گاندھی کی خارجہ پالیسی کی کسوٹی، اعصاب کی پختگی ناگزیر...جگدیش رتنانی
امریکہ کی جارحانہ پالیسی کے پس منظر میں ہندوستان نے گاندھیائی ستیہ گرہ کو ڈھال بنایا ہے مگر امریکی دباؤ، اسرائیلی تعلقات اور تجارتی انحصار جیسے سوالات اس اصول کو کڑی آزمائش میں ڈالیں گے

اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ خارجہ پالیسی قومی مفادات کے گرد گھومتی ہے، اخلاقی اصولوں کے گرد نہیں۔ لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجارت سے لے کر ماحولیاتی تبدیلی تک نہایت احتیاط سے طے شدہ عالمی معاہدوں کو جس انداز سے الٹ پلٹ دیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ موجودہ امریکی پالیسی کی بنیاد وقتی اور مختصر المدتی سوچ پر منحصر ہے۔ ٹرمپ بے شک غیر معمولی صاف گو ہیں اور اپنی بات کہنے میں لگی لپٹی نہیں رکھتے، لیکن ان کی پالیسی امریکی روایت کے خلاف ہے، یہ بات بھی درست نہیں۔
یہ حقیقت 1970 کی دہائی میں سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے ایک تبصرے سے بالکل واضح ہو جاتی ہے، ’’امریکہ کا نہ کوئی مستقل دوست ہے، نہ مستقل دشمن۔ مستقل ہیں تو صرف اس کے اپنے مفادات۔ ’’نکسن دور کے ایک سفارت کار الیگزینڈر ہیگ نے کہا تھا کہ انہوں نے یہ بات خود کسنجر سے سنی تھی۔ امریکی صدور کا لب و لہجہ بدلتا رہا ہے لیکن ان کا عمل ہمیشہ اسی اصول کے مطابق رہا۔
نوبل انعام یافتہ بارک اوباما کی مثال لیجیے، جنہوں نے کسی اور صدر کے مقابلے میں افغانستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے سب سے زیادہ ہلاکتیں کیں۔ بین الاقوامی تعلقات پر 1939 میں شائع ایچ ایچ کار کی کتاب ’دی ٹوینٹی ایئرز کرائسز‘ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ اخلاقی اصولوں کی آڑ میں اپنے مفادات کو چھپانا سیاست کی مجبوری ہے۔ یہ تقریباً سو سال پرانی رائے آج بھی امریکی خارجہ پالیسی کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
موجودہ حالات میں سوال یہ ہے کہ امریکہ کے جارحانہ رویے کے مقابلے میں ہندوستان کا ردعمل کیا ہوگا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ابتدائی نرمی کے آثار دکھانے کے باوجود ہندوستان نے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ مثال کے طور پر اس نے زرعی اور ڈیری مصنوعات کی درآمد پر قابو ہٹانے پر اتفاق نہیں کیا، جس کا امریکہ طویل عرصے سے مطالبہ کرتا آیا ہے۔ ہندوستان کی جانب سے روس سے خام تیل کی خریداری پر واشنگٹن کو سخت اعتراض ہے اور یہی امریکہ کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ ہندوستان پر منڈی کھولنے کے لیے دباؤ ڈالے۔ فی الحال امریکہ نے ہندوستان پر پچاس فیصد ٹیرف عائد کیا ہوا ہے جو دنیا کے بلند ترین ٹیرف میں شمار ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے کوئی سبق لیا جائے گا؟ خاص طور پر جب آئی ٹی اور دیگر خدمات پر بھی نئے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
ہندوستان کے لیے چیلنج کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برآمدات کی مالیت کے اعتبار سے امریکہ کا حصہ تقریباً بیس فیصد ہے۔ یہ غیر معمولی انحصار ہے۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ ہندوستان اگرچہ دیر سے سہی، لیکن توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، پرانی شراکت داریوں پر نظرثانی کر رہا ہے اور نئے اتحاد تلاش کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نئی صورت حال ’اسٹریٹجک خودمختاری‘ کی کسوٹی پر کس حد تک پوری اترتی ہے۔
حالیہ ایس سی او اجلاس اس حوالے سے اہم تھا۔ ٹرمپ کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ بالکل درست تھا کہ نریندر مودی نے شی جن پنگ اور ولادیمیر پوتن کے ساتھ تصاویر کھنچوائیں۔ ٹرمپ اس دوران حد سے زیادہ برہم دکھائی دیے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور روس ’گہرے اور تاریک چین‘ کے ہاتھوں کھو رہے ہیں اور اس کا اثر ان کی ہندوستان کے ساتھ ’اٹوٹ‘ دوستی پر بھی پڑا۔
یہ حقیقت کہ امریکہ کے ساتھ سمجھوتے کی خواہش کے باوجود ہندوستان کو سزا ملی، واضح کرتی ہے کہ حد سے زیادہ جوش و خروش نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر جب اسے کسی خاص عالمی نظام میں شامل ہونے کی بے تابی سمجھا جائے۔ یہ اصول ہر حال میں درست ہے۔ ہندوستان پہلے ہی ایک طرف زیادہ جھکنے کی قیمت ادا کر چکا ہے۔
’نمستے ٹرمپ‘ یا ’ہاؤڈی مودی‘ جیسے بڑے پروگرام اور پھر ان کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، اسے ذاتی تعلقات کی کیمسٹری قرار دینا، یا پھر امریکہ کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے جون 2025 میں غزہ میں جنگ بندی پر اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کی قرارداد سے دور رہنا، یہ سب دوہرا نقصان لے کر آئے۔ نہ تو اس سے ہندوستانی مفادات محفوظ ہوئے اور نہ ہی اصولی موقف باقی رہا۔ نتیجہ یہ کہ ہندوستان نہ عملی ثابت ہوا نہ اصول پسند اور اس کا اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ خاص طور پر اس وقت جب ایس سی او سے وابستہ تمام ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، صرف ہندوستان نے اجلاس میں شرکت ہی نہیں کی۔ اس سے واضح تضاد پیدا ہوا۔
کچھ حلقے یہ دلیل دیتے ہیں کہ دنیا خود بخود ہندوستان کی طرف متوجہ ہوگی کیونکہ وہ جلد ہی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے والا ہے۔ لیکن اس کی ٹھوس بنیاد موجود نہیں۔ یقیناً دنیا کی دلچسپی ہندوستان میں بڑھ رہی ہے، لیکن اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مغربی کمپنیاں ہندوستانی منڈی تک کیسے رسائی حاصل کرتی ہیں۔ برآمدات کے لحاظ سے ہندوستان کے پاس متنوع امکانات کا فقدان ہے اور وہ امریکہ پر حد سے زیادہ انحصار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ دباؤ ڈالنے اور دھمکانے کی طاقت رکھتا ہے۔
اس سب کے درمیان یہ دلچسپ امر ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے جواب میں ہندوستان نے ’اسٹریٹجک خودمختاری‘ کے نظریے کو مضبوط بنانے کے لیے مہاتما گاندھی کا حوالہ دیا ہے۔ ایک اعلیٰ سرکاری ترجمان نے کہا، ’’ہم نے گاندھیائی ستیہ گرہ ماڈل پر عمل کیا ہے۔ آپ ہمیں ضرب لگاتے ہیں تو ہمیں تکلیف تو ہوتی ہے، لیکن ہم جوابی حملہ نہیں کریں گے۔ نہ ہم آپ کی بات مانیں گے اور نہ ہی کسی ایسے معاہدے پر دستخط کریں گے۔‘‘ یہ بات کہہ کر ہندوستان نے ایک اخلاقی بلندی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ گاندھیائی ستیہ گرہ اس سے کہیں زیادہ کا طلب گار ہے۔
جب اسرائیل غزہ کو لہولہان کر رہا ہے، تو وہی گاندھیائی اصول ہندوستان کے اسرائیل سے تعلقات پر سوال کھڑے کریں گے۔ اسی طرح اور بھی کئی مشکل سوال سامنے آئیں گے جنہیں حل کیے بغیر ہندوستان اس دنیا میں مضبوطی سے کھڑا نہیں ہو سکتا جو اب بھی گاندھی کے نام پر سر جھکاتی ہے۔
(مضمون نگار جگدیش رتنانی صحافی اور ایس پی جے آئی ایم آر میں فیکلٹی ہیں۔ مآخذ: دی بلین پریس)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔