عوام معاشی طور پر مستحکم ہوں اور قائد مخلص ہوں
ہندوستانی مسلمانوں کو موجودہ حالات میں اپنے معاشی استحکام پر توجہ دینی چاہئے۔ مذہبی اور سیاسی اختلافات کے درمیان، تعلیم اور روزگار ان کی ترجیح بن کر انہیں سماجی اور اقتصادی طور پر مستحکم کر سکتے ہیں

تشدد زدہ سنبھل میں سخت حفاظتی انتظامات / آئی اے این ایس
اس وقت ہندوستانی مسلمان کافی بے چین نظر آ رہے ہیں۔ ان کی یہ بے چینی فطری بھی ہے لیکن مسلمانوں سے زیادہ یہ بے چینی حکمراں جماعت اور اس کی سرپرست تنظیم میں نظر آ رہی ہے اور وہ بھی فطری ہے کیونکہ وہ جس نظریے کی تبلیغ کرتے ہیں، ان کے لیے اقتدار سے بے دخل ہونے کا مطلب ایسا ہے جیسے ملک سے بے دخل ہو جانا۔ حکمراں جماعت اور اس کی سرپرست تنظیم، جس کے اوپر یہ الزام لگتے رہے ہیں کہ ان کا حصول آزادی میں کوئی کردار نہیں رہا، وہ آزادی کے لمبے وقفے کے بعد اقتدار میں آئے ہیں۔ ان کا آزادی میں کوئی کردار نہ ہونے کی وجہ بھی یہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے کبھی تصور ہی نہ کیا ہو کہ انگریزوں سے بھی اقتدار حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن کچھ سر پھروں کی وجہ سے آزادی حاصل ہوئی اور اقتدار بھی منتقل ہوا۔
مخلوط حکومت کے دور کے بعد حکمراں جماعت اور اس کی سرپرست تنظیم نے اقتدار کا مزہ صرف چکھا نہیں بلکہ مکمل طور پر بھرپور انداز میں حاصل کیا۔ کانگریس کی بدعنوانی اور گورننس کی کمی کو مدعا بناتے ہوئے موجودہ حکمراں جماعت اور اس کی سرپرست تنظیم اقتدار کی سیڑھیاں چڑھ گئی۔ عوام بے چارے بدعنوانی اور گورننس کی کمی کے جھانسے میں آ بھی گئے لیکن ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، کیونکہ جن مدعوں پر وہ اقتدار میں آئے تھے، وہ محض انتخابی مدعے ثابت ہوئے۔ عوام کو جب تبدیلی کے اپنے خوابوں کے شرمندۂ تعبیر نہ ہونے کا کوئی راستہ نظر نہیں آیا تو وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ اپنی کمیوں اور خامیوں کو چھپانے کے لیے برسرِاقتدار جماعت نے کھل کر محبِ وطن اور ایک خاص مذہب کی سیاست کو ہوا دینا تیز کر دیا۔ اس تیز ہوا میں بہت سے چراغ بجھ بھی گئے اور بہت سے چراغوں کی لو مدھم بھی پڑ گئی، جس کا سیدھا فائدہ برسرِاقتدار جماعت کو ہی پہنچا۔
حزبِ اختلاف نے اپنے اپنے انداز میں مرکز کی برسرِاقتدار جماعت کے خلاف علم اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ اتنی کمزور ثابت ہوئی کہ علم بھی ان کے ہاتھوں پر لڑکھڑاتا نظر آیا۔ ماضی میں بدعنوانی نے کیونکہ تبدیلی اقتدار میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس لیے کانگریس نے رافیل میں مبینہ بدعنوانی کو مدعا بنایا لیکن اس سے پہلے ہی یہ مدعا بنتا، تو پورا ملک بالاکوٹ اور اس کے ردعمل میں برسرِاقتدار جماعت کی کارروائی کی وجہ سے محبِ وطن کے جذبے سے لبریز ہو گیا، اور بدعنوانی کا مدعا کہیں کھو گیا۔
سال 2024 کے انتخابات سے پہلے حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کو یہ احساس ہوا کہ ان کے اتحاد کے بغیر مرکز میں برسرِاقتدار جماعت کو اقتدار سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ حزبِ اختلاف نہ صرف متحد ہوا بلکہ کسی حد تک اس کو کامیابی بھی ملی اور حکمراں جماعت کو دس سال میں پہلی مرتبہ اپنے اتحادیوں کی مدد لینی پڑی۔ اس کے لیے جہاں آئین کا مدعا سب سے اوپر رہا، وہیں ایک کارپوریٹ گھرانے کے خلاف خبروں نے بھی عوام میں بیداری پیدا کی۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ حکمراں جماعت نے اپنی نفرت کی سیاست میں شدت پیدا کر دی، جس کے نتیجے میں 'بٹوگے تو کٹوگے' اور 'ایک ہیں تو سیف ہیں' جیسے نعروں نے جگہ لی اور اس کے بعد اس شدت میں اتنا اضافہ ہوا کہ پہلے پولیس پر مسلمانوں کو ووٹ نہ ڈالنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا الزام لگا اور بعد میں سنبھل جیسے واقعات سامنے آئے۔
اسی کے ساتھ ایک عرصے سے خاموش بیٹھے جامع مسجد کے امام مولانا احمد بخاری نے بھی جمعہ کے اپنے خطبے میں سنبھل تشدد کو اپنے خطاب کا موضوع بنایا اور کئی مولاناؤں نے حکومت اور حکمراں جماعت پر سخت الفاظ میں تنقید کی۔ اس کے ساتھ یوٹیوب پر بھی لوگوں نے اس نفرت کے قانونی پہلوؤں کو سمجھانا شروع کر دیا۔ ہندوستان کا بے چارہ مسلمان جو پہلے سے ہی بے چینی کا شکار تھا، اس کو یہ سب ریگستان میں پانی کی امید کی شکل میں نظر آیا، ویسے ہی جیسے بابری مسجد معاملے میں بھی اس کو امید نظر آئی تھی۔ اس امید نے نہ صرف حزبِ اختلاف کو اقتدار کے مسند تک پہنچنے میں مدد کی بلکہ عدلیہ میں بھی ایسے سی جے آئی کو جگہ دے دی، جو قانونی فیصلے میں بھی مذہبی خدا کی مدد سے ہی فیصلہ دیتے ہیں۔ مسلم قائد اور قانونی رائے دینے والے لوگ اپنے غصے اور نیک جذبات میں ایسا کرتے ہیں، لیکن ایک طبقہ یہ چاہتا ہے کہ ان کے ذریعے اٹھائے گئے اقدام کی مخالفت ہو، تاکہ ایک مذہبی طبقہ ان کی حمایت کرے اور دوسرے طبقے کی شبیہ خراب ہو اور ان کی آراء بھی منقسم ہو۔
مسلمان بے چارہ کس کی بات پر یقین کرے اور کس کی مانے، اس کے لیے بہت مسئلہ ہے۔ مولویوں اور یوٹیوبرز کو اپنی مخالفت جاری رکھنی چاہئے لیکن انہیں جہاں دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے، وہیں مخلص انداز میں ہی سوچنا چاہئے۔ انہیں اپنے ذاتی فائدے کے لیے کسی کا آلۂ کار نہیں بننا چاہئے۔ بابری مسجد کے وقت حصولِ تعلیم بہت بڑا ہتھیار تسلیم کیا جاتا تھا لیکن اس دور میں معاشی طور پر مستحکم ہونا اور روزگار فراہم کرنا ہی ملک اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے سب سے بڑا کام ہے۔ مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ سب کی سنیں لیکن اپنے ہدف یعنی معاشی استحکام کو سامنے رکھیں۔ ہمارے سامنے دو طبقوں کی مثالیں موجود ہیں، جن میں یہودی اور سکھ قوم ہے۔ دونوں قوموں کی ترجیح معاشی استحکام ہے، جس کا فائدہ ملک اور ان کے آس پاس کے لوگوں کو پہنچتا ہے، نہیں تو آپ استعمال ہوتے رہتے ہیں اور ایسے سی جے آئی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔