سقوطِ دہلی 1857: امام بخش صہبائی اور خاندان کی عظیم قربانی
سقوطِ دہلی 1857 میں مولانا امام بخش صہبائی اپنے بیٹوں اور خاندان سمیت شہید کر دیے گئے۔ وہ عظیم ادیب، شاعر اور استاد تھے جنہوں نے وطن کی حرمت پر جان دی مگر ظلم کے آگے جھکے نہیں

ہندوستان کی تاریخ میں 20 ستمبر 1857 کا دن ایک خونچکاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی پر قبضہ کے بعد جو ظلم و ستم ڈھایا، وہ ہلاکو، چنگیز اور نادر شاہ کی درندگی کو بھی شرمندہ کر گیا۔ اسی ہنگامے میں دہلی کے عظیم عالم، شاعر اور استاد مولانا امام بخش صہبائی اپنے صاحبزادوں اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ شہید کر دیے گئے۔
مولانا امام بخش صہبائی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ مولوی عبدالحق نے انہیں اپنے وقت کا عظیم فارسی ادیب، مصنف اور شاعر قرار دیا ہے جن کی کتابیں نصابِ تعلیم میں شامل تھیں اور جنہیں شہر میں بے پناہ عزت حاصل تھی۔ آپ کا خاندانی سلسلہ والد کی طرف سے حضرت عمر فاروقؓ اور والدہ کی طرف سے حضرت عبدالقادر جیلانیؒ تک پہنچتا ہے۔ آپ کے جد امجد تھانیسر سے دہلی کے کوچہ چیلان میں آ کر آباد ہوئے جہاں 1802 میں مولانا صہبائی کی ولادت ہوئی۔
ابتدائی تعلیم والد بزرگوار کے زیرِ سایہ حاصل کرنے کے بعد آپ نے حضرت عبد اللہ علوی سے فیض پایا۔ عربی اور فارسی پر کامل عبور حاصل کرنے کے بعد شعر و سخن میں بھی طبع آزمائی کی۔ عملی زندگی کا آغاز تدریس سے کیا اور دہلی کالج میں کچھ عرصے تک معلم بھی رہے۔
جلد ہی ان کی علمی قابلیت اور ذہانت کا شہرہ دہلی کے کوچہ و بازار میں پھیل گیا۔ مرزا غالب، علامہ فضل حق خیرآبادی، صدرالدین آزردہ، حکیم مومن خاں مومن، آغا جان عیش، مولوی مملوک علی، شیخ ابراہیم ذوق، شاہ نصیر، نواب مصطفےٰ خاں شیفتہ، سید غلام علی وحشت اور سرسید احمد خاں جیسے اہلِ علم آپ کے رفقا میں شامل تھے۔
اسی دوران مغلیہ سلطنت کا چراغ بجھنے کو تھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا غلبہ بڑھ رہا تھا۔ کمپنی نے مذہب اور تہذیب کو نشانہ بنانا شروع کیا، جو بالآخر بغاوت کی آگ بھڑکانے کا سبب بنا۔ 10 مئی 1857ء کو میرٹھ سے اٹھنے والی چنگاری نے دہلی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قیادت سونپی گئی۔ مگر سازشوں اور غداروں کے سبب یہ جنگ ناکام رہی اور دہلی کو عبرت کدہ بنا دیا گیا۔
شہر میں قتل و غارت کا ایسا بازار گرم ہوا کہ گلی کوچے خون سے رنگین ہو گئے۔ تختہ دار پر ستائیس ہزار افراد لٹکائے گئے، جن میں اکثریت بے گناہوں کی تھی۔ معمولی شبہ پر بھی لوگوں کو مار ڈالا جاتا۔ اسی ظلم کی نذر مولانا امام بخش صہبائی، ان کے بیٹے مولوی عبدالکریم سوز اور مولوی عبدالعزیز عزیز سمیت اکیس اہلِ خانہ ہوئے، جنہیں دریا کے کنارے کھڑا کر کے گولیوں سے بھون ڈالا گیا اور ان کا گھر بھی مسمار کر دیا گیا۔
مولانا صہبائی کی شہادت کی روداد ان کے بھانجے مولانا قادر علی نے یوں بیان کی، ’’دہلی میدانِ حشر بنی ہوئی تھی۔ ہم سب کو گرفتار کر کے دریا کے کنارے لایا گیا۔ ایک مسلمان افسر نے کہا کہ موت سامنے ہے، جو تیرنا جانتے ہیں وہ دریا میں کود جائیں۔ میں تیراک تھا لیکن ماموں (صہبائی) اور ان کے بیٹے تیرنا نہیں جانتے تھے۔ دل نے گوارا نہ کیا کہ انہیں چھوڑ دوں مگر ماموں کے اشارے پر کود پڑا۔ کچھ فاصلے پر پہنچا ہی تھا کہ گولیوں کی آوازیں آئیں اور میں نے دیکھا وہ سب صف بستہ گر کر شہید ہو گئے۔‘‘
یوں مولانا امام بخش صہبائی نے وطن کی حرمت پر اپنی جان قربان کی لیکن انگریز کے آگے جھکنے سے انکار کیا۔ افسوس کہ آج ان کی قربانی تاریخ کے حاشیے پر دھندلا دی گئی ہے، حالانکہ وہ محض شاعر یا استاد نہیں بلکہ ہندوستان کی آزادی کے اولین شہیدوں میں سے ایک تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔