ریاضی نہیں، مہورت! طلبہ کو جدید علم سے دور لے جاتا یو جی سی کا نصاب
یو جی سی کے مجوزہ ریاضی کے نصاب میں جدید تعلیم کی بجائے ویدک ریاضی، شلب سوتر اور شادی کے مہورت جیسے ابواب شامل کیے گئے ہیں، جس سے طلبہ کے مستقبل کے عالمی دھارے سے کاٹ جانے کا خطرہ پید ہو گیا ہے

یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نے 20 اگست 2025 کو قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020 کے تحت اپنے ’لرننگ آؤٹ کم بیسڈ کریکولم فریم ورک‘ (ایل او سی ایف) کے سلسلے میں ایک نوٹس جاری کیا۔ اس نئے مجوزہ نصاب میں ریاضی کا ایک ایسا حصہ شامل کیا گیا ہے جو حیران کن ہے۔
جدید ریاضی یعنی عملی، نظریاتی، اور کمپیوٹیشنل پہلوؤں میں طلبہ کی استعداد بڑھانے کے بجائے یو جی سی نے ایک ایسا نصاب تیار کیا ہے جو ’قدیم ہندوستانی‘ نظریات میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس میں فارمولوں پر مبنی حساب و کتاب، الجبرا، سورج اور چاند کی حرکات پر مبنی ’کال گننا‘ (یعنی وقت شماری)، شُلب سوتر سے ویدک جیومیٹری اور مہورت جیسے ابواب شامل ہیں۔
یہ کوشش دراصل جدید ریاضی کے دور میں قرونِ وسطیٰ کے فلکیاتی و کاسمولوجیاتی تصورات کو زبردستی شامل کرنے کا ہتھیار ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تعلیمی نظام کی بھگوا کاری کی ایک اور کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ محض ایک غیر سنجیدہ خیال نہیں بلکہ ہندوستان کے نوجوان ریاضی دانوں کے مستقبل کے ساتھ ایک سنگین کھیل ہے۔
یو جی سی کے اس مجوزہ نصاب کے مرکز میں وہی ویدک ریاضی ہے جسے بیسویں صدی میں بھارتی کرشن تیرتھ نے فروغ دیا تھا۔ اس میں ضرب، تقسیم، جذر اور فیکٹرائزیشن کے لیے محض ذہنی حساب کی چالاکیاں ہیں۔ یہ دراصل ریاضی کا کوئی منظم ڈھانچہ نہیں بلکہ شارٹ کٹس ہیں جو محض دماغی کھیل کی مانند ہیں۔
دنیا بھر میں ریاضی کی تعلیم دلیل پر مبنی مطالعہ، تجرید، ثبوت اور الگورتھم کی مہارت پر مرکوز ہے۔ اس کے برعکس ’فارمولوں پر مبنی گنتی‘ ریاضی کو محض ٹرکس کا مجموعہ بنا دیتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے فزکس کے طالب علموں کو میکسویل کے مساوات سکھانے کے بجائے مقناطیس کے کرتب سکھائے جائیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ان ’فارمولوں‘ کا ویدوں میں کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں۔ ویدک ریاضی کا ظہور بارہویں اور تیرہویں صدی میں ہوا، جو آریہ بھٹ، برہما گپت اور بھاسکر دوم کے عہد کے بعد کا زمانہ تھا۔ اس طرح کے شارٹ کٹس کو ’قدیم ہندوستانی ایجادات‘ کے طور پر پیش کرنا نہ صرف تاریخ کو مسخ کرنا ہے بلکہ طلبہ کو بھی گمراہ کرنا ہے۔
اسی طرح وقت شماری ایک انسانیات کا موضوع تو ہو سکتا ہے، مگر جدید ریاضی کے نصاب میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ آج وقت کی پیمائش ایٹمی گھڑیوں، جی پی ایس سنکرونائزیشن اور نسبتی تصحیحات پر مبنی ہے، جو فزکس کا حصہ ہیں۔ طلبہ کو سورج و چاند کی حرکات سے وقت ناپنا سکھانا زیادہ سے زیادہ فلکیات کی تاریخ یا بشریات کے نصاب میں شامل ہو سکتا ہے، ریاضی کے بنیادی نصاب میں نہیں۔
ورنہ یہ نصاب ایسے گریجویٹس تیار کرے گا جو جدید الگورتھم اور اے آئی کے بجائے شادی بیاہ کے مہورت نکالنے میں ماہر ہوں گے، جو کسی بھی قوم کے لیے ایک خطرناک رجحان ہے۔
سب سے زیادہ متنازع شق وہ ہے جس میں ’شُلب سوتر‘ سے ویدک جیومیٹری شامل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ یہ دراصل یگیہ کی قربان گاہوں کی تعمیر سے متعلق پرانے متون ہیں۔ ان میں شُلب یعنی ڈوریاں کھینچ کر چوکور، مستطیل اور مثلث بنانے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں بعض تخمینے پائتھاگورس تھیورم سے مشابہ ہیں۔
یہ متون تاریخی لحاظ سے اہم ضرور ہیں، لیکن آج کے ریاضی دان کے لیے ان میں کوئی عملی افادیت نہیں۔ وہ نہ ٹوپولوجی سکھاتے ہیں، نہ گراف تھیوری اور نہ ہی کرپٹوگرافی۔ یہ محض اس بات کے ثبوت ہیں کہ قدیم ہندوستان میں جیومیٹری کا استعمال مذہبی رسومات میں ہوتا تھا۔
اس کے برعکس آریہ بھٹ نے پائی کا حساب لگایا اور سائن فنکشن کی تخمینیات دی، برہما گپت نے صفر اور منفی اعداد کو باقاعدہ اصولوں میں ڈھالا، اور بھاسکر دوم نے کیلکولس جیسے تصورات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ سوال یہ ہے کہ طلبہ کو ان بڑے ریاضی دانوں سے متاثر کرنے کے بجائے قدیم قربان گاہوں کی جیومیٹری کیوں پڑھائی جا رہی ہے؟
نصاب میں مہورت یعنی مبارک وقت کی گنتی بھی شامل کی گئی ہے، جو دراصل علمِ نجوم ہے، ریاضی نہیں۔ اسے یونیورسٹی کے ریاضی نصاب میں جگہ دینا اعلیٰ تعلیم کی سیکولر اور سائنسی روح کے خلاف ہے۔
ہندوستان میں علمِ نجوم اور فلکیات کو الگ کرنے کی لمبی جدوجہد رہی ہے۔ 2004 میں سپریم کورٹ نے تنازعہ کے باوجود نجوم کو ’سائنس‘ قرار دے دیا تھا، لیکن علمی برادری ہمیشہ اس کی مخالفت کرتی آئی ہے۔ ریاضی کے نصاب میں مہورت کو ادارہ جاتی حیثیت دینا دراصل طلبہ کو یہ باور کرانا ہے کہ نجومی تقدیر پسندی بھی اتنی ہی مستند ہے جتنی الجبرا کی منطق اور یہ کھلی بددیانتی ہے۔
یو جی سی کا یہ نصاب محض تدریسی پالیسی نہیں بلکہ ہندوتوا کی سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے، جس کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ ہر جدید سائنسی ایجاد پہلے ہی ہندو متون میں موجود تھی۔
یہ رویہ دو بنیادی حقائق کو نظر انداز کرتا ہے:
- آج کے طلبہ عالمی علمیات میں مقابلہ کر رہے ہیں، اور ان کے لیے ریاضیاتی مہارتیں جیسے لینئر الجبرا، شماریات، مشین لرننگ اور کمپیوٹیشنل ماڈلنگ زیادہ اہم ہیں۔
- ریاضی کی تاریخ پڑھنے کا مقصد تنقیدی جائزہ لینا ہے، نہ کہ قدیم تصورات کو حتمی سچائی کے طور پر نصاب میں ٹھونس دینا۔
یو جی سی کے سیکریٹری منیش آر جوشی چاہے یہ دعویٰ کریں کہ نصاب لچک اور جدت کو فروغ دیتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جمود اور ہم آہنگی کو بڑھاوا دیتا ہے۔
قدیم ریاضی کی تاریخ پڑھنے میں کوئی برائی نہیں، مگر یہ کام مخصوص اختیاری مضامین جیسے ’ریاضی کی تاریخ‘ یا ’سائنس کی بشریات‘ کے تحت ہونا چاہیے، نہ کہ بنیادی نصاب میں۔
ریاضی ترقی پذیر علم ہے، جو صدیوں کے اضافی تراکم سے آگے بڑھا ہے۔ آج بھی قدیم طریقوں سے چمٹے رہنا محض ذہنی توانائی کا زیاں ہے۔ طلبہ کو دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے انگریزی اور پائتھن یا میٹ لیب جیسی کمپیوٹنگ زبانوں کی ضرورت ہے، نہ کہ مہورت نکالنے کی۔
ہندوستان نے رامانجن، ہریش چندر، سی آر راؤ اور منجول بھارگوا جیسے عالمی سطح کے ریاضی دان پیدا کیے، جن کی پہچان اس لیے ہوئی کہ انہوں نے عالمی ریاضی میں نئی راہیں نکالیں، نہ کہ شلب سوتر یا یگیہ جیومیٹری پر اٹکے رہے۔
اگر یہ نصاب اپنایا گیا تو طلبہ کو عالمی دھارے سے کاٹنے اور انہیں تحقیق سے محروم کرنے کا خطرہ ہے۔ دنیا اے آئی، کوانٹم کمپیوٹنگ اور کلائمیٹ ماڈلنگ کی طرف بڑھ رہی ہے، اور ہم اپنے نوجوانوں کو شادی بیاہ کے مہورت سکھا رہے ہوں گے۔ یہ محض علمی حماقت نہیں بلکہ قومی تباہی ہے۔
(حسنین نقوی سینٹ زیویئرز کالج، ممبئی میں شعبہ تاریخ کے سابق رکن ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔