شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پچاس سال، صدور شعبہ کا مختصر تعارف...ڈاکٹر سلمان فیصل

آج 25 نومبر 2022 کو شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ اپنی گولڈن جوبلی منا رہا ہے۔ پچاس سال قبل 25 نومبر 1972 کو شعبۂ اردو کا قیام عمل میں آیا تھا

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پچاس سال پورے
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پچاس سال پورے
user

ڈاکٹر سلمان فیصل

آج 25 نومبر 2022 کو شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ اپنی گولڈن جوبلی منا رہا ہے۔ پچاس سال قبل 25 نومبر 1972 کو شعبۂ اردو کا قیام عمل میں آیا تھا۔ گولڈن جوبلی کے اس موقع پر یک روزہ تقریب کا اہتمام بھی آج شعبۂ اردو میں کیا جا رہا ہے۔شعبہ اردو کی اس پچاس سالہ تاریخ میں اردو کی کئی بڑی ہستیاں یہاں سے وابستہ رہی ہیں۔ اس شعبے کے سابق وموجودہ اساتذہ میں کئی ایسے ہیں جن کا اردو ادب میں اعلی مقام و مرتبہ ہے۔ ان کے کارنامے مشعل راہ بھی ہیں۔ اس شعبے سے وابستہ اساتذہ میں محقق بھی ہیں اور مترجم بھی۔ تخلیق کار بھی ہیں اور نقاد بھی۔ اردو کے شعری منظر نامے پر اپنی شناخت قائم کرنے والے بھی ہیں۔ اس شعبے کے اساتذہ میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ بھی شامل ہیں۔ شعبے کے ان اساتذہ کی خوبیوں اور کارناموں کے ذکر میں دفترکے دفتر کے سیاہ ہو جائیں گے۔ اس شعبے میں یہاں کےاساتذہ کی کوششوں سے کئی تحقیقی پروجیکٹ پر کام بھی ہوا ہے جس میں یو جی سی ڈی آر ایس کے تین فیز شامل ہیں۔ وزارت ثقافت کے مالی تعاون سے ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم کے تحت ٹیگور کی کتابوں کے ترجمے اور ادبیات ٹیگور پر اردو میں تنقیدی و تحقیقی کام ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس شعبے کے اساتذہ نے یو جی سی کی جانب سے منظور شدہ مختلف موضوعات پرچار میجر ریسرچ پروجیکٹ پر بھی کام کیا ہے۔ شعبے کی ترقی میں سربراہ کا بھی کلیدی کردار ہوتا ہے۔ حسن اتفاق سے اس شعبے کو ابتدا ہی سے اچھے سربراہ میسر آئےہیں۔اس مختصر سے مضمون میں میری کوشش ہے کہ اس شعبے کے صدور کا ایک مختصر تعارف پیش کرسکوں جن کی سربراہی میں اس شعبے نے اپنے پچاس سال کامیابی کے ساتھ مکمل کیے ہیں۔

اب تک شعبہ اردو میں پندرہ صدوررہ چکے ہیں۔ کچھ صدور حضرات کی مدت صدارت طویل رہی ہے۔ کچھ مختصر دورانیے کے لیےاس عہدے پر فائز رہے ہیں۔ اس وقت موجودہ صدر پروفیسر احمد محفوظ ہیں۔شعبہ اردو کے سب سے پہلے صدر پروفیسر تنویر احمد علوی تھے۔ پروفیسر تنویر احمد علوی کی بطور محقق ایک شناخت قائم ہے۔ایک جہت آپ کی بطور شاعر بھی ہے۔ آپ کا تعلق اترپردیش کے مظفرنگر سے تھا۔ آگرہ سے ایم اے اردو کرنے کے بعد علی گڑھ سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تین درجن سے زائد کتابوں کے مصنف اور مرتب ہیں۔ اردو اکیڈمی دہلی سے ایوارڈ برائے تحقیق اور ہریانہ اردو اکیڈمی سے حالی ایوارڈ سے آپ کو نوازا گیا ، بعد ازاں انھیں اردو اکیڈمی دہلی کی طرف سے ان کی من جملہ علمی و تحقیقی خدمات پر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے طور پر کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ اصول تحقیق و ترتیب متن پروفیسر تنویر احمد علوی کی مشہور زمانہ کتاب ہے۔ انھوں نے متعدد دواوین کا انتخاب اور کلیات کی جمع و ترتیب کی ہے۔ انہوں نے کئی کتابوں کے ہندی اور فارسی سے ترجمے بھی کیے ہیں ۔ پروفیسر تنویر احمد علوی کی تحقیقی و تنقیدی کتابوں کے نام کچھ اس طرح ہیں: ذوق سوانح اور انتقاد، اصول تحقیق و ترتیب متن، اردو میں بارہ ماسہ کی روایت مطالعہ و متن، ذوق دہلوی (مونوگراف)، ہماری تاریخی عمارتیں، تجسس سے تجزیہ تک، کلاسیکی اردو شاعری کے روایتی ادارے اور علامتیں، غالب کی فارسی شاعری تعارف و تنقید وغیرہ۔ انھوں نے ذوق اور شاہ نصیر کے کلیات کو مرتب کیا ہے۔ غالب کے خطوط کی تدوین کی ہے۔ ان کے شعری مجموعے لمحوں کی خوشبو اور رقص لمحات ہیں۔ ان کے علاوہ سفرنامہ اور ترجمے کی کتابیں بھی پروفیسر تنویر احمد علوی کی علمی دنیاکو بیاں کرتی ہیں۔


دوسرے صدر مشہور ومعروف ادیب ، ممتاز نقاد اور ماہر لسانیات پروفیسر گوپی چند نارنگ ہیں۔ آپ کی من جملہ علمی خدمات سےزمانہ آگاہ ہے۔ شعبے کی ترقی میں آپ کی خدمات بہت گراں قدر ہیں۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کثیر التصانیف ہیں۔ اردو کے ساتھ انگریزی اور ہندی میں بھی آپ نے کتابیں تحریر کی ہیں۔پروفیسر گوپی چند نارنگ کا تعلق مغربی پنجاب (پاکستان) کے مظفر گڑہ سے ہے۔ تقسیم ہند کے وقت ہجرت کرکے دہلی میں سکونت اختیا رکی اور یہیں پر انٹر میڈیٹ سے پی ایچ ڈی تک کی تعلیم حاصل کی۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی مختلف ادبی جہتیں ہیں۔ آپ محقق، نقاد اور ماہر لسانیات ہونے کےساتھ میر، غالب، اقبال، انیس، فیض اور فراق شناسی میں ید طولی رکھتے تھے۔ آپ ایک بہترین مقرر بھی تھے۔ آپ کو متعد اعزازات سے نوازا گیا جن میں پدم شری، پدم بھوشن، اقبال سمان، ستارہ امتیاز اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کے علاوہ تقریبا پچاس اعزازات شامل ہیں۔ آپ مختلف اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔متعدد ممالک کا سفر کیا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی تحقیقی و تنقید ی کتابوں میں ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، فکشن شعریات تشکیل و تنقید، اردو غزل ہندوستانی ذہن و تہذیب، ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدت، ادبی تنقید اور اسلوبیات ، املا نامہ، جدید ادبی تھیوری، غالب، معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

تیسرےصدر شعبہ پروفیسر عنوان چشتی تھے۔ افتخار الحسن اصل نام اور عنوان تخلص تھا، عنوان چشتی مشہور ہوئے۔ آپکا تعلق سہارن پور سے تھا۔ آپ ایک شاعر بھی تھے ۔ بحیثیت نقاد اور محقق بھی آپ کی شناخت ہے۔ اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے، اردو شاعری میں جدیدت کی روایت، عروض اور فنی مسائل، تنقید سے تحقیق تک آپ کی مشہور کتابیں ہیں۔ ذوق جمال اور نیم باز عنوان چشتی کےشعری مجموعے ہیں۔پروفیسر عظیم الشان صدیقی بھی شعبہ اردو کے صدر رہے ہیں۔ اردو ناول آغاز و ارتقا، اردو افسانہ فکری و فنی مباحث، افسانوی ادب اور پریم چند ایک محاکمہ آپ کی مشہور تحقیقی و تنقیدی کتابیں ہیں۔ مشاہیر کی آپ بیتیاں اور مضامین سیدین آپ کی مرتب کردہ کتابیں ہیں۔ آپ کواترپردیش اردو اکیڈمی نے پریم چند ایوارڈ سے نوازا تھا۔ پروفیسر محمد ذاکر شعبہ اردو کے اولین اساتذہ میں سے ہیں۔ آپ صدر شعبہ بھی رہے، آپ نے شعبہ اردو کی ترقی میں اہم کردارادا کیا ہے کیونکہ آپ شعبہ اردو کے ابتدائی زمانے سے وابستہ ہوئے اور ایک طویل عرصے تک اپنی خدمات سے شعبے کی آبیاری کی ہے۔ آپ ایک شخصیت ساز استاذ تھے۔ کلاسیکی غزل آپ کی تنقیدی کتاب ہے۔ اظہار کے نام سے شعری مجموعہ ہے۔ کلام آبرو کا انتخاب بھی آپ کی ادبی کاوشوں میں سے ایک ہے۔ خواجہ حیدر علی آتش پر آپ نے ایک مونوگراف تحریر کیا ہے۔پروفیسر حنیف کیفی پروفیسر محمد ذاکر کے بعد شعبہ ارد وکے سربراہ ہوئے۔ اصل نام محمد حنیف قریشی اور تخلص کیفی تھا۔ حنیف کیفی کے نام سے معروف ہوئے۔ آپ کا تعلق بریلی سے تھا۔ شعبہ اردو کے قیام سے ہی آپ اس سے وابستہ ہوئے۔ اردو شاعری میں سانیٹ اور اردو میں نظم معری اور آزاد نظم آپ کی تحقیقی و تنقیدی کتابیں ہیں۔ چراغ نیم شب، سحر سے پہلے، بائیں ہاتھ کا کھیل اور صبح کی دہلیز پر آپ کے شعری مجموعے ہیں۔


پروفیسر شمیم حنفی اردو دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ آپ کی ادبی حیثیت مستحکم ہے۔ آپ ایک ممتاز نقاد کے طور پر معروف ہیں۔ آپ کا تعلق سلطان پور سے ہے۔ الہ آباد یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ شعبہ اردو کے سربراہ ہونے کے علاوہ آپ فیکلٹی آف ہیومنیٹیز کے ڈین کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ آپ جدیدیت کے حامیوں میں سے تھے۔ جدیدیت کے فلسفیانہ اساس، نئی شعری روایت، جدیدیت اور نئی شاعری، ہم سفروں کے درمیاں آپ کی مشہور کتابیں ہیں۔ مجھے گھر یاد آتا ہے، زندگی کی طرف، مٹی کا بلاوا اوربازار میں نیند آپ کے تحریر کردہ ڈراموں پر مشتمل کتابیں ہیں۔ آخری پہرکی دستک آپ کا شعری مجموعہ ہے۔ آپ کے مضامین کے کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں جن میں غزل کا منظر نامہ، سیاہ فام ادب، فراق دیار شب کا مسافر، اقبال کا حرف تمنا، قاری سے مکالمہ، غالب کی تخلیقی حسیت، خیال کی مسافت وغیرہ شامل ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ادبی رسالہ ‘جامعہ’ کی ادارت بھی کی ہے۔آپ کو مخلتف اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں مغربی بنگال اردو اکادمی کا پرویز شاہدی ایوارڈ، غالب ایوارڈ، دہلی اردو اکادمی ایوارڈ، اترپردیش اردو اکادمی ایوارڈ وغیرہ شامل ہیں۔ مجلس فروغ اردو ادب قطر کی جانب سے آپ کی مجموعی خدمات کے اعتراف میں عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ ۲۰۲۱ سے بھی نوازا گیا۔پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی نے بھی ایک طویل عرسے تک شعبہ اردو کی صدارت کی ذمہ داری نبھائی ہے۔ آپ کی شناخت اردو دنیا میں مسلم ہے۔ اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی پر دسترس حاصل ہے۔آپ کا تعلق اترپردیشن کے ضلع بستی سے ہے۔ شعریات اقبال آپ کی تنقیدی و تحقیقی کتاب ہے۔ سید عابد حسین، خواجہ میر درد اور میر حسن دہلوی کا آپ نے مونوگراف لکھا ہے۔ نقد شعر اور تنقید و تفہیم آپ کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ متعد ڈاکومنٹ کا آپ نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ آپ کو متعدد ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جن میں دہلی اردو اکادمی ایوارڈ برائے تنقید و تحقیق ہے۔ آپ کی متعدد کتابوں پر دہلی اور یوپی کی اردو اکادمیوں نے انعامات سے نوازا ہے۔ آپ ہی کی کوششوں سے یوجی سی کا تحقیقی پروجیکٹ ڈی آر ایس فیز 1 ملاتھا۔ پروفیسر شمس الحق عثمانی بھی شعبہ اردو کے صدر رہ چکے ہیں۔ آپ فکشن تنقید کے ایک ماہر استاذ ہیں۔ اردو فکشن آپ کا اختصاص ہے۔ بیدی نامہ آپ کی تحقیقی کتاب ہے۔ ادب کی تفہیم، دراصل – ادب پاروں کی تفہیم، درحقیقت۔تہذیبی افکار اور فن پاروں کی تفہیم، فسانہ و شعر کا بلاوا، غالب اور منٹو آپ کی تنقیدی کتابیں ہیں۔ پورا منٹو کے عنوان منٹو کی تمام کہانیاں آپ نے مرتب کی ہیں جو آکسفورڈ پریس سے شائع ہوئی ہیں۔ آپ کی مرتب کردہ کلیات سعادت حسن منٹو قومی کونسل برائے فروگ اردو زبان سے شائع ہوئی ہے۔ پیار کی خوشبو آپ کی لکھی ہوئی کہانیوں پر مشتمل کتاب ہے۔ ڈی آر ایس کی توسیع بطور فیز2 آپ کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔ آپ کی علمی خدمات کے عوض آپ کو مختلف ایواردڈ سے نوازا جا چکا ہے۔

پروفیسر خالدمحمودایک استاذ، شاعر، مزاح نگار اور نقاد کے طور پر معروف و مشہور ہیں۔آپ کا تعلق بھوپال سے ہے مگر عمر کا طویل حصہ دہلی میں گزرا ہے۔ بحیثیت صدر شعبہ اردو آپ نے بہت اہم کارنامے انجام دیے۔ شعبے کا سب سے بڑا پروجیکٹ ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم آپ کی نگرانی اور کوششوں سے شعبے کو حاصل ہوا۔ پروفیسر خالد محمود کی ہی صدارت میں شعبہ اردو کا رسالہ ارمغان جاری ہوا۔آپ مکتبہ جامعہ کے منیجنگ ڈایریکٹر بھی رہے۔ اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئر مین کے منصب پر رہ کر فروغ اردو میں اہم رول ادا کیا۔ آپ کی ادبی حیثیت بھی مسلم ہے۔ آپ شگفتہ مزاج اور ملنسار ہیں۔ دو درجن سے زائد کتابوں کے آپ مصنف ہیں سمندر آشنا، شعر چراغ، شعر زمین آپ کے شعری مجموعے ہیں۔ اردو سفرناموں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ آپ کی مشہور کتاب ہے۔ تفہیم و تعبیر ، ادب کی تعبیر، نقوش معنی آپ کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ہیں۔ شفگتگی دل کی آپ کے خاکوں اور انشائیوں کا مجموعہ ہے۔ اردو صحافت ماضی اور حال، ابن صفی شخصیت اور فن، خطبات شعبہ اردو، ربندرناتھ ٹیگور فکر و فن آپ کی مرتب کردہ کتابیں ہیں۔ ملا رموزی کی کلیات بھی آپ نے مرتب کی ہے۔ شاہ مبارک آبرو پر آپ نے مونوگراف لکھا ہے۔ آپ کو متعدد ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جن میں ساہتیہ اکادمی ترجمہ ایوارڈ، غالب ایوارڈ برائے نثر، دہلی اردو اکادمی ایوارڈ برائے شاعری، مدھیہ پردیش اردو اکادمی کا کل ہند میر تقی میر ایوارڈ، دہلی اقلیتی کمیشن کا فروغ اردو ایوارڈ شامل ہے۔ آپ نے مختلف ممالک کا سفر بھی کیا ہے۔ پروفیسر شہناز انجم بھی شعبہ اردو کی صدر رہی ہیں۔ آپ شناخت ایک مشفق استاذ کی ہے۔ ادبی نثر کا ارتقا آپ کی تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے۔ نثر رنگ و آہنگ، خیال در خیال، اردو میں غیر افسانوی نثر آپ کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ پروفیسر وہاج الدین علوی بھی شعبہ اردو کے صدر رہے ہیں۔ آپ کا تعلق اتر پردیش کے بارہ بنکی سے ہے۔ آپ کو اردو کے ساتھ فارسی زبان پر دسترس حاصل ہے۔ اردو کی کلاسیکی اصناف آپ کا پسندیدہ موضوع ہے۔ خود نوشت فن اور تجزیہ آپ کی تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے۔ خانہ بدوش، چاندنی بیگم، کوڑا کباڑاآپ کی ترجمہ کردہ کتابیں ہیں۔ خود آگہی اور گفتگو و جستجو آپ کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ سرمایہ سخن اور قصیدے کے شعریات آپ کی ترتیب کردہ کتابوں میں شامل ہے۔ آپ ہی کی سربراہی میں شعبہ اردو کو یوجی سی کے تحقیقی پروجیکٹ ڈی آر ایس کا فیز 3 حاصل ہوا۔آپ فیکلٹی آف ہیومنٹیز کے ڈین بھی رہے ہیں۔ آپ کو متعدد ادبی ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔


پروفیسرشہپر رسول ایک معروف شاعر ہیں۔اصل نام وجیہ الدین ہے۔ آپ کا تعلق اتر پردیشن کے بچھراؤں سے ہے۔ آپ بھی شعبہ اردو کے صدر رہے ہیں۔آپ کی ادبی حیثیت ایک معروف شاعر کے طور پر مستحکم ہے۔ صدف سمندر، سخن سراب آپ کے شعری مجموعے ہیں۔ نقش و رنگ، چشم دروں آپ کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اردو غزل میں پیکر تراشی آپ کی تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے۔ کارنامہ شوق اور قصیدے کی شعریات آپ کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ آپ عالمی مشاعروں مین شرکت کرتے رہتے ہیں۔ آپ کو متعدد ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے جن میں سر سید ایوارڈ، جوش ملیح آبادی ایوارڈ، غزل سرا ایوارڈ شامل ہے۔ آپ کی کتابوں پر دہلی، اتر پردیش اور بنگال کی اردو اکیڈمیوں نے انعامات سے نوازا ہے۔پروفیسر شہزاد انجم ایک ممتاز استاذ اور نقاد ہیں۔ آپ کا تعلق گیا بہار سے ہے۔ شعبہ اردو کے ٹیگور پروجیکٹ کے آپ ہی کنوینر تھے۔ مکتبہ جامعہ کے منیجنگ ڈایرکٹر ہیں۔ آپ اکادمی برائے فروغ اردو میڈیم اساتذہ کے اعزازی ڈایریکٹر ہیں۔ پروفیسر شہزاد انجم نے متعدد کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں۔غالب، محمد علی جوہر، خواجہ الطاف حسین حالی، سید احتشام حسین، سید محمد حسنین پر آپ نے مونوگراف لکھا ہے۔ احتشام حسین کی تخلیقی نگارشات ایک مطالعہ ، معاصرافسانہ اور ذوقی، تنقیدی جہات آٓپ کی تنقیدی کتاب ہے۔ سوراج واد ، اوپیندر ناتھ اشک، مکتی بودھ ترجمہ کردہ کتابیں ہیں۔اردو کے غیر مسلم شعرا آپکے کالموں کا مجموعہ ہے۔ اردو اور ہندوستان کی مشترکہ تہذیب، سرسید احمد خاں، دیوان شیدا، ٹیگور فکر و ن، ٹیگور کی بازیافت، گوپی چند نارنگ آپ کی مرتب کردہ کتابیں ہیں۔ آپ کو متعدد ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے جن میں جان گلکرسٹ ایوارڈ مگربی بنگال اردو اکادمی شامل ہے۔

شعبہ اردو کے موجودہ صدر ممتاز شاعر اور کلاسیکی ادبیات کے ماہر پروفیسر احمد محفوظ (محمد محفوظ خاں ) ہیں۔آپ گذشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے اسی شعبے میں درس وتدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ آپ کا تعلق شہر الہ آباد سے ہے۔الہ آباد یونی ورسٹی سے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن اور جے این یو سے ایم فل اور ڈاکٹر یٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔پروفیسر احمد محفوظ کلاسیکی ادبیات کے شناور،مطالعۂ میر پر گہری نگاہ رکھنے والے ،فارسی زبان و ادب پر دسترس اورفن عروض کی باریکیوں پر استادانہ مہارت رکھتے ہیں۔ اردو کی قدیم شاعری پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں۔ قصیدہ ، مرثیہ اور غزل کے فکری وفنی نظام پر استادانہ مہارت حاصل ہے۔ حال ہی میں آپ کو ‘میر سمان’ ایوارڈ سے سرفراز کیا۔آپ کی کتاب بیان میر ہندستان اور پاکستان دونوں جگہ سے شائع ہوچکی ہے۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے کلیات میر (دوجلدیں)کے دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں جبکہ کلیات اکبرالہ آبادی کی تدوین بھی پروفیسر احمد محفوظ کررہے ہیں جس کی تین جلدیں شائع ہوچکی ہیں ۔پروفیسر احمد محفوظ شاعر کی حیثیت سے بھی نمایاں شناخت رکھتے ہیں ۔انھیں ہندستان کے اہم مشاعروں میں مدعو کیا جاتا ہے۔ شعبہ اردو کی گولڈن جوبلی تقریب کا انعقاد انھیں کی نگرانی میں کیا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */