جب ہم گاندھی کی عزت تو کرتے تھے انقلابی نہیں مانتے تھے

سماجی حقائق سے روبرو ہونے اور زمینی جدوجہد سے نبرد آزما ہونے کے بعد احساس ہوا کہ جس راستے پر ہم لوگ بڑھ رہے ہیں وہ تو گاندھی کا ہی راستہ ہے۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

انل پرکاش

کئی لوگوں کو گاندھی کا راستہ غیر فطری معلوم ہوتا ہے۔ جب میں اسکول کا طالب علم تھا تبھی میں نے گاندھی جی کی سوانح عمری (ستیہ کے پریوگ) پڑھی تھی اور اس سے بہت متاثر ہوا تھا۔ اس وقت میں نے ان کے ذریعہ دیئے گئے سبق کو زندگی میں اتارنے کی کوشش کی تو ناکامی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ تب مجھے بھی ایسا ہی لگنے لگا تھا کہ گاندھی کا راستہ شاید فطری نہیں ہے۔ میرا کم سن من سماج میں تبدیلی کے خواب لیے نئے راستے کی تلاش میں مصروف ہو گیا۔ 69-1968 کا سال رہا ہوگا۔ میں کالج کی پڑھائی کے لیے گاؤں سے مظفر پور آ چکا تھا۔ تب مظفر پور (بہار) کا مسہری ڈویژن اور مونگیر ضلع کے سوریہ گڑھا ڈویژن میں مسلح نکسل تحریک عروج پر تھی۔ نکسلیوں نے جب کچھ سروودے کارکنان کا قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور ان کی فہرست جاری کی تو جے پرکاش نارائن اپنی بیوی پربھاوتی دیوی کے ساتھ مسہری پہنچے۔ ان کی ’ترون شانتی سینا‘ بھی وہاں پہنچی۔ یہ لوگ تشدد سے پاک انقلاب کا پیغام دینے لگے۔ تب مظفر پور کی دیواروں پر دو طرح کے نعرے لکھے ہوتے تھے۔

نکسلوادی مسلح انقلاب میں یقین کرنے والوں کا نعرہ تھا ’خون خون سرمایہ کاروں کا خون‘۔ دوسری طرف جے پی کی ’ترون شانتی‘ کا نعرہ تھا ’ظلم کرو مت، ظلم سہو مت‘۔ اس وقت ہمارا کم سن من ان دونوں طرح کے نعروں سے متاثر ہوا تھا۔ جے پرکاش نارائن نے مسلح جدوجہد میں لگے لوگوں سے بات شروع کی۔ وہ گاؤں گاؤں گھومنے لگے، زمینی سچائیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ سماجی و اقتصادی نابرابری اور استحصال کے رہتے سماج میں امن ممکن نہیں ہے۔ تبدیلی کے لیے پرامن عوامی جدوجہد ضروری ہے۔ مسہری کے تجربے سے جے پی کو بھی ایک نیا راستہ ملا اور انھوں نے ’فیس ٹو فیس‘ (آمنے سامنے) نامی ایک کتاب لکھی۔ نئی نسل کے لوگ یہ جان کر حیران ہو سکتے ہیں کہ جے پی کی اس کتاب کا پیش لفظ محترمہ اندرا گاندھی نے لکھا تھا۔ اس کتاب سے میرے جیسے نوجوانوں کو آگے کا راستہ نظر آیا تھا۔ اس واقعہ کو یہیں پر روکتے ہیں۔

1977-78میں ہم گاندھی کی عزت تو کرتے تھے لیکن ان کو انقلابی نہیں مانتے تھے۔ لیکن جب سماجی حقائق سے روبرو ہونے لگے اور زمینی جدوجہد سے نبرد آزما ہونے لگے تو سمجھ میں آنے لگا کہ جس راستے پر ہم لوگ بڑھ رہے ہیں وہ تو گاندھی کا ہی راستہ ہے۔ بہار میں زمین پر ان زمینداروں کا ناجائز قبضہ رہا ہے جو خود زراعت نہیں کرتے۔ بہار میں چلی آ رہی نسل پرستانہ ذہنیت اور سرمایہ دارانہ استحصال کی یہ بڑی بنیاد رہی ہے۔ بہار کی اقتصادی ترقی میں بھی یہ بہت بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ آزادی کی لڑائی کے دوران سوامی سہجانند سرسوتی نے بے زمین کسانوں کی لڑائی شروع کی تھی۔ سماجوادیوں اور کمیونسٹوں نے بھی زمین کی لڑائی میں بڑا کردار نبھایا تھا۔ تب یہ سب لوگ کانگریس کے اندر ہی آزادی کی تحریک کے اہم حصے تھے۔ آزادی کے بعد بھی پورے بہار میں اراضی تحریک چلی لیکن زمین کی از سر نو تقسیم بہت کم ہوئی۔ پورنیہ میں نکشتر مالاکار نے استحصال کرنے والے زمینداروں کی ناک میں دَم کر رکھا تھا۔ اس وقت اراضی تحریک کی مخالفت کرنے والے مذاق اڑاتے تھے کہ ’’دولت اور زمین تقسیم ہو کر رہے گی، ہمّر توہر چھوڑ کر‘‘۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس زمانے میں اراضی تحریک چلانے والے بڑے لیڈروں نے اپنی خود کی سیلنگ سے فاضل زمین بے زمین کسانوں کے درمیان تقسیم نہیں کی۔ ایک استثنائی حیثیت جے پرکاش نارائن کی تھی۔ آزدای کے کافی پہلے ایک بار انھیں بہار کے گیا ضلع میں اراضی تحریک کی قیادت کرنی تھی۔ پہلے وہ اپنے گاؤں گئے۔ انھوں نے اپنی 400 بیگہے کی پشتینی زمین اپنے گاؤں کے 400 بے زمین کسانوں کے درمیان تقسیم کر دی۔ اس کے بعد ہی وہ اراضی تحریک کی قیادت کرنے گئے۔ یہ بات 1975 کے آغاز میں اس رائٹر کو وہاں کے گاؤں والوں نے بتائی تھی۔ زیادہ تر لیڈروں کے کہنے اور کرنے کا یہی فرق اراضی تحریک کی ناکامی کا ایک اہم سبب رہا ہے۔ ونوبا بھاوے کے ذریعہ اراضی عطیہ تحریک کے دوران بہار (اس وقت جھارکھنڈ بھی بہار میں ہی تھا) میں تقریباً 22 لاکھ ایکڑ زمین عطیہ میں حاصل ہوئی تھی لیکن بہت کم زمین بے زمینوں کو حاصل ہو سکی۔ بہت سی زمین ندی یا پہاڑ کی شکل میں تھی، کچھ ناقابل زراعت تھی۔ آج بھی لاکھوں زمین عطیہ میں حاصل کرنے والے کسان ہیں جنھیں زمین کا پرچہ تو ملا لیکن زمین عطیہ کرنے والوں نے قبضہ نہیں چھوڑا، یا پھر سے قبضہ کر لیا۔ ایسے ماحول میں 1967 کے آس پاس مغربی بنگال کے نکسل باڑی سے مسلح نکسلزم تحریک شروع ہوئی تھی جو بعد میں بہار اور ملک کے دیگر حصوں میں پھیل گئی تھی۔ لیکن ملک کی پیچیدہ سماجی، اقتصادی، ثقافتی بناوٹ کو نہ سمجھ پانے اور اس کے مطابق پالیسی تیار نہ کر پانے کے سبب یہ محدود اثر ہی ڈال سکا اور دھیرے دھیرے سمٹ گیا۔ ہندوستانی سماج مسلح جدوجہد کی کشیدگی بھی زیادہ وقت تک قبول نہیں کر پاتا۔ لیکن یہ سوچ بھی درست نہیں ہے کہ پولس کی سختی سے ہی ایسی تحریکوں کو دبایا جا سکتا ہے۔

بہار میں مٹھوں، مندروں کے نام پر بھی لاکھوں ایکڑ زمین پر زمینداروں کا قبضہ رہا ہے۔ ایسا ہی ایک مٹھ ہے بودھ گیا کا شنکر مٹھ، 1978 میں مٹھ کے مہنت تھے دھن سکھ گری۔ لیکن مٹھ کا اصلی اقتدار مٹھ کے منیجر جے رام گری کے ہاتھوں میں تھا۔ جے رام گری بہار حکومت میں مذہبی امور کے وزیر رہ چکے تھے۔ ان کا بڑا رتبہ تھا۔ جب بھی گیا ضلع میں کوئی نیا ایس پی یا ڈی ایم آتا تو مٹھ میں حاضری لگاتا۔ مٹھ کی جانب سے انھیں دودھ پینے کے لیے ایک گائے دی جاتی۔ اس مٹھ کے قبضے میں تقریباً 10 ہزار ایکڑ زمین 22 جعلی ٹرسٹوں اور 448 نقلی ناموں (بے نامی) پر تھی۔ بے زمین مزدور (جو زیادہ تر بھوئیاں ذات کے تھے) کا زبردست استحصال ہو رہا تھا۔ جیسے ہی کسی کی بیٹی یا بیٹا 10-8 سال کا ہوتا، اس کی شادی کر دی جاتی۔ شادی کے لیے مٹھ سے کچھ اناج اور پیسہ ملتا تھا جس کے عوض میں لڑکا و لڑکی دونوں کو مٹھ کا بندھوا بنا لیا جاتا تھا۔ کھیت میں دن بھر کی محنت کے بعد 1 سیر (کچا) یعنی تقریباً 450 گرام دھان ملتا تھا۔ ساتھ میں آدھا سیر (کچا) یعنی 225 گرام بھوسے سمیت دھان کا ستّو ملتا تھا۔ اس کے ساتھ مہوا خرید کر شراب بنانے کے لیے تھوڑا سا پیسہ ملتا تھا جسے پیانکی کہتے تھے۔ سخت دھوپ، برسات یا زبردست ٹھنڈ میں دن بھر کی سخت محنت کے بعد بھوئیاں لوگ مٹی کی ہنڈیا میں گھر کی بنی شراب پی کر اپنی بیویوں، بچوں کو پیٹتے۔ اپنے اوپر ہو رہی ناانصافی اور استحصال پر سوچنے کی ان کی طاقت ختم کر دی گئی تھی۔ اتنا ہی نہیں، ہر گاؤں میں مٹھ کی جانب سے بھوئیاں ذات کا ہی ایک اوجھا رکھا جاتا تھا۔ جب کسی کے پیٹ میں تیز درد ہونے لگتا، الٹی ہوتی، کسی کو تیز بخار ہوتا تو اوجھا کو بلایا جاتا۔ اوجھا ایک بوتل دارو اور ایک مرغ لیتا اور دیوتا یا بھوت کھیلانے کا ڈرامہ کرتا۔ وہ بتاتا کہ اس آدمی نے مٹھ کی زمین سے فصل چرائی ہے اسی لیے اسے دیوتا یا بھوت نے پکڑ لیا ہے۔ اوجھا بھوت چھڑاتا۔ ایسا تھا مٹھ کے استحصال کا چکرویوہ۔

ایسے ماحول میں ہم لوگوں نے جب ’چھاتر یوا سنگھرش واہنی‘ اور ’مزدور کسان سنگھرش سمیتی‘ کی جانب سے مٹھ کے اراضی استحصال کے خلاف تحریک کی تیاری شروع کی تو گاؤں میں میٹنگ کرنا بھی مشکل تھا۔ شام میں جب میٹنگ شروع ہوتی تو نشے میں لوگ آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے لگتے اور میٹنگ ختم ہو جاتی۔ ایسے میں شراب کے خلاف مہم چلانا پہلی ضرورت بن گئی۔ خواتین اور بچے شراب سے بے حال تھے۔ وہ منظم ہوئے اور اپنے اپنے مٹی کے گھروں سے شراب کی ہنڈیا نکال نکال کر پھوڑنے لگے۔ بودھ گیا کے بغل کے گاؤں مستی پور میں جس دن یہ شروع ہوا تو شراب کے عادی مرد اپنی اپنی بیوی بچوں کو پیٹنے لگے تھے۔ لیکن ہنڈیا کا پھوڑنا نہیں رکا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہنڈیا پھوڑ کر شراب بند کرنے کا یہ سلسلہ اس علاقے کے سینکڑوں گاؤں میں پھیل گیا۔ جلدی ہی ہمارے ساتھیوں کی سمجھ میں آ گیا کہ گاندھی کی نشہ بندی کے پروگرام کو محض ایک اصلاحی کام سمجھتے تھے لیکن وہ کتنا انقلابی ثابت ہوا۔ اگر نشہ بندی اور اوجھا گُنی کے اندھ وشواس کو ختم کرنے کا ثقافتی مہم نہ چلا ہوتا تو استحصال کے شکار لوگ نہ تو منظم ہو پاتے اور نہ ہی مٹھ کے اراضی استحصال کو ختم کیا جا سکتا۔ اس پرامن اراضی تحریک میں 167 مقدمے ہوئے۔ بڑی تعداد میں لوگ جیل گئے۔ تشدد سے پاک مخالفت کرتے ہوئے رام دیو مانجھی اور پانچو مانجھی مٹھ کے غندوں کی گولی کھا کر شہید ہو گئے اور کئی دیگر زخمی بھی ہوئے۔ لیکن بالآخر 10 ہزار ایکڑ زمین پر بے زمین کسانوں کا قبضہ ہوا۔ بعد میں حکومت نے مردوں کے نام زمین کے پرچے دیئے۔ ان سرکاری پرچوں کو اس مطالبہ کے ساتھ واپس کر دیا گیا کہ خواتین کے نام دیئے پرچے ہی قبول کیے جائیں گے۔ کچھ ہی دنوں کی جدوجہد کے بعد سرکار نے ہر خواتین کے نام زمین کے پرچے جاری کیے۔ چھوٹی عمر میں ہونے والی شادیوں پر سماجی پابندی لگی۔ بعد میں اس تحریک کا اثر یہ ہوا کہ پورے گیا ضلع کے بے زمین کسانوں نے تقریباً 15 ہزار ایکڑ اضافی زمین بڑے زمینداروں کے قبضے سے آزاد کرائی۔ اس اراضی ستیہ گرہ کے دوران یہ بھی سمجھ میں آ گیا کہ متنوع ذاتوں والے ہمارے سماج میں تشدد سے پاک جدوجہد کا راستہ ہی فطری ہے۔

آج پوری دنیا گلوبل وارمنگ سے نبرد آزما ہے۔ قدرت کی خوبصورتی اس کے تنوع میں پنہاں ہے۔ جغرافیائی تنوع، ماحولیاتی تنوع اور درختوں و پھولوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے تنوع پر فطرت کا وجود منحصر ہے۔ قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جب بہت بڑھ جاتی ہے تب اس کی بھیانک شکل سامنے آتی ہے۔ گاندھی جی نے اس کے لیے کافی پہلے ہی متنبہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان کی سینکڑوں ذاتوں، مذاہب، طبقات، ان کے رنگ اور شکل کے تنوع میں اس کی خوبصورتی اور طاقت مضمر ہے۔ جو لوگ اسے نہیں سمجھتے وہ اسے ایک رنگ میں رنگنے کی نادان کوششیں کر رہے ہیں۔ امید کرنی چاہیے کہ لوگ محتاط ہو کر ملک اور سماج کو گڈھے میں جانے سے بچا لیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Oct 2018, 7:06 AM