ایس آئی آر: اتر پردیش میں خوف اور بے یقینی کا سایہ
اتر پردیش میں جاری ایس آئی آر کے عمل نے غریب، مزدور اور اقلیتی طبقوں میں شدید خوف پیدا کر دیا ہے۔ دستاویزات کی کمی کے باعث لوگ محض ووٹ نہیں بلکہ اپنی شہریت کے بارے میں بھی عدم تحفظ محسوس کر رہے ہیں

اُس روز گھیر جعفر خاں کے علاقے میں ایک تصویر بنا کر واپس لوٹ رہا تھا کہ گلی کے نکڑ پر غیر معمولی گہماگہمی نظر آئی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایس آئی آر کے فارم تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ میز پر جھکے ہوئے چہروں کو تو میں دیکھ نہیں پایا، مگر ہاتھ میں کاغذات لیے تیزی سے اِدھر اُدھر دوڑتے لوگوں کے خاموش چہروں پر تناؤ اور سنجیدگی صاف جھلک رہی تھی۔ اِن دنوں شہر میں جگہ جگہ یہی منظر عام ہے۔ حکومت اپنی عوام کی ووٹ ڈالنے کی اہلیت کی گہری جانچ کر رہی ہے اور عوام محض ووٹر بنے رہنے کی جدوجہد سے آگے اپنے مستقبل کے بارے میں بھی سخت پریشان ہوتی جا رہی ہے۔
برسوں سے بریلی کے پرانے بس اڈے پر گھوم گھوم کر سرمے کے فائدے بتانے والے شاعر عثمان عارف کو ڈھونڈتے ہوئے جب کانشی رام کالونی میں اُن کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ کولہے کی ہڈی ٹوٹنے کے باعث وہ کئی مہینوں سے بستر پر ہیں۔ میں اُن کی تکلیف اور علاج کے بارے میں پوچھ رہا تھا اور اُن کی فکر یہ تھی کہ پھوٹا دروازہ کی طرف والی پرانی ووٹر لسٹ کیسے حاصل کی جائے، کیونکہ بیس برس پہلے وہ وہیں رہا کرتے تھے۔
بال کٹوانے گیا تو قینچی اور کنگھی اٹھاتے ہوئے محمد قمر نے بڑی بے بسی سے پوچھا کہ آدھار کارڈ مانا نہیں جا رہا۔ والد کو گزرے زمانہ ہو گیا۔ گاؤں میں پیدا ہوا تھا، سن 1984 میں، اُس وقت برتھ سرٹیفکیٹ کا تصور بھی نہیں تھا۔ اب بتائیے میں کیا کروں؟ دفتر ملنے آئے ایک پرانے دوست نے کچھ جھنجھلاہٹ اور بے چینی کے ساتھ سوال کیا کہ غریب اور مزدور طبقے کے لوگ یہ فارم بھرنے کے لیے درکار کاغذات کہاں سے لائیں گے؟
اِن دنوں جہاں جائیے، جس سے بھی ملئے، گفتگو ایس آئی آر پر ہی مرکوز ہے۔ پرانے شہر، یا یوں کہیے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں، اس کو لے کر جتنی ہڑبڑی اور سرگرمی دکھائی دیتی ہے، اُس کے پیچھے کارفرما خوف اور اندیشہ تھوڑی دیر بات کرنے پر پوری طرح نمایاں ہو جاتا ہے۔
میرے وہ دوست خاصے تعلیم یافتہ، خوش مزاج اور کشادہ ذہن انسان ہیں۔ میں نے انہیں اس قدر غصے اور اضطراب میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اُس دن ان کی جھنجھلاہٹ اپنی ذات کے لیے نہیں تھی، بلکہ اپنے آس پاس کے لوگوں کی بے بسی دیکھ کر وہ بے چین تھے۔ برسوں سے گھروں میں کام کرنے والی عورتوں، مزدوروں یا سڑک کنارے بیری، جامن اور مہندی کی پتیاں بیچنے جیسے انتہائی معمولی کام کرنے والوں کی زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ لوگ آخر کیا کریں گے، کہاں جائیں گے؟ انہیں پکڑ کر وہیں کیمپوں میں بھر دیا جائے گا، جہاں پچاس پچاس لوگوں کے لیے ایک ہی بیت الخلا اور غسل خانہ ہوگا۔
یہ خوف کا وہی چہرہ ہے۔ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو ایس آئی آر کو صرف ووٹ دینے کے حق سے جوڑ کر نہیں دیکھ رہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ یہ کہیں این آر سی (قومی شہری رجسٹر) نافذ کرنے کا بہانہ نہ ہو۔ اور اگر وہ اس عمل میں چھوٹ گئے تو رسوائی طے ہے۔
وزیر اعلیٰ افسران سے صاف کہہ چکے ہیں کہ ریاست کے ہر ضلع میں ڈیٹینشن سینٹر بنائے جائیں۔ بریلی میں بھی برسوں سے خالی پڑی ضلع جیل کو ڈیٹینشن سینٹر میں تبدیل کرنے کی تیاری چل رہی ہے۔ کلکٹر اور ایس پی خود جھگی جھونپڑیوں میں بنگلہ دیشیوں اور روہنگیوں کی تلاش میں نکل رہے ہیں۔
دوست کو تسلی دینے کی نیت سے میں نے بتایا کہ محض دستاویزات میں میرے گھر کے دو افراد کے نام کی ہجے غلط ہونے کی وجہ سے ان کے فارم بھی جمع نہیں ہو سکے۔ اس پر انہوں نے فوراً کہا، ’’آپ کو اپنی قومیت تو ثابت نہیں کرنی ہے!‘‘ میں ششدر رہ گیا۔
ایس آئی آر میں لوگوں کی مدد کے لیے سرگرم عام عورت سیوا سمیتی کی صدر شمعون خان کے پاس ایسے بے شمار واقعات ہیں جن کے لیے فارم بھرنا کسی عذاب سے کم نہیں۔ جلپائی گڑی کی زلیخا بی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ قریب 35 برس پہلے شادی کے بعد بریلی آئی تھیں۔ شوہر مزدوری کرتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل ان کا انتقال ہو گیا، تو گزر بسر کے لیے زلیخا گھروں میں کام کرنے لگیں۔ کچھ دن پہلے مائکے سے اطلاع ملی کہ وہاں فارم بھرے جا رہے ہیں، فارم نہ بھرنے پر بھگا دیا جائے گا۔ کسی طرح وہ جلپائی گڑی پہنچیں۔ واپس آئیں تو معلوم ہوا کہ فارم یہاں بھرنا تھا۔ شمعون کے مطابق، بی ایل او سے بات کر کے انہیں وہاں سے ’ان میپ‘ کرایا گیا اور فارم جمع ہوا۔ اس کے باوجود وہ بار بار روتی ہوئی پوچھنے آ جاتی ہیں کہ ان کے فارم کا کیا ہوا؟ خوف انہیں سونے نہیں دیتا۔
نجمہ کا مائکہ کوکرجھار (آسام) میں ہے۔ 2003 میں ان کی شادی بریلی کے تسلیم سے ہوئی۔ تب سے وہ یہیں رہ رہی ہیں۔ برسوں سے بریلی کینٹ اسمبلی حلقے کی ووٹر ہیں۔ انہوں نے فارم ضرور بھرا مگر 2003 کے ریکارڈ میں نام نہ ہونے کے باعث واپس آ گیا۔ اب وہ پرانے ریکارڈ جمع کرنے کی جدوجہد میں ہیں۔ کوشش ہے کہ اگر آسام کے این آر سی میں والدین کا اندراج مل جائے تو شاید ووٹ دینے کا حق اور اسی ملک کی شہری ہونے کی تصدیق ہو جائے۔
باقر گنج، حاجیاپور، لیچی باغ، صالح نگر، قلعہ اور پرانے شہر کے بڑے حصے میں زلیخا جیسے نہ جانے کتنے لوگ اسی خوف میں جی رہے ہیں۔ دوڑ دھوپ کر کے، جان پہچان والوں سے مل کر، ہر ممکن جتن کر رہے ہیں کہ کسی طرح ضروری کاغذات اکٹھا ہو جائیں۔ بریلی ہی نہیں، ریاست کے دیگر اضلاع کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔
موہن پور ٹھریا میں بطور بی ایل او کام کرنے والی ایک ٹیچر (ان کی درخواست پر شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی) نے بتایا کہ ان کے علاقے میں آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس آدھار کارڈ کے سوا کوئی اور شناختی دستاویز نہیں ہے اور آدھار کو شناختی ثبوت نہیں مانا جا رہا۔ بہت سے خواجہ سرا ایسے ہیں جن کے پاس شناخت کے درجنوں ممکنہ دستاویزات میں سے ایک بھی موجود نہیں۔ معقول کماتے ہیں، مگر نہ بینک پاس بک ہے اور نہ ایل آئی سی کی کوئی پالیسی۔ وہ کہتی ہیں، ’’آبادی کا بڑا حصہ ناخواندہ ہے۔ مزدوری کرتا ہے۔ سرٹیفکیٹ کہاں سے بنوائیں؟‘‘
اگر یہ خبریں درست ہیں کہ ہر ضلع میں بڑی تعداد میں ووٹ کٹیں گے، تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس کی زد میں کون لوگ آئیں گے۔ کون جانے، نوٹس کے ذریعے ایک اور موقع ملنے تک وہ یہ ثابت کرنے کے قابل بھی ہو پائیں گے یا نہیں کہ وہ کہیں اور کے نہیں، یہیں کے ہیں۔
شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے ندا فاضلی نے کہا تھا: کس کو معلوم کہاں کے ہیں، کدھر کے ہم ہیں…
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔