ٹرمپ بھی سمجھ رہے، جنگوں کا خاتمہ اتنا آسان نہیں... اشوک سوین

واشنگٹن کے ذریعہ روس کی سرکردہ بجلی کمپنیوں پر نئی پابندی عائد کرنے کے کچھ ہی دنوں بعد پوتن نے نیوکلیائی تجربہ کیا اور ایک نئی نیوکلیئر بیسڈ میزائل کے کامیاب تجربہ کا اعلان کیا۔

<div class="paragraphs"><p>ڈونالڈ ٹرمپ/ولادیمیر پوتن۔ تصویر ’انسٹاگرام‘</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارت کی اپنی دوسری مدت کار اس وعدے کے ساتھ شروع کی تھی کہ اقتدار میں آنے کے ’24 گھنٹوں کے اندر‘ وہ روس۔یوکرین جنگ ختم کرا دیں گے۔ 10 مہینے گزر چکے ہیں، اور ٹرمپ کو شاید اب اپنی صلاحیت کی حدود کا صحیح اندازہ ہو چکا ہے۔ رواں سال اکتوبر میں بوڈاپیسٹ میں ٹرمپ۔پوتن کی طے شدہ ملاقات ناکام ہو جانے کے بعد جب ماسکو نے واشنگٹن کے موجودہ محاذ پر جنگ روکنے کی پیشکش نامنظور کر دی، تو اس نے بتایا کہ روس کی خواہش کتنی گہری ہے اور ولادمیر پوتن کتنی مہارت سے پورے معاملے کو اپنی مرضی کے مطابق موڑ رہے ہیں۔

لیکن ٹرمپ پر الزام تھوپنے کے بجائے اسے اس بات کا اشارہ سمجھنا بہتر ہوگا کہ جب ایک فریق مکمل فتح پر آمادہ ہو، تو امن قائم کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ یہی حقیقت سمجھتے ہوئے، ٹرمپ نے اپنا موقف بدل کر چین کے تعاون پر بھروسہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ٹرمپ کی امن تجویز بالکل سادہ تھی– لڑائی روکو اور تنازع کو جہاں ہے وہیں ’وقفے‘ پر رکھ دو تاکہ مستقبل میں بات چیت کے لیے جگہ باقی رہے۔ وہ اسے زندگیاں بچانے اور مستقبل میں سمجھوتے کا راستہ ہموار کرنے کے ایک عملی قدم کے طور پر پیش کرتے رہے۔ روس نے اس خیال کو سراسر مسترد کرتے ہوئے دہرایا کہ کسی بھی جنگ بندی میں یوکرین کا غیر مسلح ہونا، قبضے والے 4 علاقوں سے واپسی اور ناٹو کی امنگوں کو ترک کرنا شامل ہونا چاہیے۔


ماسکو نے واشنگٹن کو ایک یادداشت بھی بھیجی جس میں وہ سخت شرائط دہرائی گئیں جن کی وجہ سے امریکہ کو طے شدہ سربراہی اجلاس منسوخ کرنا پڑا۔ پوتن اس مذاکرات کو سمجھوتے کا راستہ نہیں بلکہ اپنے فائدے کو تسلیم کرانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ غور کرنا ضروری ہے کہ پوتن مذاکرات کو کس طرح پیش کرتے ہیں۔ کریملن کا نظریہ عوامی سختی اور عمل میں حکمتِ عملی کی لچک کے امتزاج پر مبنی ہے، نہ کہ مواد پر۔ یہ اگرچہ مذاکرات کے امکانات کی طرف اشارہ دیتا ہے، لیکن اس کا زور اٹل مقاصد پر ہے۔ یہاں امیدوں کو تشکیل دینے کے لیے عسکری توسیع کی بات ہے اور کمی کے چکروں کا استعمال بھی۔ یہاں اعلیٰ سطحی ہتھیاروں کے تجربات اور جوہری مشقوں کے ساتھ ایسے علامتی اشارے بھی ہیں جو اس بات کو نمایاں کرتے ہیں کہ اس پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔

گزشتہ ہفتہ روس نے ایٹمی توانائی سے چلنے والی آبدوز ’خابارووسک‘ کا تجربہ کیا، جسے پوسائیڈن ’قیامت کے دن‘ ایٹمی ڈرون لے جانے کے لیے تیار کیا گیا ہے، اور جو حکمتِ عملی میں ماسکو کی نئی ترجیح کا مظہر ہے۔ ان اقدامات کا مقصد ٹرمپ کو نشانہ بنانا نہیں بلکہ ان پر دباؤ ڈالنا ہے۔ وقفہ لینے کی کوشش کرنے والے کسی بھی امریکی صدر کو یہی بنیادی حقائق جھیلنے پڑیں گے، جب تک کہ پوتن اپنے مقصد کو از سرنو متعین نہیں کر لیتے یا ان پر ایسا مسلسل دباؤ نہیں ڈالا جاتا جو ان کے ارادوں کو بدل دے۔


اس پس منظر میں ٹرمپ کے اختیارات 3 فریقوں کے لیے خاصے اہم ہیں۔ یوکرین کے لیے (انہوں نے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ مذاکرات کے راستے کھلے رکھنے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی ایسے خیالات پر زور دیا ہے جو جنگ کی رفتار کو تھام سکیں)، یورپ کے لیے (جہاں انہوں نے بار بار اتحادیوں سے سلامتی اور مالی بوجھ زیادہ سے زیادہ اٹھانے کی توقع کی ہے)، اور روس کے لیے (جہاں انہوں نے پابندیوں کی وارننگوں اور عزت بچانے والی تجاویز کے درمیان باری باری بات چیت کی ہے)، تاکہ جنگ بندی زیادہ پُرکشش اور باوقار لگے۔ ان راستوں پر توازن قائم رکھنا بہترین وقت میں بھی آسان نہیں ہوتا۔ ایسا کرنا اس وقت اور زیادہ مشکل ہو جاتا ہے جب یورپ میں اگلے محاذ غیر مستحکم ہوں اور داخلی سیاست اس قدر متنازع ہو۔

ٹرمپ نے اپنی جانب سے خونریزی ختم کرنے اور مذاکرات کے لیے ایک ممکنہ نقطۂ آغاز تلاش کرنے پر توجہ مرکوز رکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ مسلسل کہتے رہے ہیں کہ نہ ختم ہونے والی جنگ سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور بڑی طاقتوں کو دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیے۔ ان کا چیلنج اس خواہش کو روسی قیادت پر دباؤ میں بدلنا رہا ہے، جس کی نظر میں کسی بھی رعایت کا مطلب کمزوری ہے۔


واشنگٹن کی جانب سے روس کی توانائی کی بڑی کمپنیوں پر نئی پابندیاں عائد کرنے کے چند ہی دن بعد، پوتن نے جوہری مشق کی اور ایک نئی جوہری توانائی سے چلنے والی میزائل کے کامیاب تجربے کا اعلان کیا، اور اس کی ’لامحدود تباہ کن صلاحیت‘ کا بھرپور دعویٰ کیا۔ پیغام بالکل واضح تھا— ماسکو کسی دباؤ کے آگے جھکنے والا نہیں ہے اور وہ مذاکرات کو اپنے وسیع تر فوجی و حکمتِ عملی کے ایجنڈے سے جوڑتا رہے گا۔

ناٹو اور یورپ اب خود کو اس پیچیدہ ماحول کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے پا رہے ہیں۔ مشرقی یورپ میں فوجیوں کی محدود کمی... یعنی جرمنی، رومانیہ اور پولینڈ سے تقریباً 700 فوجیوں کی واپسی کے امریکی اعلان نے تشویش پیدا کی ہے، لیکن باضابطہ طور پر اسے ایک ’متوازن رویے‘ کا حصہ بتایا جا رہا ہے، جو مضبوط یورپی صلاحیتوں کی علامت ہے۔ اس دوران یورپی حکومتیں یوکرین کے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے اپنی کوششوں کو دو گنا کر رہی ہیں۔


فرانس اور جرمنی نئی سلامتی کی ضمانت اور حتیٰ کہ جنگ بندی کی صورت میں مستقبل میں امن کی بحالی چاہتے ہیں۔ فرانسیسی صدر امینوئل میکرون نے 3 ستونوں پر مبنی ایک منصوبہ تیار کیا ہے اور اس کے پیچھے 2 درجن سے زیادہ ممالک کو شامل کیا ہے— یوکرین کی فوج کو مضبوط کرنا، یورپی قیادت میں سلامتی فورس تیار کرنا اور امریکی سلامتی کا جال برقرار رکھنا۔ چیلنج یہ ہے کہ جیسے جیسے تنازع آگے بڑھتا ہے، ان تینوں کو کس طرح متحد رکھا جائے۔

ہمیشہ موقع پرست رہنے والے پوتن اٹلانٹک کے دونوں جانب کسی بھی اختلاف کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ وہ یورپ پر ’جنون‘ کا الزام لگاتے ہیں، ہنگری کے وکٹر اوربان جیسے ہمدرد رہنماؤں کو اضافی سودے کی پیشکش کرتے ہیں اور اتحاد کی یکجہتی توڑنے کے لیے گمراہ کن معلومات کو فروغ دیتے ہیں۔ ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات کو کھلا رکھ کر، وہ فوجی کارروائی جاری رکھتے ہوئے بھی اپنی موجودگی اور قانونی حیثیت کا تاثر قائم رکھتے ہیں۔ تاخیر ماسکو کے جنگی حساب کتاب کے لیے فائدہ مند ہے۔ پھر بھی ٹرمپ کی جانب سے مذاکرات کے لیے پیدا کیا گیا دباؤ، اگرچہ اب تک اس کے نتائج مایوس کن رہے ہیں، بین الاقوامی توجہ کو جنگ ختم کرنے کی ضرورت پر مرکوز رکھے ہوئے ہے۔


ٹرمپ کے نقطۂ نظر کا قابلِ ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی نظر میں جنگ کا حل چین کو توازن میں شامل کرنے پر منحصر ہو سکتا ہے۔ اکتوبر میں شی جنپنگ کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’’بیجنگ ہماری مدد کرے گا اور ہم یوکرین پر مل کر کام کریں گے۔‘‘ ایسے تنازع میں جہاں چین-روس کی بنیادی اقتصادی شہ رگ بنا ہوا ہے، کسی بھی بامعنی سفارتی پیش رفت کے لیے غالباً چینی شمولیت ضروری ہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ سمجھنے لگے ہیں کہ چین کی شمولیت کے بغیر، صرف پابندیوں کی دھمکی سے ماسکو کے حساب کتاب پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا ہے۔

یوکرین اگرچہ اب بھی مضبوط ہے، لیکن اس کی تھکن ظاہر ہونے لگی ہے۔ اس نے پوکرووسک جیسے اہم شہروں کو روسی حملوں کے دوران محفوظ رکھا ہے، جبکہ اس کے رہنما ایک اور سخت سردی سے پہلے اضافی مغربی فضائی دفاعی امداد اور توانائی سلامتی پر زور دے رہے ہیں۔ میزائل اور ڈرون حملوں کی ہر نئی لہر بار بار احساس دلاتی ہے کہ امن اب بھی بہت دور ہے۔ یوکرین والے جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں، لیکن اپنی خود مختاری کے سمجھوتے کی قیمت پر نہیں۔ ظاہر ہے ٹرمپ سمیت ثالثوں کے لیے بڑی چیلنج ماسکو کی امنگوں اور کیف کی خودمختاری برقرار رکھنے کی اٹل خواہش کے درمیان ایک پوشیدہ مشترکہ بنیاد تلاش کرنا ہے۔


یوکرین اپنے گرڈ پر سردیوں کے حملوں کے لیے تیاری کر رہا ہے اور سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں سے شہریوں کو منتقل کرتے ہوئے تھکی ہوئی فوجی یونٹوں کو تبدیل کر رہا ہے۔ روس یوکرین کے دفاع میں کمزوریوں کو آزما کر اسٹریٹجک فائدے کی تلاش میں ہے، جسے وہ سودے بازی کی طاقت میں بدل سکے۔ یورپ حمایت اور مزاحمت کے بہترین امتزاج پر غور کرتے ہوئے اپنی سلامتی کے نظام کو مضبوط کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے نئے دباؤ کی تلاش میں ہیں۔ بوڈاپیسٹ منصوبے کا خاتمہ سفارت کاری کا انجام نہیں سمجھا جانا چاہیے، لیکن یہ یقینی طور پر ایک حقیقت ہے کہ حقیقی تناؤ کو کم کرنا کتنا مشکل ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔