آپ کی گاڑی کے پٹرول کا ’گڈکری کنکشن‘... آدتیہ آنند

آپ کی گاڑی میں دقتیں آ رہی ہوں تو برائے کرم چیک کرا لیں۔ ممکن ہے پٹرول میں زیادہ ایتھنول ہونے کی وجہ سے مسئلہ پیدا ہو رہا ہو۔

پٹرول ڈیزل / تصویر یو این آئی
i
user

آدتیہ آنند

بیشتر کار مالکان اس خبر سے حیران رہ گئے کہ اپریل 2025 سے وہ جو پٹرول خرید رہے ہیں، اُس میں 20 فیصد ایتھنول (ای-20) ملایا جا رہا ہے جو گنّے، مکئی، دیگر اناج اور اضافی فصل کے کچرے سے بنایا گیا ہے۔ پہلے اسے 2030 سے نافذ کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا لیکن اسے اچانک، خفیہ طریقے سے نافذ کر دیا گیا۔ اس سے لوگوں میں غصہ بھڑک اٹھا، خاص طور پر اس لیے کہ بیشتر کار ساز کمپنیاں ای۔20 کے بجائے ای۔5 یا ای۔10 کا مشورہ دیتی ہیں۔ صارفین کو نہ کوئی مشورہ دیا گیا اور نہ ہی پہلے سے کوئی انتباہ۔

اگرچہ گاڑی بنانے والی کمپنیوں نے سفارتی خاموشی اختیار کر رکھی ہے لیکن ڈیلر مانتے ہیں کہ عملی حالات میں اس سے ایندھن کی کارکردگی 2 تا 4 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔ سڑک پر، اور پرانی گاڑیوں کے لیے، یہ شرح اور بھی زیادہ ہو گی۔ حکومت نے ان خدشات کو رد کر دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ چھوٹے موٹے پرزے بدلنے سے کام چل جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مرکزی وزیرِ ٹرانسپورٹ نتن گڈکری کا ایتھنول کو ’مستقبل کا ایندھن‘ قرار دینے کا دعویٰ کھوکھلا ثابت ہوا ہے اور اُن کا یہ وعدہ بھی جھوٹا نکلا کہ ای۔20 کی قیمت صرف 22 روپے فی لیٹر ہو گی کیونکہ لوگ اب بھی 100 روپے سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔


حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کا قدم توانائی کے تحفظ سے متاثر ہے۔ ہندوستان اپنے خام تیل کا 85 فیصد سے زیادہ درآمد کرتا ہے، جس سے وہ عالمی قیمتوں کے جھٹکوں اور جغرافیائی سیاسی غیر یقینی حالات کے سامنے کمزور ہو جاتا ہے۔ ایتھنول آمیزش کا مقصد اُس تیل کے کچھ حصے کو گھریلو، قابلِ تجدید متبادل سے بدل کر انحصار کو کم کرنا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ پچھلی ایک دہائی میں 1.3 کھرب روپے سے زیادہ کی بچت ہوئی ہے اور اس طرح کی آمیزش بڑھنے کے ساتھ مزید بچت کی توقع ہے۔ لیکن اس قدم کے ناقدین ان دعووں کے شواہد پر سوال اٹھاتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ اصل فائدہ بڑے کسانوں، شوگر کوآپریٹو سوسائٹیوں اور صنعت کو ملتا ہے نہ کہ وسیع معیشت کو۔

قومی بایو فیول پالیسی 2018 میں بنائی گئی اور 2022 میں اس میں ترمیم کی گئی۔ اس نے فیڈ اسٹاک کو بڑھا کر اور اہداف کو آگے بڑھا کر ایتھنول ملاوٹ کو رفتار دی۔ 2022 میں ای۔10 معیار بن گیا، اور 2025 کے آغاز تک ای۔20 وسیع پیمانے پر دستیاب ہو گیا، جس سے ہندوستان سب سے تیزی سے بڑھتے ہوئے ایتھنول بازاروں میں سے ایک بن گیا۔ سبسڈی والے قرضے، مقررہ ایتھنول قیمتیں اور اضافی اناج کے استعمال نے اسے اور بھی فروغ دیا۔ صارفین کی وکالت کرنے والے گروپ ’فورم فار فیئر فیولز‘ نے بار بار یہ سوال اٹھایا ہے کہ ’کیا ایتھنول کی لازمی آمیزش کے تیزی سے نفاذ سے شفافیت اور منصفانہ عمل پر سمجھوتہ ہوا ہے؟ کیا اس سے صارفین کے اختیارات کم ہوئے ہیں اور کیا بغیر مناسب حفاظتی اقدامات یا معاوضے کے اس سے پرانی گاڑیوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے؟‘

ساتھ ہی یہ سوال بھی اہم ہیں کہ...


کیا ایتھنول کی ملاوٹ ایندھن کی قیمتیں کم کرتی ہے؟

اس کا مقصد چاہے پٹرول کو سستا بنانا ہو، لیکن یہ بچت صارفین تک شاذ و نادر ہی پہنچی ہے۔ 20-15 فیصد ایتھنول ملاوٹ نظریاتی طور پر پمپوں پر قیمتیں 3.5 تا 8 روپے فی لیٹر تک کم کر سکتی ہے۔ تاہم، جیسا کہ جے ایم کے ریسرچ اینڈ اینالٹکس کے توانائی ماہر سنجیو کمار بتاتے ہیں کہ ’’خوردہ پٹرول کی قیمتیں زیادہ تر عالمی خام تیل کی شرحوں اور مختلف ٹیکسوں سے طے ہوتی ہیں، جو ایتھنول سے حاصل ہونے والے کسی بھی لاگت فائدے کو کم کر دیتی ہیں۔‘‘ کچھ صورتوں میں، ایتھنول خریدنے کی لاگت پٹرول کی قیمت کے برابر یا اس سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اور چونکہ ایتھنول میں پٹرول کے مقابلے میں تقریباً 30 فیصد کم توانائی ہوتی ہے، اس لیے ایندھن کی کارکردگی 3 تا 7 فیصد کم ہو جاتی ہے۔ کچھ صارفین نے اس میں 15 فیصد تک کی کمی درج کی ہے۔ گاڑی چلانے والے انجانے میں ہی زیادہ بل ادا کر رہے ہیں، فی کلومیٹر زیادہ خرچ کر رہے ہیں اور بالواسطہ طور پر ایتھنول صنعت کو سبسڈی دے رہے ہیں۔

یہ منصوبہ کتنا شفاف ہے؟

ترسیل سے پہلے او ایم سی (آئل مارکیٹنگ کمپنی) کے ڈپو پر پٹرول میں ایتھنول ملایا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ صارفین درست آمیزش کی معلومات کے بغیر ہی ای۔10 یا ای۔20 بھرواتے ہوں گے۔ ایک مثال برازیل کی ہے۔ وہاں پمپوں پر آمیزش کا واضح اشارہ ہوتا ہے۔ لیکن ہندوستان میں ایسی کوئی لیبلنگ نہیں ہے جس سے ڈرائیور انجانے میں ایک خاموش تجربے میں شریک ہو جاتے ہیں۔


حال ہی میں سپریم کورٹ میں ایک عوامی مفاد کی عرضداشت دائر کی گئی تھی جس میں پرانی گاڑیوں کے لیے ایتھنول لیبلنگ اور ایتھنول سے پاک پٹرول کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن کورٹ نے اسے خارج کر دیا۔ کورٹ نے ذاتی پسند کے بجائے توانائی کے تحفظ اور کسان بہبود کو ترجیح دینے کے حکومت کے مؤقف کی حمایت کی۔ ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ اس سے صارفین کے حقوق اور گاڑیوں کی وارنٹی کمزور ہوتی ہیں، جبکہ قوانین ڈرائیوروں کو کار ساز کمپنیوں کے رہنما اصولوں پر عمل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

ای۔5، ای۔10، ای۔20 کا مطلب کیا ہے؟

پالیسی کمیشن کی رپورٹ ’ہندوستان میں ایتھنول ملاوٹ کا روڈمیپ 25-2020‘ بتاتی ہے کہ ای۔5، ای۔10، ای۔20 صرف پٹرول میں ایتھنول کے فیصد کو ظاہر کرتے ہیں۔ یعنی ای-5، ای-10 اور ای-20 میں بالترتیب 5 فیصد، 10 فیصد اور 20 فیصد ایتھنول شامل ہوتا ہے۔


تشویشات اور تجاویز کیا ہیں؟

پالیسی کمیشن کی رپورٹ موسمی فصل کے اتار چڑھاؤ سے سپلائی خطرات کی طرف اشارہ کرتی ہے اور متنوع ایتھنول فیڈ اسٹاک کی بات کرتی ہے۔ اس میں ایندھن کی لیبلنگ کو مزید واضح کرنے، صارفین میں آگاہی بڑھانے اور ریگولیٹری و بنیادی ڈھانچے کی کمی کو دور کرنے کے لیے بہتر بین الوزارتی ہم آہنگی پر زور دیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ موجودہ قیمتوں اور ٹیکس پالیسیوں سے صارفین کے لیے ایتھنول کے لاگت فائدے کم ہوتے ہیں لیکن روڈمیپ میں مالیاتی مراعات اور بہتر پالیسی بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ ایتھنول ملاوٹ کو ’قومی ترجیح‘ کے طور پر تیار کیا گیا ہے جس کے لیے مرحلہ وار نفاذ، اسٹیک ہولڈر ہم آہنگی اور پائیدار اثر کے لیے احتیاط سے ڈیزائن درکار ہے۔

ای۔20 پر انڈسٹری کی کیا رائے ہے؟

جدید فلیکس فیول انجن ای۔20 کو سنبھال سکتے ہیں، کیونکہ ایتھنول کی اعلیٰ آکٹین ریٹنگ کی وجہ سے دہن بہتر ہوتا ہے اور انجن کی آواز کم ہو جاتی ہے۔ تاہم، اس کی کم توانائی مائلیج کو کچھ کم کر دیتی ہے اور پرانی گاڑیوں میں زنگ لگنے کا خطرہ رہتا ہے۔ ماروتی سوزوکی نے خبردار کیا ہے کہ ای۔10 تو محفوظ ہے، لیکن مسائل سے بچنے کے لیے ای۔20 کو انجن کی دوبارہ کیلیبریشن اور سخت نگرانی کی ضرورت ہے۔


ہونڈا موٹرسائیکلز نے ای۔20 ایندھن پر چلنے والی پرانی دو پہیہ گاڑیوں میں زنگ لگنے کے خطرے کی وارننگ دی ہے۔ بجاج آٹو کے منیجنگ ڈائریکٹر راجیو بجاج پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ’’ایتھنول ملاوٹ کے وسیع استعمال سے پہلے تیار کیے گئے بجاج کے پرانے ماڈلز میں مواد کی مطابقت کے مسائل کے باعث ای۔20 انجن پر برا اثر ڈال سکتا ہے۔‘‘

سوسائٹی آف انڈین آٹوموبائل مینوفیکچررز نے تک ایک وارننگ بھرا بیان جاری کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’ایتھنول ملاوٹ کے سلسلے میں حکومتی پالیسیوں کو گاڑیوں کی ٹیکنالوجی کی تیاری کے ساتھ جوڑا جانا چاہیے۔ اس کے لیے ایک مرحلہ وار نقطۂ نظر اہم ہے کیونکہ صارفین کو مناسب بنیادی ڈھانچے اور اس کے مطابق گاڑیاں فراہم کیے بغیر اعلیٰ ملاوٹ استعمال کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔‘‘


اصل فائدہ کسے ہے؟

ہندوستان کی ایتھنول پالیسی کے تحت شوگر ملوں اور ڈسٹلریوں کو ضمانتی خرید اور یقینی قیمتوں کا فائدہ ملتا ہے، جبکہ فلیکس فیول کی تیاری لازمی ہونے سے کار ساز کمپنیوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس سے کسانوں کو فائدہ ہے، اس کے باوجود، ایتھنول کے فوائد بڑے پیمانے پر چھوٹے کسانوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ گنے کی فصل میں پانی کی زیادہ کھپت ہوتی ہے۔ یہ اس کے پیداوار میں سب سے زیادہ شامل ہے اور اس کا منافع زیادہ تر شوگر ملوں کو جاتا ہے، نہ کہ گنا اُگانے والے کسانوں کو۔ کسان رہنما راجو شیٹی نے کہا کہ ’’ہم میں سے بہت کم کسانوں کو ہی اس کا فائدہ ملتا ہے۔ چھوٹے اناج پیدا کرنے والے کسان کنارے پر چلے جاتے ہیں جبکہ شوگر ملیں منافع کماتی ہیں۔‘‘

ایتھنول پیداوار میں اناجوں کا استعمال بھی تشویشناک ہے۔ 2025 میں، انڈین فوڈ کارپوریشن سے 50 لاکھ ٹن سے زیادہ چاول ایتھنول پیداوار میں استعمال کیا گیا۔ حکام زور دیتے ہیں کہ یہ اضافی یا ٹوٹا ہوا چاول ہے جو کھانے کے قابل نہیں ہے، لیکن ناقدین اس قدم کی مذمت کرتے ہیں اور اسے ایسے ملک میں غیر اخلاقی قرار دیتے ہیں جو ابھی بھی وسیع پیمانے پر غذائی قلت سے لڑ رہا ہے۔ ایندھن کے لیے اناج جلانا پالیسی تضادات کو اجاگر کرتا ہے اور ترجیحات پر سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔


گڈکری کا کنکشن کیا ہے؟

مہاراشٹر اور اتر پردیش جیسے گنا پیدا کرنے والے ریاستوں میں سیاسی لابیاں جمی ہوئی ہیں۔ مرکزی وزیر نتن گڈکری ایتھنول کی بھرپور وکالت کرتے ہیں اور اُن کے خاندان سے جڑی کمپنیاں، خاص طور پر سیان ایگرو انڈسٹریز اور مانس ایگرو انڈسٹریز جس طرح اس میں شامل ہیں، وہ تحقیقات کے دائرے میں ہیں۔

سیان ایگرو انڈسٹریز کا انتظام نتن گڈکری کے بیٹے نکھل کرتے ہیں۔ 2024 کے آغاز میں یہ 17 کروڑ روپے کی کمپنی تھی۔ جون 2025 تک یہ 510 کروڑ روپے سے زیادہ ہو گئی۔ اس غیر معمولی اضافے کا سہرا زیادہ تر کئی ذیلی کمپنیوں میں تنوع (ڈائیورسفیکیشن) اور ایتھنول پیداوار سے پرے آمدنی کے ذرائع کو دیا گیا ہے۔ عوامی اعدادوشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ قومی سطح کے مقابلے میں اس کے ذریعے پیدا کیا گیا ایتھنول کم ہے۔ نتن گڈکری کے دوسرے بیٹے سارنگ سے جڑی ہے مانس ایگرو انڈسٹریز۔ یہ بھی ایتھنول پیدا کرتی ہے لیکن اس کی مالی تفصیلات کم ہی دستیاب ہیں۔ کسان رہنما راجو شیٹی کا اندازہ ہے کہ دونوں خاندانی کمپنیاں سالانہ صرف 8 تا 10 لاکھ لیٹر ایتھنول پیدا کرتی ہیں اور یہ ملک کی 1,685 کروڑ لیٹر ایتھنول صلاحیت کا 0.1 فیصد سے بھی کم ہے۔


ایتھنول پالیسی کو آگے بڑھانے کا وقت اور نتن گڈکری کی خاندانی کمپنیوں کے مالی فائدے کا تعلق مزید تنازعہ بڑھا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ گڈکری نے جس طرح ایتھنول کی بھرپور وکالت کی، اُس نے ان کی اپنی کمپنیوں کے لیے سازگار حالات پیدا کیے، جبکہ حامیوں کا کہنا ہے کہ اُن کی کمپنیوں کی پیداوار اتنی کم ہے کہ وہ قومی بازار کو متاثر نہیں کر سکتی۔

ہندوستان آگے کیسے دیکھ سکتا ہے؟

برازیل عالمی سطح پر قائد ہے، جو ای۔18 اور ای۔27 کے ساتھ ساتھ خالص ایتھنول (ای۔100) بھی فراہم کرتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ برازیل کے ڈرائیور مکمل طور پر آگاہ ہیں اور اُن کی گاڑیاں زیادہ تر فلیکس فیول کے مطابق ہیں۔ امریکہ ملک بھر میں تقریباً 10 فیصد ایتھنول کی ملاوٹ کرتا ہے، اور مخصوص ریاستوں میں اعلیٰ ملاوٹ بھی واضح طور پر نشان زد ہیں۔ وسیع فلیکس فیول گاڑیوں یا آگاہ صارفین کے بغیر ہندوستان کا ای۔20 کی طرف بڑھنا نہایت غیر معمولی اور ممکنہ طور پر بوجھل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔