مشکل میں آزادی... سلمان خورشید

یومِ آزادی کو ’امرت مہوتسو‘ کے طور پر منایا جا رہا ہے اور اس موقع پر ہماری خواہش مور کی طرح ناچنے کی ہو سکتی ہے، لیکن ہم اپنے ان بدصورت پیروں کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو تلخ حقائق کی یاد دلاتے ہیں۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

سلمان خورشید

ہندوستان کی آزادی کی 75ویں سالگرہ کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ امرت مہوتسو کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ وسیع تر ہندوستانی وجود میں رچی بسی مختلف ثقافتوں پر فخر کرنے والوں کی نظر میں یہ ایک بہترین موقع ہو سکتا تھا جب مختلف مذاہب اور فرقوں کے پیروکاروں، مختلف زبانوں کو بولنے والوں کے ساتھ اختلافات کو فراموش کر کے تال میل بیٹھایا جاتا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کچھ لوگ اسے ایک سیاسی یا انتخابی فائدہ اٹھانے کے مواقع کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان شہریوں کے لئے یہ لمحہ واقعی جشن کا ہے جو قوم اور ہماری قومی زندگی کی فکر کرتے ہیں۔

75 سالوں کا یہ سفر ان عزائم کے ثمرات حاصل کرنے کا رہا جو جواہر لال نہرو نے 15 اگست 1947 کی نصف رات کو کئے تھے۔ اس سفر کے دوران ہم چیلنجنگ، اٹھا پٹخ والے اور فتح یابی کے لمحات سے گزرے ہیں۔ دنیا کے ممالک کے درمیان اپنی خاص شناخت کے ساتھ قائم ہونے کی امیدوں کے بیچ ہماری خواہش مور کی طرح ناچنے کی ہو سکتی ہے لیکن ہم اپنے ان بدصورت پیروں کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو تلخ اور ناخوشگوار حقیقت کی یاد دلاتے ہیں۔


ہمارے خیال میں دو لفظ سب سے اہم ہونے چاہئیں– آزادی اور مساوات۔ جمہوریت کی ان دونوں صفات کے بیچ تعلقات اور مقابلہ کی کئی جہتیں ہو سکتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہم نے آزادی کی تمنا صرف اس کے تحت آنے والی اقدار کے لئے کی ہے، بلکہ اس لئے بھی کی تھی کہ انصاف، سماجی، معاشی اور سیاسی مساوات کے اہداف کو پانے میں یہ مددگار ہوگی۔ لیکن یہ تکلیف دہ بات ہے کہ ہمارا تجربہ واضح طور پر بیان کر رہا ہے کہ مساوات درہم برہم ہو چکی ہے کیونکہ آزادی شدید بحران کا شکار ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسے موقع پر جب ہم اپنے پروقار قومی کردار اور حصولیابیوں کوبیان کر رہے ہوتے، ایک سنگین اور تشویش ناک حقیقت کی جانب توجہ مبذول کرانے کے لئے مجبور ہیں۔ ’ٹرسٹ وِد ڈیسٹنی‘ کے نظریہ پر سوالیہ نشان لگانے والے واقعات کو لکھنے بیٹھیں، تو یہ ایک ایسا تکلیف دہ عمل ہوگا کہ ہر ایک کے ذکر کے ساتھ زخم ہرے ہو جائیں۔ اس بات کا کوئی اندازہ نہیں کہ جن لوگوں نے زندگی اور آزادی کی بھاری قیمت ادا کی، ان بے یار و مددگار لوگوں کے ساتھ کبھی انصاف ہوگا بھی یا نہیں۔ یہاں تک کہ بڑے قتل عام کے معاملوں میں بھی جوابدہی طے نہیں کی جا سکی اور انہیں ’آپ کے قتل عام‘ بمقابلہ ’ہمارے قتل عام‘ کا روپ دے دیا گیا۔ انسانی اصولوں کی جگہ گھٹیا سیاست نے لے لی ہے۔


تقسیم کے درد سے باہمی تال میل اور میل جول کا راستہ حاصل کرنے والے ملک میں اہم ایک دوسرے کے درد اور نقصان کے تئیں اندھے ہو گئے۔ ہم وطن کے ہاتھوں ذاتی اور معاشرتی تباہی آج بھی ہمارے اجتماعی وجود پر اپنا سایہ ڈال رہی ہے۔ یہ انسانی اقدار کی گھناؤنی عوامی لاپروائی ہے جسے اقتدار میں بیٹھے لوگوں اور اپنی ذہنیت کے غلام ان کے معاونین فروغ دے رہے ہیں۔ اس سے تو یہی اشارہ مل رہا ہے کہ آزادی کے 75 سال کے بعد کا راستہ ناہموار تو ہے ہی، یہ کسی مثبت سمت بھی نہیں جا رہا ہے۔

ایسی آزادی کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا جس میں حفاظت اور وقار نہ ہو۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ہم پہلے سے طے راستہ پر چلنے، طے الفاظ کو بولنے اور خود کو اکثریت میں وحدانیت کی جگہ یک رنگی شکل میں دیکھنے کے لئے آزاد ہیں۔ یہ آزادی نہیں ہے۔ ہم میں سے کچھ کا ماننا ہے کہ آزادی سے مطلب تب تک غلطی کرنے سے ہے جب تک یہ کسی اور کی آزادی کو نہیں چھینتی ہو۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ آزادی بدنظمی کے لئے دعوت نہیں ہے۔ انسانی فطرت میں تنوع اور عدم اطمینان کو ایڈجسٹ کرنے کی بڑی صلاحیت ہے اور جمہوریت کی اصل بھی یہی ہے۔ جنہیں تنوع اور عدم اطمینان کی سمجھ نہیں، انہیں یقینی طور پر جمہوریت کی بھی سمجھ نہیں ہوگی۔ انتخابی جیت چاہے کتنی بھی بڑی اکثریت سے حاصل ہوئی ہو، اس طرح کی سوچ کہ یہ جیتنے والے کو جیسے چاہے، ویسے حکمرانی کرنے کی کھلی چھوٹ دیتی ہے، یہ ویسا ہی ہے گویا ’ہجوم کا قانون‘ یا ’منتخب آمریت‘۔ کسی حکمراں کے حق میں آیا انتخابی مینڈیٹ اسے اچھی خاصی طاقت اور موقع دیتا ہے کہ اپنے نظریہ کے مطابق حکمرانی کو شکل دے، لیکن یہ کام آئین کی جانب سے مقرر کردہ دائرے کے اندر ہو سکتا ہے، اس کو نظر انداز کر کے نہیں۔


مشہور فلم نغمہ نگار جاوید اختر اپنی حالیہ نظم ’نیا حکم نامہ‘ میں کہتے ہیں:

کسی کا حکم ہے

اس گلستاں میں بس اک رنگ کے ہی پھول ہوں گے

کچھ افسر ہوں گے جو طے کریں گے

گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا

یقیناً پھول تو یک رنگی ہوں گے

مگر یہ رنگ ہوگا کتنا گہرا، کتنا ہلکا

یہ افسر طے کریں گے

کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے

گلستاں میں کہیں بھی پھول یک رنگی نہیں ہوتے

کبھی ہو ہی نہیں سکتے

کہ ہر اک رنگ میں چھپ کر بہت سے رنگ رہتے ہیں

جنہوں نے باغ یک رنگی بنانا چاہے تھے

ان کو ذرا دیکھو

کہ جب اک رنگ میں سو رنگ ظاہر ہو گئے ہیں تو

وہ کتنے پریشاں ہیں، کتنے تنگ رہتے ہیں۔

لیکن یہ یقینی طور پر بہت برا ہے۔ جب کافی امیدوں کے ساتھ اختیار کئے گئے آئین کا استعمال پارٹی کے سیاسی مفادات کی تکمیل کے نقاب کے طور پر کیا جائے تو اس کے مفہوم اور کردار میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ ایسے میں حیرانی کی کوئی بات نہیں جب حکومت کے وزیر قانون بی جے پی کے نظریہ کو ملک کا نظریہ بنانے کی بات کرتے ہیں۔ ہاں، کانگریس نے بھی تو ایسا ہی کیا تھا۔ ہو سکتا ہے یہ اس کے جواب میں کیا جا رہا ہو لیکن ہم اس کا جواب فوری طور پر دے سکتے ہیں۔

عدم تشدد اور ستیہ گرہ سمیت گاندھیائی نظریات کو آئین میں شامل کیا گیا۔ انہیں آئین کے دیباچے میں جگہ دی گئی۔ کوئی کتنی بھی بڑی اکثریت سے آئے، اس میں تبدیلی نہیں کر سکتا۔ اسے صرف ایک انقلاب ہی تبدیل کر سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ’کیشونند بھارتی‘ معاملہ میں یہ صاف صاف الفاظ میں کہا ہے۔

کانگریس نے جو کیا، اس کے لئے ایک تاریخی قومی رضامندی تھی اور یہ رضامندی مہاتما گاندھی اور دیگر قائدین کی قیادت میں چلی جنگ آزادی سے ابھری تھی۔


واپس آئیں جاوید اختر کی نظم پر۔ آزادی آپ کے خاص رنگ کے بارے میں ہے۔ روشنی ایک رنگ کی ہے لیکن پرزم ان رنگوں کو ظاہر کرتا ہے جس سے یہ بنی ہے۔ اندھیرے کے سیاہ کو پرزم سے بھی علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے آزادی کی 75ویں سالگرہ پر عہد کریں، ہم اپنی قومی زندگی اور پرزم کو واپس لائیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔