہمارے ہی مسلمان ممالک کی حکومتوں کی جانب سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ ایسی اور متعدد اشیاء ہیں جو مسلسل بے گناہوں کی قاتل اسرائیلی فوج کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مسلمان ممالک کی جانب سے سپلائی کی جا رہی ہیں، یہ جو مسلمان ممالک اسرائیل کو کھانے پینے اور روزمرہ استعمال کی اشیاء سپلائی کر رہے ہیں، ابھی تک ایک روٹی کا آٹا بھی غزہ کے مظلوموں تک نہیں بھیجا گیا ہے۔ مزید برآں یہ ممالک انسانیت کا خون بہانے والوں کو گلے لگانے تیار رہتے ہیں۔
حقیقت میں اسرائیلی غاصب فوج تو فلسطینیوں کی نسل کشی کی ذمے دار ہے ہی لیکن اس غاصب فوج کے ساتھ ساتھ یہ سارے مسلمان حکمران، جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں، اشیائے خورونوش اسرائیل کے لیے بھیج رہے ہیں، یہ غاصب صیہونی فوج کی طرح فلسطینیوں کی نسل کشی کے برابر کے ذمے دار اور شریکِ جرم ہیں۔ غزہ میں آج جو کچھ ہو رہا ہے، یعنی غزہ میں غاصب اسرائیل کی طرف سے عام شہریوں، بالخصوص حاملہ خواتین اور ضعیف العمر افراد پر ڈھائے جانے والے مظالم، پوری انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ روزانہ درجنوں خاندان نیست و نابود ہو رہے ہیں، غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ ہولناک نسل کشی ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ساری صورتحال میں مسلم دنیا کے حکمران کہاں ہیں؟ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی خاموشی معنی خیز ہے۔ وہیں دوسری طرف یورپ کے سب سے بڑے اور طاقتور ملک فرانس نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرکے مظلوم حامیوں میں شامل ہو گیا ہے۔ اب تک دنیا کے کم از کم 142 ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں۔ تاہم امریکہ اور اسرائیل اس فیصلے کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ اسی طرح کینیڈا نے بھی فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت میں اپنی کوششیں مزید تیز کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وزیراعظم مارک کارنے نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی اصولوں کا احترام کرے۔
مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کے دوران برطانیہ کے 221 اراکین پارلیمنٹ نے وزیراعظم اسٹارمر کو خط لکھا ہے کہ آئندہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی فلسطین سے متعلق کانفرنس کے دوران فلسطین کی ریاست کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کریں۔ دیکھا جائے تو اقوامِ عالم کی لیڈرشپ اور اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ حکام مسلسل غزہ کے لیے ہمدردیاں جتا رہے ہیں لیکن ان کی ہمدردیوں کا غاصب اسرائیل پر کوئی اثر ہوتا نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے حالات میں مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے اسلامی کردار کو عمل میں لائیں اور برادرانِ اسلام کو غاصب اور ظالموں سے محفوظ کرنے کے لیے پائیدار اقدامات کریں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔